Search This Blog

मलफ़ूज़ात हकीमुल उम्मत हज़रत थानवी

हज़रत की नज़र

एक मौलवी साहब ने अर्ज़ किया कि हज़रत, शैतान भी आपका बड़ा ही दुश्मन है, जितनी दुश्मनी तमाम हिंदुस्तान के मुसलमानों से होगी उतनी अकेले हज़रत से है, क्योंकि हज़रत उसके मकर व फरेब (मक्कारी और धोखे) से अल्लाह की मख़लूक़ को आगाह (सचेत) फरमाते रहते हैं, वह इस पर जलता भुनता होगा। 

फ़रमाया कि मुमकिन (संभव) है, मगर साथ ही वह मुझको नफ़ा (लाभ) भी बहुत पहुँचाता है, इस तरह से कि वह लोगों को बहकाता है और लोग मुझको नाहक़ (बिला वजह) गालियाँ देते हैं, इस पर सब्र करता हूँ, अल्लाह मेरे गुनाह माफ़ करता है और दर्जात बुलंद करता है।

मलफूज़ात हकीम-उल-उम्मत : भाग 1 पृष्ठ. 149

Malfoozat Hakimul-Ummah Hazrat Thanvi

Hazrat Thanvi's Vision 

A scholar said, "Hazrat, even Satan is a great enemy of yours. His enmity towards you is as intense as it is towards all the Muslims of India combined, because you continuously warn Allah’s creation about his deceit and trickery. He must be burning with anger because of this."

Hazrat replied, "It is possible, but at the same time, he also benefits me greatly in a way. He misguides people, and they unjustly insult me. I endure it with patience, and in return, Allah forgives my sins and elevates my ranks."

Malfoozat Hakim-ul-Ummah: Volume 1, Page 149

Malfoozat Hakimul-Ummah Hazrat Thanvi


حضرت کی نظر

ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت شیطان بھی آپ کا بڑا ہی دشمن ہے ، جس قدر تمام ہندوستان کے مسلمانوں سے دشمنی ہو گی اتنی اکیلے حضرت سے ہے ، کیونکہ حضرت اس کے مکر و فریب سے اللہ کی مخلوق کو آگاہ فرماتے رہتے ہیں وہ اس پر جلتا بُھنتا ہو گا ۔ 
فرمایا کہ ممکن ہے ، مگر ساتھ ہی وہ مجھ کو نفع بھی بہت پہنچاتا ہے، اس طرح سے کہ وہ لوگوں کو بہکاتا ہے وہ مجھ کو ناحق گالیاں دیتے ہیں، اس پر صبر کرتا ہوں اللہ میرے گناہ معاف فرماتا ہے اور درجات بلند کرتا ہے ۔

ملفوظات حکیم الامت : جلد 1 ص 149

मलफ़ूज़ात हकीमुल उम्मत हज़रत थानवी

"बेहतर अज़ सद साला ताअते बे रिया" का मतलब (अर्थ)

एक मौलवी साहब ने अर्ज़ किया कि हज़रत ज़रा इसका मतलब बयान फरमा दें, इसका मतलब क्या है:

"सोहबत-ए-नेकां अगर यक साअत अस्त,  
बेहतर अज़ सद साला ज़ोहद ओ ताअत अस्त।"

(नेक़ों की सोहबत (संगत) अगर एक साअत (घड़ी) के लिए मुयस्सर (हासिल) हो जाए तो सौ साला ज़ोहद ओ ताअत से (जो बग़ैर रहबर-ए-कामिल के हो) बेहतर है।)

फ़रमाया मुझसे तो आप ही बेहतर समझने वाले हैं मगर मैं जो समझा हूँ वह यह है कि कामिल (पीर) की सोहबत में बाज़ औक़ात (कभी कभी) कोई ग़ुर हाथ आ जाता है या कोई हालत ऐसी क़ल्ब (दिल) में पैदा हो जाती है जो सारी उम्र के लिए मिफ़्ताह-ए-सआदत (नेकी और ख़ुशी की कुंजी) बन जाती है।  
यह कुल्लिया (नियम) नहीं बल्कि मोहमला (अनिश्चित) है। हर वक़्त या हर साअत (समय) मुराद नहीं। बल्कि वही वक़्त और वही साअत मुराद है जिसमें ऐसी हालत पैदा हो जाए।

अर्ज़ किया तो क्या हर सोहबत इस वजह से मुफ़ीद (लाभदायक) न होगी?  

फ़रमाया कि है तो यही मगर किस को इल्म (ख़बर) है कि वो कौन साअत (घड़ी) है जिसमें यह हालत मुयस्सर होगी। हर सोहबत में इसका एहतिमाल (संभावना) है इसलिए हर सोहबत का एहतिमाम (ख़्याल) चाहिए। इस से हर सोहबत का मुफ़ीद और नाफ़े (लाभदायक) होना ज़ाहिर है और इस हालत को सद साला ताअत (सौ साल की इबादत) के क़ाइम मक़ाम (बराबर) बतलाने को एक मिसाल से समझ लीजिए:
अगर किसी के पास सौ गिन्नी हों तो बज़ाहिर तो उसके पास अम्तिआ (सामान) में से एक चीज़ भी नहीं मगर अगर ज़रा तअम्मुक (गहराई) की नज़र से देखा जाए तो हर चीज़ उसके क़ब्ज़ा में है। इसी तरह अगर वो कैफ़ियत उसके अंदर पैदा हो गई तो बज़ाहिर तो ख़ास ताअतों (इबादतों) में से कोई भी चीज़ उसके पास नहीं मगर हुक्मन (आदेशानुसार) हर चीज़ है। पस मुराद आमाल पर क़ुदरत (क़ाबू) होना है, इस से सब काम उसके बन जाएंगे और असल चीज़ वही काम हैं जिनकी यह मिफ़्ताह (कुंजी) सोहबत में नसीब हो गई। अगर वो आमाल न किए तो निरी मफ़्ताह किस मसरफ (इस्तेमाल) की।

इसी लिए यह कहता हूँ कि बिदून आमाल (बिना इबादत) न कुछ एतिबार है अक़वाल (बात) का, न अहवाल (हालत) का, न कैफ़ियात का। इसी लिए इन चीज़ों में से किसी चीज़ में भी हज़्ज़ (मज़ा) न होना चाहिए। अगर एतिबार के क़ाबिल कोई चीज़ है तो वह आमाल हैं और आमाल बिला तौफ़ीक-ए-हक़ के मुश्किल और तौफ़ीक आदतन मौक़ूफ़ (आधारित) है सोहबत-ए-कामिल पर।

मल्फ़ूज़ात हकीम-उल-उम्मत रह.: भाग 1, पृष्ठ 49

Malfoozat Hakimul-Ummah Hazrat Thanvi

The meaning of "Better than a hundred years of unpretentious devotion.

A scholar asked, "Hazrat, please explain the meaning of this phrase:

"The companionship of the righteous, even for a moment,  
Is better than a hundred years of asceticism and devotion."

(If one is blessed with the companionship of the righteous, even for a moment, it is better than a hundred years of asceticism and devotion (that is performed without a complete guide).

He (Hakim-ul-Ummah) replied, "You are more knowledgeable than I am, but my understanding is that sometimes, in the company of a perfect mentor, a secret is revealed, or a state arises in the heart that becomes the key to happiness for a lifetime. This is not a general rule but an exceptional case. It is not meant to imply that every moment is beneficial, but only that specific moment when such a state occurs."

The scholar asked, "Does this mean that not every companionship would be beneficial?"  
He replied, "It is true, but who knows which moment it will be when such a state will be attained. There is always a possibility of this happening in every companionship, so one should be diligent in seeking companionship. This indicates that every companionship has the potential to be beneficial and useful. To understand how this state can be equivalent to a hundred years of devotion, consider this example: If someone possesses a hundred coins, outwardly, he may not have any valuable items, but if we think deeply, he actually has access to everything. Similarly, if this quality arises within a person, he may not seem to possess specific acts of worship, but in reality, he holds the essence of everything."

"So, the main point is that it is the ability to act upon deeds that matters. With that ability, everything will fall into place, and the essential part is those deeds for which this key has been attained through companionship. If those deeds are not performed, then the key alone is of no use."

"That's why I say that without actions, neither words, states, nor conditions have any significance. One should not become too attached to these things. If there is anything worth considering, it is actions, and actions are difficult without the grace of Allah. This grace, generally, depends on the companionship of a perfect mentor."

Malfoozat Hakim-ul-Ummah (RA), Volume 1, Page 49

Malfoozat Hakimul-Ummah Hazrat Thanvi

"بہتر از صد ساله طاعت بے ریا" کا مطلب

ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ذرا اس کا مطلب بیان فرما دیں، اس کا مطلب کیا ہے:

صحبتِ نیکاں اگر یک ساعت است۔
بہتر از صد ساله زہد و طاعت است۔

(نیکوں کی صحبت اگر ایک ساعت کیلئے میسر ہو جائے تو سو سالہ زہد و طاعت سے (جو بغیر رہبرِ کامل کے ہو ) بہتر ہے)

فرمایا مجھ سے تو آپ ہی بہتر سمجھنے والے ہیں مگر میں جو سمجھا ہوں وہ یہ ہے کے کامل کی صحبت میں بعض اوقات کوئی گُر ہاتھ آ جاتا ہے یا کوئی حالت ایسی قلب میں پیدا ہو جاتی ہے جو ساری عمر کے لئے مفتاحِ سعادت بن جاتی ہے۔
 یہ کلیہ نہیں بلکہ مہملہ ہے۔ ہر وقت یا ہر ساعت مراد نہیں ۔ بلکہ وہی وقت اور وہی ساعت مراد ہے جس میں ایسی حالت پیدا ہو جائے۔

عرض کیا تو کیا ہر صحبت اس وجہ مفید نہ ہو گی ؟ 
فرمایا کہ ہے تو یہی مگر کس کو علم ہے کہ وہ کون ساعت ہے جس میں یہ حالت میسر ہو گی ۔ ہر صحبت میں اس کا احتمال ہے اسلئے ہر صحبت کا اہتمام چاہئے ۔ اس سے ہر صحبت کا مفید اور نافع ہونا ظاہر ہے اور اس حالت کو صد سالہ طاعت کے قائم مقام بتلانے کو ایک مثال سے سمجھ لیجئے ۔ اگر کسی کے پاس سو گِنی ہوں تو بظاہر تو اس کے پاس امتعہ میں سے ایک چیز بھی نہیں مگر اگر ذرا تعمّق کی نظر سے دیکھا جائے تو ہر چیز اس کے قبضہ میں ہے اسی طرح اگر وہ کیفیت اس کے اندر پیدا ہو گئی تو بظاہر تو خاص طاعات میں سے کوئی بھی چیز اس کے پاس نہیں مگر حُکماً ہر چیز ہے۔ پس مراد اعمال پر قدرت ہونا ہے اس سے سب کام اس کے بن جائیں گے اور اصل چیز وہی کام ہیں جن کی یہ مفتاح صحبت میں نصیب ہو گئی، اگر وہ اعمال نہ کئے تو نِری مفتاح کس مصرف کی .

اسی لئے یہ کہتا ہوں کہ بدون اعمال نہ کچھ اعتبار ہے اقوال کا نہ احوال کا نہ کیفیات کا ۔ اس ہی لئے ان چیزوں میں سے کسی چیز میں بھی حظ نہ ہونا چاہئے اگر اعتبار کے قابل کوئی چیز ہے تو وہ اعمال ہیں اور اعمال بلا توفیق حق کے مشکل اور توفیق عادةً موقوف ہے صحبتِ کامل پر.

ملفوظات حکیم الامت رح: جلد 1، صفحہ 49

Characteristics of Good Students

اچھے طالب علم کی خصوصیات

شمس الہدیٰ قاسمی، 
جامعہ اکل کوا، مہاراشٹر 


علم کی فضیلت
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں علم، طلبِ علم اور طالب علم کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ کہیں فرمایا گیا ہے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ کہیں علم میں اضافے کی دعا سکھائی گئی ہے تو کہیں علمِ نافع کی دعا مانگنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔
 
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک عام آدمی پر ہے۔ ترمذی

ایک جگہ نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص علم کی تلاش میں نکلتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں۔ (مسلم)

اسی طرح بیہقی میں ایک روایت ہے جس میں فرمایا گیا کہ عالم بنو، یا طالب علم بنو، یا علم کی باتیں سننے والے بنو، یا اہل علم سے محبت کرنے والے بنو، پانچواں نہ بنو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔ اس حدیث میں کا صراحت کے ساتھ علم اور علم حاصل کرنے فضیلت بیان کی گئی ہے نیز علم اور علماء سے دوری کی صورت میں ہلاک ہونے کی تنبیہ کی گئی ہے۔ 

مذہبِ اسلام میں علم اور طلبِ علم کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ لہٰذا ہمیں اس بات کے جاننے کی بھی کوشش کرنی چاہیے کہ آخر حصولِ علم کے آداب کیا ہیں، وہ کون سی خصوصیات اور خوبیاں ہیں جو طالبِ علم کو ایک بہترین اور مثالی طالب علم بناتی ہیں اور اسے کامیابی سے ہم کنار کرتی ہیں۔ اس مضمون میں ہم اچھے اور مثالی طالب علم کی چند خصوصیات ذکر کرتے ہیں۔ 

 بہترین طالب علم
ایک بہترین اور مثالی طالب علم وہ ہوتا ہے جو اپنی نیت کو خالص کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا، اپنی اصلاح اور دوسروں کی بھلائی کے لیے علم کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی تعلیم کے معاملے میں نہایت مخلص، سنجیدہ اور محنتی ہوتا ہے۔ لگن اور شوق کو اپنا اوڑھنا، بچھونا بناتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنی تعلیم میں نمایاں کارکردگی دکھاتا ہے بلکہ اخلاقی اور سماجی اعتبار سے بھی قابلِ تقلید ہوتا ہے۔ ایک بہترین طالب علم کی خصوصیات صرف تعلیمی میدان تک محدود نہیں ہوتیں بلکہ وہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی نمایاں ہوتی ہیں۔

 مطالعہ کی عادت
بہترین طالب علم مطالعہ کرنے کا عادی ہوتا ہے۔ وہ روزانہ اپنے قیمتی اوقات کتابوں کے مطالعے میں صرف کرتا ہے اور مضامین کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ نہ صرف نصابی کتابیں پڑھتا ہے بلکہ غیر نصابی کتابوں سے بھی حد درجہ شغف رکھتا ہے اور ان سے معلومات حاصل کرتا ہے تاکہ اس کی معلومات کا دائرہ وسیع ہو، مضامین کے سمجھنے میں آسانی ہو اور علم و شعور میں پختگی آئے۔ 

 وقت کی پابندی
وقت کی پابندی ایک بہترین اور مثالی طالب علم کی اہم خصوصیت ہے۔ وہ وقت کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور اپنے تمام تعلیمی کاموں اور سرگرمیوں کو مقررہ وقت پر مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ مدرسہ، اسکول، کالج، یا یونیورسٹی کے مقررہ وقت پر پہنچتا ہے اور اپنے وقت کو موثر طریقے سے استعمال کرتا ہے۔ کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے: 
وقت برباد کرنے والوں کو
وقت برباد کرکے چھوڑے گا 
 جو وقت میسر ہے اسی میں کچھ کر گزرنے کی انسان میں صلاحیت ہوتی ہے۔ گزرے ہوئے وقت کو واپس نہیں لایا جا سکتا، اچھے اور مثالی کو معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل ایک خواب  ہے جس کی تعبیر حال میں محنت کرکے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ 

 توجہ اور محنت 
درس گاہ اور کلاس میں توجہ دینا اور محنت سے تعلیم حاصل کرنا ایک بہترین طالب علم کی نشانی ہے۔ وہ استاد کی باتوں کو غور سے سنتا ہے، دوران درس سستی اور کاہلی کو اپنے پاس بھٹکنے نہیں دیتا۔ مثالی طالب علم سبق سے متعلق استاذ سے سوالات پوچھ کر اپنے شکوک کو دور کرتا ہے۔ وہ اپنے الفاظ میں سبق کا خلاصہ تیار کرتا ہے۔ اہم نکات اور معلومات کو نوٹس کی شکل میں تحریر کرتا ہے۔ مشکل بحثوں کا بار بار مطالعہ کرتا ہے۔ خود سے سوالات کرتا ہے اور ان کے جوابات تلاش کرتا ہے۔ وہ محنت، لگن اور خلوص سے پڑھائی کرتا ہے اور امتحانات کے ایام اس کے لیے عام دنوں کی طرح ہوتے ہیں کیوں کہ وہ ہر وقت امتحان کے لیے تیار رہتا ہے اور اسباق کے مضامین پر وقت اس کے ضبط و کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ 

 تنقیدی سوچ
تنقیدی سوچ ایک بہترین طالب علم کی اہم خصوصیات میں شامل ہے۔ معلومات کا تجزیہ کرنا، حقائق کا جائزہ لینا، مفروضوں پر سوالات اور مختلف نکات و نقطۂ نظر پر غور کرنا جیسے امور ایک اچھے طالب علم کے معمولات میں شامل ہوتے ہیں۔ مضامین و مسائل کو مختلف زاویوں سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ مضامین اور مواد کو رٹنے کے بجائے انہیں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ حقیقی اور عملی زندگی میں بھی اس علم کو استعمال کر سکے اور خود کو حقیقی علوم سے وابستہ اور ہم آہنگ کر سکے۔ 

 حوصلہ اور مثبت رویہ
حوصلہ مند اور مثبت رویہ رکھنے والا طالب علم مشکلات کا سامنا کرنے سے نہیں گھبراتا اور ہر حال میں مثبت رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مستقل محنت کرتا ہے اور ناکامی سے سیکھتا ہے۔ وہ مشکلات میں مواقع تلاش کرتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ ناکامی کامیابی کا پہلا زینہ ہے۔ 

 وقت کا نظم و نسق
ایک اچھا طالب علم اپنے وقت کا نظم و نسق جانتا ہے۔ وہ روزانہ کے کاموں کو مناسب طریقے سے ترتیب دیتا ہے اور مقررہ وقت میں مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے وقت کو صحیح طریقے سے تقسیم کرتا ہے تاکہ پڑھائی، ہوم ورک، کھیل، اور دیگر سرگرمیوں کے لیے مناسب وقت مل سکے۔ اچھا طالب علم جانتا ہے کہ کاموں کی بے ترتیبی نہ صرف وقت کو ضائع کرتی بلکہ ہمارے مطلوبہ نتائج کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ 

 تعاونی رویہ
بہترین طالب علم اپنے ساتھیوں کی مدد کرنے میں بھی دلچسپی لیتا ہے۔ وہ دوسروں کو درس سمجھانے اور ان کی مشکلات دور کرنے میں پیش پیش رہتا ہے۔ اس کے اس رویے سے نہ صرف اس کے ساتھیوں کو فائدہ ہوتا ہے بلکہ اس کی اپنی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور مضامین پر گرفت اور پختگی پیدا ہوتی ہے۔ 

 استاد کا احترام
استاد کا احترام اور ان کی باتوں کو اہمیت دینا ایک بہترین طالب علم کی اہم خصوصیت ہے۔ وہ استاد کی رہنمائی کو اہمیت دیتا ہے اور ان کی ہدایات پر عمل کرتا ہے۔ استاد کا احترام کرنا نہ صرف ایک طالب علم کا فرض ہے بلکہ اس کی شخصیت کی تعمیر میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔

 خود انضباطی
خود انضباطی (سیلف کنٹرول) اور ڈسپلن ایک بہترین طالب علم کی ایک بہترین نشانی ہے۔ وہ اپنے جذبات اور احساسات کو قابو میں رکھتا ہے اور غیر ضروری تفریحات، بے جا خواہشات کی تکمیل سے دور رہتا ہے۔ دوسروں کی لائف اسٹائل (طرز زندگی)، الیکٹرانک آلات، موبائل فونز، آئی پیڈ وغیرہ سے متاثر نہیں ہوتا وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مستقل محنت کرتا ہے اور اپنی زندگی کو منظم طریقے سے گزارتا ہے۔ سوشل میڈیا پر تفریح، فلمی ویڈیوز، چیٹنگ وغیرہ میں وقت ضائع نہیں کرتا بلکہ انہیں مثبت معلومات کے حصول کے لیے بقدرِ ضرورت استعمال کرتا ہے۔

تلاوت، دعا و استغفار
مثالی طالب علم کے لیے قرآن کریم کی تلاوت، دعاؤں کا اہتمام اور گناہوں سے استغفار کرنا نہایت اہم ہے، کیوں کہ تلاوت سے روح کو غذا، ذہن کو تازگی ملتی ہے۔ دعا ایمان کو مضبوط بناتی ہے اور اللہ کی مدد حاصل کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ دعا کے ذریعے طالب علم اپنی مشکلات، امتحانات، اور دیگر مسائل کے حل کے لیے اللہ سے مدد طلب کر سکتا ہے۔ 

نماز کی پابندی
نماز اللہ سے قربت کا بہترین ذریعہ ہے۔ ایک مثالی طالب علم کو پانچ وقت کی نماز کی پابندی کرنی چاہیے اور نماز میں اللہ سے اپنی پڑھائی اور دیگر معاملات میں کامیابی کی دعا کرنی چاہیے۔

 نتیجہ
بہترین طالب علم کی یہ خصوصیات اسے نہ صرف تعلیمی میدان میں کامیاب بناتی ہیں بلکہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی نمایاں کرتی ہیں۔ ایسے طلبہ معاشرے کے لیے ایک نمونہ ہوتے ہیں اور ان کی کامیابی دوسروں کے لیے تحریک کا باعث بنتی ہے۔ ایک بہترین طالب علم بننے کے لیے ان تمام خصوصیات کو اپنی زندگی میں شامل کرنا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ایک کامیاب زندگی گزار سکیں۔

Learning English Expressions (1)


Lesson No. 1

Different Forms of Subjects

آج کے سبق میں ہم تین طرح کے جملوں کی مشق کریں گے:

پہلا جملہ: احمد کو اسکول جانا ہے۔  Ahmad has to go to school.

دوسرا جملہ: اس لڑکے سے لکھا  نہیں جاتا۔     That boy is not able to write.

تیسرا جملہ: احمد کی کتابیں مہنگی ہیں۔ The books of Ahmad are expensive.

·                   جملوں میں فاعل (subject)  کو معلوم کرنا اہم ہوتا ہے اور اسی کے مطابق جملے بنتے ہیں، اگر فاعل  (subject) کی تعیین صحیح نہیں ہوئی تو جملے کی تشکیل غلط ہو سکتی ہے۔

اب نیچے کے جملوں میں فاعل متعین کرکے جملے بناتے ہیں: 

پہلی شکل  (1)

(1)          احمد کو اسکول جانا ہے۔ (احمدکو)Ahmad has to go to school.

(2)          مجھے سبزیاں خریدنی ہیں۔ (مجھے) I have to buy vegetables.

(3)          استاذ کو سبق پڑھانا ہے۔ (استاذکو)Teacher has to teach lesson.

(4)          فاطمہ کو ڈاکٹر سے ملنا ہے۔ (فاطمہ کو) Fatima has to see the doctor.

(5)          ہم سب کو انگریزی سیکھنی ہے۔ (ہم سب کو) We have to learn English.

(6)          والد کو دوکان کھولنی ہے۔ (والد کو) Father has to open the shop.

(7)          والدہ کو کھانا بنانا ہے۔ (والدہ کو) Mother has to cook food.

(8)          مجھے دس بجے سو جانا ہے۔ (مجھے) I have to sleep at 10 o’clock.

(9)          مہمانوں کو سفر کرنا ہے۔ (مہمانوں کو) The guests have to go on journey.

(10)   ان لوگوں کو کرکٹ کھیلنا ہے۔ (ان لوگوں کو) They have to play cricket.

دوسری شکل (2)

(1)          اس لڑکے سے لکھا نہیں جاتا۔ (اس بچے سے)That boy is not able to write.

(2)          مجھ سے کھایا نہیں جاتا۔ (مجھ سے)I am not able to eat.

(3)          فاطمہ سے پڑھا نہیں جاتا۔ (فاطمہ سے)Fatima is not able to read.

(4)          احمد سے کھیلا نہیں جاتا ۔ (احمد سے)Ahmad is not able to play.

(5)          اس بوڑھے سے کھڑا نہیں ہوا جاتا۔ (اس بوڑھے سے)That old man is not able to stand.

(6)          حامد سے بولا نہیں جاتا۔ (حامد سے)Hamid is not able to speak.

(7)          بچوں سے دوڑا نہیں جاتا۔ (بچوں سے)Children are not able to run.

(8)          پولیس سے چور پکڑا نہیں جاتا۔ (پولیس سے)Police is not able to catch thief.

(9)          اس سے میچ کھیلا نہیں جاتا۔ (اس سے)He is not able to play match.

(10)   غریب سے بل ادا نہیں کیا جاتا۔ (غریب سے)The poor is not able to pay the bill.

تیسری شکل (3)

(1)                   اس ملک کے نیتا بدعنوان  ہیں۔ (اس ملک کے نیتا)

The leaders of this country are corrupt

(2)                   اس کتاب کے اسباق آسان ہیں۔ (اس کتاب کے اسباق)

 The lessons of this book are easy.

(3)                   اس باغ کے پیڑ لمبے ہیں۔ (اس باغ کے پیڑ)

The trees of that garden are tall.

(4)                   تمھارے گھر کے کمرے چھوٹے ہیں۔ (تمھارے گھرکے کمرے)

The rooms of your house are small.

(5)                   کتاب کا رنگ ہرا ہے۔ (کتاب کا رنگ)

The colour of the book is green.

(6)                   کار کی رفتار تیز ہے۔ (کار کی رفتار)

The speed of the car is fast.

(7)                   شہر کے لوگ خوش ہیں۔ (شہر کے لوگ)

The people of the city are happy.

(8)                   مکان کی قیمت زیادہ ہے۔ (مکان کی قیمت)

The price of the house is high.

(9)                   اسکول کی کرسیاں پرانی ہیں۔ (اسکول کی کرسیاں)

The chairs of the school are old.

(10)            بھارت کی راجدھانی دلی ہے۔ (بھارت کی راجدھانی)

The capital of India is Delhi.

 


Malfoozat Hakimul-Ummah Hazrat Thanvi

Ranks of spiritual progress are quickly traversed through grief.

In response to a letter, he wrote: 

The duration of my displeasure is very short. After some time, it weakens, and with a little apology, it completely disappears. 

It was mentioned in the letter: "I am in great distress and sorrow." 

I replied that it is the sorrow that actually serves the purpose. The ranks of spiritual progress are traversed much faster through grief than through struggle. This is a point worth remembering.

Malfoozat Hakim-ul-Ummah: Volume 1, Page 38

मलफ़ूज़ात हकीमुल उम्मत हज़रत थानवी

हुज़्न (ग़म) से मरातिब-ए-सलूक (तसव्वुफ के मर्तबे) तेज़ी से तय होते हैं।

एक ख़त के जवाब में तहरीर फ़रमाया कि मेरे तकद्दुर (अप्रसन्नता) की उम्र बहुत कम होती है। कुछ वक़्त गुज़र जाने पर ज़ईफ़ (कमज़ोर) हो जाता है। और थोड़ी सी माज़रत (माफी) के बाद बिल्कुल ही फ़ना (ख़त्म) हो जाता है। 
फ़रमाया कि इस ख़त में लिखा है कि मुझ को बड़ा रंज है, बड़ा हुज़्न (ग़म) है। 

मैंने जवाब लिखा है कि हुज़्न (ग़म) ही तो काम बनाता है। हुज़्न (ग़म) से जिस क़दर सुलूक (तसव्वुफ) के मरातिब (दर्जे) तय होते हैं, मुजाहिदे (तपस्या) से इस क़दर जल्द तय नहीं होते। यह बात याद रखने के क़ाबिल है।

मल्फ़ूज़ात हकीमुल उम्मत: भाग 1, पृष्ठ 38

ملفوظات حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ


حُزن سے مراتبِ سلوک تیزی سے طے ہوتے ہیں

ایک خط کے جواب میں تحریر فرمایا کہ میرے تکدّر کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ کچھ وقت گزر جانے پر ضعیف ہو جاتا ہے۔ اور تھوڑی سی معذرت کے بعد بلکل ہی فنا ہو جاتا ہے ۔ 
فرمایا کہ اس خط میں لکھا ہے کہ مجھ کو بڑا رنج ہے ، بڑا حُزن ہے۔ 
میں نے جواب لکھا ہے کہ حُزن ہی تو کام بناتا ہے ۔ حزن سے جس قدر سلوک کے مراتب طے ہوتے ہیں ، مجاہدہ سے اس قدر جلد طے نہی ہوتے ۔ یہ بات یاد رکھنے کہ قابل ہے۔

ملفوظات حکیم المت رح: جلد 1 ص 38

मलफ़ूज़ात हकीमुल उम्मत हज़रत थानवी

मल्फ़ूज़ात हकीमुल उम्मत हज़रत मौलाना अशरफ़ अली थानवी रहमतुल्लाहि अलैहि 

अपनी फ़िक्र करनी चाहिए

एक साहब ने कोई मसला पेश करके अर्ज़ किया कि फलां साहब ने यह दरयाफ़्त (मालूम) किया है। उनकी हालत के मुनासिब फ़रमाया कि ख़ुद आपको जो ज़रूरत हो उसको मालूम कीजिए, दूसरों के मामलात में नहीं पड़ना चाहिए। बड़ी ज़रूरत इस की है कि हर शख़्स (व्यक्ति) अपनी फ़िक्र में लगे और अपने आमाल (कामों) की इस्लाह (सुधार) करे। आजकल यह मर्ज़ (बीमारी) आम हो गया है, आवाम (जनता) में भी और ख़वास (ख़ास लोगों) में भी कि दूसरों की तो इस्लाह (सुधार) की फ़िक्र है अपनी ख़बर नहीं। मेरे मामूं साहब फ़रमाया करते थे कि बेटा, दूसरों की जूतियों की हिफाज़त (रक्षा) की बदौलत कहीं अपनी गठरी न उठवा देना, वाक़ई बड़े काम की बात फ़रमाई।

मल्फ़ूज़ात हकीम-उल-उम्मत: भाग 1, पृष्ठ 26

Malfoozat Hakimul-Ummah Hazrat Thanvi

Malfoozat Hakim-ul-Ummat Hazrat Maulana Ashraf Ali Thanvi

Focus on Yourself

Someone presented an issue and mentioned that a certain person had inquired about it. In response, according to their state, he advised:

One should focus on what is necessary for oneself and not get involved in others' matters. The most important thing is that every person should focus on his own concerns and work on improving his own deeds. Nowadays, it has become a widespread problem among both the general public and the elite that they are more concerned with correcting others than themselves. My uncle used to say, "Son, while protecting others' shoes, make sure you don't lose your own bundle." Truly, he gave very wise advice.

Malfoozat Hakim-ul-Ummat: Volume 1, Page 26

Malfoozat Hakimul-Ummah Hazrat Thanvi

ملفوظات حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ

اپنی فکر کرنی چاہئے

ایک صاحب نے کوئی مسئلہ پیش کر کے عرض کیا کہ فلاں صاحب نے یہ دریافت کیا ہے ، ان کی حالت کے مناسب فرمایا کہ خود آپ کو جو ضرورت ہو اس کو معلوم کیجئے ، دوسروں کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہئے ۔ بڑی ضرورت اس کی ہے کہ ہر شخص اپنی فکر میں لگے اور اپنے اعمال کی اصلاح کرے ۔ آج کل یہ مرض عام ہو گیا ہے عوام میں بھی اور خواص میں بھی کہ دوسروں کی تو اصلاح کی فکر ہے اپنی خبر نہیں ، میرے ماموں صاحب فرمایا کرتے تھے کہ بیٹا دوسروں کی جوتیوں کی حفاظت کی بدولت کہیں اپنی گٹھڑی نہ اٹھوا دینا ، واقعی بڑے کام کی بات فرمائی۔

ملفوظات حکیم الامت: جلد 1 ص 26

بازار حصص میں کاروبار

شمس الہدیٰ قاسمی
جامعہ اسلامیہ اکل کوا مہاراشٹر 

بازار حصص (Stock Market) ایک ایسا منظم مالیاتی ادارہ ہے جہاں کمپنیاں اپنے حصص عام عوام کو فروخت کرتی ہیں اور سرمایہ کار ان حصص کو خرید کر کمپنی میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔ یہ بازار معیشت کا ایک اہم ستون ہے کیونکہ یہاں نہ صرف کمپنیوں کو اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے سرمایہ اکٹھا کرنے کا موقع ملتا ہے بلکہ سرمایہ کاروں کو بھی منافع کمانے اور اپنے سرمایہ کو بڑھانے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔

بازار حصص کا مقصد:

بازار حصص کا بنیادی مقصد سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کے درمیان ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے جہاں وہ مالی لین دین کر سکیں۔ یہ پلیٹ فارم کمپنیوں کو سرمایہ فراہم کرتا ہے، جس کے ذریعے وہ اپنی ترقی اور کاروباری منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکتی ہیں، جبکہ سرمایہ کاروں کو منافع کمانے کے مواقع ملتے ہیں۔

حصص کی خرید و فروخت:

حصص کی خرید و فروخت بازار حصص کا سب سے بنیادی اور عام عمل ہے۔ اس میں سرمایہ کار کمپنیوں کے حصص خرید کر ان میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔ حصص کی قیمتیں کمپنی کی کارکردگی اور مارکیٹ کی صورتحال کے مطابق بڑھتی یا گھٹتی ہیں، جس کے نتیجے میں سرمایہ کار کو منافع یا نقصان ہوتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے سرمایہ کاروں کو کمپنیوں کی ملکیت میں شراکت داری کا موقع ملتا ہے۔

فیوچر اینڈ آپشن:

فیوچر اینڈ آپشنز بازار حصص کا ایک پیچیدہ اور زیادہ خطرناک حصہ ہے۔ یہ مالیاتی معاہدے ہیں جن کے ذریعے سرمایہ کار مستقبل کی قیمتوں پر شرط لگاتے ہیں:
فیوچر میں ایک معاہدہ کیا جاتا ہے کہ کسی خاص مالیاتی اثاثے کو مستقبل میں ایک مقررہ تاریخ پر ایک خاص قیمت پر خریدا یا بیچا جائے گا۔
آپشن سرمایہ کار کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ مستقبل کی قیمت پر تجارت کرے، لیکن اس کے لیے وہ پابند نہیں ہوتا کہ وہ معاہدہ مکمل کرے۔ یہ کاروبار زیادہ رسک والا ہوتا ہے، لیکن اگر سرمایہ کار مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کو سمجھ لے، تو یہ منافع بخش ثابت ہو سکتا ہے۔

آئی پی او کی فروخت:

آئی پی او (Initial Public Offering) اس وقت ہوتا ہے جب کوئی کمپنی پہلی بار اپنے حصص عوام کو فروخت کے لیے پیش کرتی ہے۔ اس عمل کے ذریعے کمپنی اپنے نجی دائرے سے نکل کر عوامی کمپنی بن جاتی ہے اور سرمایہ اکٹھا کرتی ہے تاکہ وہ اپنے کاروبار کو وسعت دے سکے۔ سرمایہ کاروں کو اس موقع پر کمپنی کے ابتدائی حصص خریدنے کا موقع ملتا ہے، جس سے وہ کمپنی کے مستقبل کے منافع میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔

بازار حصص ایک ایسا جامع نظام ہے جو سرمایہ کاری اور مالیاتی لین دین کو فروغ دیتا ہے۔ حصص کی خرید و فروخت، فیوچر اینڈ آپشنز کا کاروبار، اور آئی پی او کی فروخت جیسے کاروبار سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کے درمیان مضبوط مالیاتی تعلقات کو فروغ دیتے ہیں، جو ملک کی معیشت کے استحکام اور ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

حصص کی خرید و فروخت:

 حصص کی خرید وفروخت کا شرعی حکم فقہاء اور علماء کے درمیان کچھ شرائط کے ساتھ جائز قرار دیا گیا ہے، بشرطیکہ اس میں اسلامی اصولوں اور شرعی قوانین کی پابندی کی جائے۔ شیئرز یا حصص کی خرید و فروخت کو اسلامی معاشی اصولوں کے مطابق قرار دینے کے لیے درج ذیل شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے:

1. کاروبار حلال ہو:  
   سب سے اہم شرط یہ ہے کہ جس کمپنی کے حصص خریدے جا رہے ہیں، اس کا کاروبار حلال اور جائز ہونا چاہیے۔ مثلاً، کمپنی سود، جوا، شراب، یا کسی بھی غیر شرعی کاروبار میں ملوث نہ ہو۔

2. سود سے پاک ہو:  
   شیئرز کی خرید و فروخت میں سود (ربا) کا عنصر شامل نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کمپنی کا زیادہ تر سرمایہ سودی قرضوں پر مبنی ہو یا وہ سودی لین دین میں ملوث ہو تو اس کمپنی کے حصص میں سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں۔

3. حقیقی اثاثوں کی بنیاد پر ہو:  
   شیئرز کی خرید و فروخت میں یہ ضروری ہے کہ کمپنی کے پاس حقیقی اثاثے ہوں اور یہ صرف مالیاتی لین دین پر مشتمل نہ ہو۔ محض قیمتوں کے اتار چڑھاؤ پر شرط لگانا، جو کہ سٹے بازی یا جوا کے مترادف ہو، شرعی طور پر ناجائز ہے۔

4. اختیار اور حق ملکیت:  
   شیئرز خریدنے والا شخص کمپنی میں واقعی حصہ دار بنے اور اسے کمپنی کی ملکیت کا حق حاصل ہو۔ اس کے بغیر محض کاغذی حصص کی خرید و فروخت یا قیمتوں پر سٹے بازی جائز نہیں۔

فیوچر اینڈ آپشن:

جیسا کہ ہم نے شروع میں ہی کہا کہ یہ بازار کا بہت پیچیدہ اور خطرناک حصہ ہے۔ فیوچر اور آپشن مالیاتی مارکیٹ میں استعمال ہونے والے معاہدے ہیں جو سرمایہ کاروں کو مختلف اثاثوں کی قیمتوں میں کمی بیشی سے فائدہ اٹھانے کی سہولت دیتے ہیں۔ دونوں معاہدوں میں کچھ فرق ہوتا ہے:

 1. فیوچر (Futures):
فیوچر ایک معاہدہ ہوتا ہے جس میں خریدار اور فروخت کنندہ ایک خاص قیمت پر کسی اثاثے (جیسے اسٹاک، اجناس یا کرنسی) کو مستقبل میں کسی مقررہ تاریخ پر خریدنے یا بیچنے کا پابند ہوتے ہیں۔ 
- اس معاہدے میں دونوں فریقین کو مقررہ تاریخ پر اپنے حصے کا لین دین کرنا ضروری ہوتا ہے، چاہے مارکیٹ کی موجودہ قیمت کچھ بھی ہو۔
- فیوچر معاہدے عام طور پر سرمایہ کار قیمتوں کی غیر یقینی صورتحال سے بچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں یا قیمتوں کی حرکات سے منافع کمانے کے لیے۔

2. آپشنز (Options):
آپشن ایک ایسا معاہدہ ہے جو خریدار کو حق دیتا ہے، لیکن اس پر کوئی لازمی شرط نہیں ہوتی، کہ وہ مستقبل میں ایک خاص قیمت پر کوئی اثاثہ خریدے یا بیچے۔
- دو قسم کے آپشن ہوتے ہیں: 
  1. کال آپشن (Call Option): یہ خریدار کو حق دیتا ہے کہ وہ ایک مقررہ قیمت پر اثاثہ خرید سکے۔
  2. پٹ آپشن (Put Option): یہ خریدار کو حق دیتا ہے کہ وہ ایک مقررہ قیمت پر اثاثہ فروخت کر سکے۔
- آپشن معاہدے کا فائدہ یہ ہے کہ خریدار کو نقصان اٹھانے کا خطرہ کم ہوتا ہے کیونکہ وہ صرف وہی قیمت ادا کرتا ہے جو معاہدے کی قیمت ہوتی ہے۔

 فرق:
- فیوچر میں خریدار اور فروخت کنندہ دونوں پابند ہوتے ہیں کہ معاہدہ مکمل کریں گے، جب کہ آپشن میں صرف خریدار کو حق ہوتا ہے اور وہ مجبور نہیں ہوتا۔

مارکیٹ میں ایکسپائری ڈیٹ (Expiry Date) اس لیے ہوتی ہے تاکہ مالیاتی معاہدوں، جیسے فیوچرز اور آپشنز، کی مدت کو محدود کیا جا سکے۔ ایکسپائری ڈیٹ اس تاریخ کو ظاہر کرتی ہے جس پر معاہدہ ختم ہو جاتا ہے اور خریدار یا فروخت کنندہ کو معاہدے کی شرائط کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اس کا مقصد مارکیٹ میں تجارت کو متحرک رکھنا اور قیمتوں کو درست طور پر طے کرنا ہے تاکہ مالیاتی معاہدوں کی مدت کے دوران ہونے والی تبدیلیوں کو بہتر طریقے سے مینیج کیا جا سکے۔

فیوچر (Futures) کی مثال - ٹاٹا موٹرز:

فرض کریں کہ آپ کو لگتا ہے کہ ٹاٹا موٹرز کے شیئر کی قیمت اگلے 3 ماہ میں بڑھ جائے گی۔ اس وقت ٹاٹا موٹرز کے شیئر کی قیمت 600 روپے ہے۔ آپ ایک فیوچر معاہدہ کرتے ہیں جس کے تحت آپ 3 ماہ بعد 600 روپے فی شیئر پر 1000 شیئرز خریدنے کا وعدہ کرتے ہیں۔

3 ماہ بعد:
- اگر ٹاٹا موٹرز کے شیئر کی قیمت 700 روپے ہو جاتی ہے، تو آپ کو فائدہ ہو گا کیونکہ آپ 600 روپے فی شیئر پر خریدیں گے اور فوری 100 روپے فی شیئر منافع کمائیں گے۔
- لیکن اگر شیئر کی قیمت 500 روپے ہو جاتی ہے، تو آپ کو نقصان ہو گا کیونکہ آپ کو 600 روپے فی شیئر پر خریدنا پڑے گا جب کہ مارکیٹ میں قیمت 500 روپے ہو چکی ہو گی۔

فیوچر معاہدے میں آپ کو ہر صورت میں معاہدہ پورا کرنا ہوتا ہے، چاہے مارکیٹ آپ کے حق میں ہو یا نہیں۔

آپشن (Options) کی مثال - ٹاٹا موٹرز:

فرض کریں آپ کو لگتا ہے کہ ٹاٹا موٹرز کا شیئر اگلے 3 ماہ میں بڑھ جائے گا۔ اس وقت شیئر کی قیمت 600 روپے ہے۔ آپ 3 ماہ کے لیے ایک کال آپشن خریدتے ہیں، جو آپ کو حق دیتا ہے کہ آپ 3 ماہ بعد 600 روپے فی شیئر پر خرید سکیں۔ آپشن کی قیمت (Premium) 20 روپے فی شیئر ہے۔

3 ماہ بعد:
- اگر شیئر کی قیمت 700 روپے ہو جاتی ہے، تو آپ اس حق کا استعمال کرتے ہیں اور 600 روپے فی شیئر پر خریدتے ہیں، یوں آپ کو فی شیئر 80 روپے (700 - 600 = 100 - 20 Premium) کا منافع ہوتا ہے۔
- لیکن اگر شیئر کی قیمت 500 روپے ہو جاتی ہے، تو آپ اس آپشن کا استعمال نہیں کریں گے اور صرف آپشن کی قیمت (20 روپے فی شیئر) کا نقصان برداشت کریں گے۔

آپشن میں آپ کو یہ حق ہوتا ہے کہ آپ معاہدہ پورا کریں یا نہیں، جس سے نقصان محدود رہتا ہے۔

فیوچر اور آپشن ٹریڈنگ کا کاروبار اسلامی نقطہ نظر سے جائز نہیں سمجھا جاتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان میں درج ذیل عناصر شامل ہوتے ہیں جو اسلامی شریعت کے اصولوں کے خلاف ہیں:

 1. قیاس آرائی (Speculation):
فیوچر اور آپشن ٹریڈنگ میں زیادہ تر تجارت قیاس آرائی پر مبنی ہوتی ہے۔ یعنی، لوگوں کو حقیقی طور پر سامان کی ضرورت یا اس کی خرید و فروخت کا ارادہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ قیمتوں کے اُتار چڑھاؤ پر منافع کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلام میں اس قسم کی قیاس آرائی جس میں غیر یقینی اور خطرے (غرر) کا عنصر شامل ہو، جائز نہیں ہے۔

 2. سود (ربا):
فیوچر اور آپشن ٹریڈنگ میں اکثر معاہدے سود پر مبنی ہوتے ہیں، خاص طور پر اگر ادھار یا مؤخر ادائیگی شامل ہو۔ اسلام میں سود سختی سے ممنوع ہے۔

 3. غرر (Uncertainty):
فیوچر اور آپشن معاہدے میں مال کا حقیقی قبضہ یا ملکیت نہیں ہوتی، بلکہ ایک مقررہ مدت کے بعد ہونے والی قیمت پر معاہدہ کیا جاتا ہے۔ اس میں غرر (غیر یقینی صورت حال) موجود ہوتی ہے، جو اسلام میں جائز نہیں ہے۔

 4. قبضہ کی کمی:
اسلامی تجارت میں کسی بھی شے کا حقیقی قبضہ ہونا ضروری ہے، جب کہ فیوچر اور آپشن ٹریڈنگ میں فوری قبضہ یا ملکیت کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔

نتیجہ یہ کہ فیوچر اور آپشن ٹریڈنگ، اپنی روایتی شکل میں، زیادہ تر اسلامی علما کے نزدیک ناجائز ہے کیونکہ اس میں قیاس آرائی، سود، اور غرر جیسے غیر شرعی عناصر شامل ہیں۔

فیوچر اور آپشن کو جائز قرار دینے والے لوگ عام طور پر درج ذیل دلائل پیش کرتے ہیں:

1. ضرورت اور جدید مالیاتی نظام کی بنیاد پر: فیوچر اور آپشن کو جدید مالیاتی نظام کا حصہ سمجھا جاتا ہے، اور ان کے بغیر کاروبار اور معیشت کو چلانا مشکل ہوتا ہے۔ بعض علماء جدید مالیاتی معاملات کو وقت کی ضرورت سمجھتے ہیں اور انہیں مختلف شرعی ضوابط کے ساتھ جائز قرار دیتے ہیں۔

2. معاہدے کی شرائط: کچھ لوگوں کے مطابق اگر فیوچر اور آپشن کے معاہدے میں صاف اور واضح شرائط ہوں، اور فریقین کی رضامندی سے معاملہ طے پائے تو اسے جائز کہا جا سکتا ہے، کیونکہ دونوں طرف کے لوگ رضامندی سے معاہدہ کرتے ہیں۔

3. قیاس کی بنیاد پر: بعض علماء اسے قیاساً اس طرح کے معاہدوں کے ساتھ ملاتے ہیں جو ماضی میں قبول کیے گئے تھے، جیسے سلم کا معاملہ، جہاں ادائیگی اور اشیاء کی فراہمی مستقبل کی تاریخ پر ہوتی ہے۔

تاہم، ان دلائل پر مکمل اتفاق نہیں ہے، اور جمہور علماء فیوچر اور آپشن کو ناجائز سمجھتے ہیں، کیونکہ اس میں زیادہ تر معاملہ قیاس پر ہوتا ہے اور اس میں غرر (غیر یقینی صورتحال) اور جوا شامل ہونے کے امکانات ہیں۔

اچھے استاذ کی خصوصیات

اچھے استاذ کی خصوصیات

شمس الہدی قاسمی
جامعہ اشاعت العلوم، اکل کوا، مہاراشٹر 

اچھا استاد بننے کے لیے کئی خصوصیات اور اصولوں کی پیروی کرنا ضروری ہے۔ یہاں چند اہم نکات دیے جا رہے ہیں جو آپ کو ایک مؤثر اور کامیاب استاد بننے میں مدد کریں گے:

1. علم اور مہارت:
گہرا علم: اپنے مضمون میں گہرا علم حاصل کریں، موضوع سے متعلق کتابوں کا پابندی سے مطالعہ کریں تاکہ آپ طلباء کو بہتر طریقے سے مضامین سمجھا سکیں۔

مسلسل سیکھنا: سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی، بدلتے زمانے کے ساتھ تعلیمی میدان میں بدلتی ٹکنالوجی اور جدید آلات سے واقفیت ضروری ہے۔ علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ خود کو بھی اپڈیٹ رکھیں۔

2. تدریسی مہارت:
منظم ہونا: وقت کی پابندی کریں اور طلبہ کو بھی پابند بنائیں۔ اپنے تدریسی مواد کو منظم طریقے اور ترتیب کے ساتھ پیش کریں۔ طلبہ کے لیے اسے سہل سے سہل تر بنانے کی کوشش کریں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ درجے میں موجود کمزور ترین طالب علم بھی مضمون کو اچھی طرح سمجھ گیا ہے۔

تدریسی تکنیک: مختلف تدریسی تکنیکوں کا استعمال کریں جیسے کہ گروپ ورک، سوال و جواب، پریزنٹیشنز وغیرہ۔ اس سے طلبہ میں اعتماد پیدا ہوتا ہے اور ان مضمون سے متعلق ان کے شکوک وشبہات دور ہوجاتے ہیں۔ 

3. طلباء کے ساتھ تعلقات:
دوستانہ رویہ: طلباء کے ساتھ دوستانہ اور مشفقانہ رویہ اختیار کریں اور ان کے ساتھ احترام سے پیش آئیں۔ مہذب اور شائستہ زبان کا استعمال کریں۔ 
حوصلہ افزائی: طلباء کی کامیابیوں کو تسلیم کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ حوصلہ شکنی اور دل شکنی نہ کریں کیوں کہ بچے کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کا ایک جملہ اس کی زندگی میں نقطۂ انقلاب ثابت ہو سکتا ہے۔ 
 4. موٹیویشن اور انسپرین:
موٹیویٹ کرنا: طلباء کو ان کی تعلیم میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے موٹیویٹ کریں۔ انہیں کامیاب لوگوں کے واقعات سنائیں اور ناکامیوں سے لڑنا سکھائیں۔ گِر گِر کر اٹھنا اور اٹھ اٹھ کر چلنا سکھائیں، انہیں خواب دیکھنا سکھائیں اور سمجھائیں کہ خواب وہ نہیں ہوتے جو نیند میں سوکر دیکھے جاتے ہیں بلکہ خواب وہ ہوتے ہیں جو انسان کو سونے نہیں دیتے۔ 
رول ماڈل: خود کو ایک مثبت رول ماڈل کے طور پر پیش کریں۔ اپنے اچھے اخلاق و اعمال اور پابندی وقت سے اپنے طلباء پر گہرے اور مثبت اثرات چھوڑیں۔ آپ کے طلباء آپ کو مثالوں میں پیش کریں۔ 

5. مؤثر کمیونیکیشن:
واضح ہدایات: اپنی ہدایات اور تعلیمات کو واضح اور آسان زبان میں بیان کریں۔ کلاس کے اصول و ضوابط متعین کریں اور طلباء کو ان پر عمل کرنے کا پابند بنائیں۔ 

سماعت کرنا: طلباء کی باتوں کو غور سے سنیں اور ان کی پریشانیوں کو حل کریں۔ بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جنہیں طالب علم دوستوں اور ساتھیوں کے سامنے پیش کرنے میں جھجک محسوس کرتا ہے اس لیے کلاس کے باہر تنہائی میں بھی طلبہ کے مسائل سننے کی کوشش کریں۔ کسی بات پر طالب علم کا مذاق نہ اڑائیں۔ انہیں غلط اور غیر مہذب ناموں سے نہ پکاریں۔ 

6. صبر اور برداشت:
صبر: صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں، خاص طور پر جب طلباء کو کسی چیز کو سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہو۔
تحمل: طلباء کی مختلف صلاحیتوں اور رفتار کو قبول کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔

7. تشخیص اور فیڈبیک:
مناسب تشخیص: طلباء کی کارکردگی کا منصفانہ انداز میں جائزہ لیں۔ جانب داری سے کام نہ لیں۔ 
تعمیری فیڈبیک: طلباء کو تعمیری فیڈبیک فراہم کریں تاکہ وہ اپنی خامیوں کو دور کر سکیں۔ اور اپنے بہتر مستقبل کی تعمیر میں اپنی محنت اور لگن کو صحیح رخ پر ڈال سکیں۔

8. پروفیشنل ڈیولپمنٹ:
تربیتی پروگرامز: مختلف تربیتی پروگرامز اور ورکشاپس میں شرکت کریں تاکہ تعلیمی میدان میں ہونے والی مثبت تبدیلیوں کا علم ہوسکے اور خود کو اس سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرسکیں۔ 
پڑھائی: تدریس کے بارے میں مختلف کتابیں اور آرٹیکلز پڑھیں تاکہ آپ کی تدریسی مہارت میں نکھار آ سکے۔ لکھنے کا شوق اور صلاحیت ہو تو اخبارات، رسالوں اور میگزین کے لیے مضامین لکھیں۔

9. طلباء کی دلچسپی:
دلچسپ مواد: اپنے مواد کو دلچسپ اور متنوع بنائیں تاکہ طلباء کی دلچسپی برقرار رہے۔ 
انٹرایکٹو کلاسز: انٹرایکٹو کلاسز کا انعقاد کریں جس میں طلباء کی شمولیت زیادہ ہو۔

 10. نظم و ضبط:
ضبط کی ضرورت: کلاس میں نظم و ضبط کو برقرار رکھیں تاکہ تعلیم کے عمل میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
اصول: کلاس کے اصول و ضوابط واضح طور پر بیان کریں اور ان کی پابندی کرائیں۔

اچھا استاد بننے کے لیے ان تمام اصولوں کی پیروی کرنا ضروری ہے۔ اپنے طلباء کے ساتھ مثبت اور مددگار رویہ اپنانا اور مسلسل خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا آپ کو ایک کامیاب اور مؤثر استاد بنا سکتا ہے۔

Daily English Phrase

keep the ball rolling
کام کو جاری رکھنا
We realised we would need outside funding to keep the ball rolling.
ہم نے محسوس کیا کہ کام کو جاری رکھنے کے لیے ہمیں بیرونی فنڈز کی ضرورت ہوگی۔
#hudaqasmi #alhudaclasses #englishvocabulary #english #easyenglish #learn #learning #letslearnenglish #onlinelearning #urduenglish #urdu @hudaqasmi

Daily English Phrases

set an example
مثال قائم کرنا

You should be setting a good example to your younger brother.

آپ کو اپنے چھوٹے بھائی کے لیے اچھی مثال قائم کرنی چاہیے۔

#hudaqasmi #alhudaclasses #dailyphrase #dailyidioms #englishvocabulary #english #easyenglish #urduenglish #urdu 
@hudaqasmi @alhuda_classes

Daily English Phrases

hit the headlines
اچانک خبروں میں آنا/ توجہ حاصل کرنا
He hit the headlines two years ago when he was arrested for selling drugs.

وہ دو سال پہلے اس وقت سرخیوں میں آیا جب اسے منشیات فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

#hudaqasmi #alhudaclasses #dailyphrase #dailyidioms #englishvocabulary #english #easyenglish #urduenglish #urdu @alhuda_classes @hudaqasmi

Daily English Phrase/Idiom

slip through your fingers
ہاتھ سے نکل جانے دینا، گنوا دینا، کھو دینا
We don't want to let the opportunity slip through our fingers.
ہم موقع کو اپنے ہاتھوں سے نکل جانے دینا نہیں چاہتے ہیں۔


Al-Huda Classes

मलफ़ूज़ात हकीमुल उम्मत हज़रत थानवी

हज़रत की नज़र एक मौलवी साहब ने अर्ज़ किया कि हज़रत, शैतान भी आपका बड़ा ही दुश्मन है, जितनी दुश्मनी तमाम हिंदुस्तान के मुसलमानों से होगी उतनी ...