Search This Blog

Showing posts with label General Articles. Show all posts
Showing posts with label General Articles. Show all posts

زوالِ تدريس

بسم اللّه الرحمن الرحيم

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

شعبہائے مدارس:

تعليمى اداروں كے كاركنوں كو بالعموم تين  شعبوں ميں تقسيم كيا جاتا ہے، ہيئت تدريسيه يعنى مدرسين، شعبۂ رابطۂ عامه اور ہيئت اداريه يعنى انتظاميه.
انتظاميه كى ذمه دارى ہے كه  وه تدريسى عمل كے لئے ہر ممكن سہوليات فراہم كرے، اس كى حيثيت معاون كى ہے، وه خود كو مدرسين كے بالمقابل نه سمجهے اور نه ان كى راه ميں كوئى ركاوٹ پيدا كرے۔
شعبۂ رابطۂ عامه كا كام مدارس اور عوام ميں  ربط پيدا كرنا ہے، يعنى مدارس كے ذريعه عوام كى ضروريات پورى كرنا، اور عوام كے ذريعه مدارس كى ضروريات پورى كرنا، اس كے تحت دو اہم شعبے ہوتے ہيں، ايك محصلين كا جو مدارس كے لئے مالى امداد كے حصول كى كوشش كرتے ہيں، دوسرے مبلغين وواعظين، جو عوام كى تذكير كا كام كرتے ہيں۔
تيسرے شعبۂ تدريس، تعليمى اداروں كا اصل كام جن كى وجه سے ان كا وجود ہے تدريس ہے، تدريس معاشره كا سب سے زياده قابل احترام پيشه ہے، اور مدرسوں كے اندر مدرسين ہى كو سب سے زياده اہميت ملنى چاہئے، كيونكه معيارى  تدريس كے بغير مدارس كا وجود بے معنى ہے۔

مدرسين كى افسوسناك صور حال:

افسوس كه آج كل مدرسين اپنے مقام  بلند سے نا آشنا ہيں، اپنى ذمه داريوں كى عظمت سے غافل، اور طلبه كى علمى ترقى سے بے پرواه، مدرسين كے ذہنوں ميں يه واہمه راسخ ہوگيا ہے كه ان  كے سامنے ترقى كى سارى راہيں مسدود ہيں، ترقى كا معيار ان كے نزديك مال وجاه ہے، اس لئے ان كى اكثريت تدريس پر قانع نہيں ہوتى، بلكه مدارس كے دوسرے شعبوں ميں دخل اندازى كے لئے بے چين رہتى ہے، كچه مدرسين محصلى كے كام پر لگ جاتے ہيں، اور ان علاقوں ميں تحصيل چنده كے لئے مقابله آرائى كرتے ہيں جہاں پيسے زياده ہوں، ان كى اس مقابله آرائى  كى قيمت خود علم كو دينى پڑتى ہے، اور علم ہى  كو لوگ ذليل ورسوا سمجهنے لگتے ہيں۔
مدرسين كى ايك دوسرى جماعت وعظ وتقرير ميں لگ جاتى ہے، اس سے انہيں شہرت حاصل ہوتى ہے، عوامى مقبوليت بڑهتى ہے اور مالداروں سے تعلقات قائم كرنے كى راه ہموار ہوتى ہے، اس ميدان ميں انہيں جاه بهى ملتى ہے  اور دولت بهى۔
چونكه انتظاميه كو اقتدار حاصل ہوتا ہے، اس لئے بعض مدرسين كى نگاہيں انتظامى عہدوں پر ہوتى ہيں، با وقار انتظامى عہدے محدود ہيں، مثلا ناظم، صدر، مہتمم وغيره، اس لئے ان عہدوں كے لئے رسه كشى ہوتى ہے، اور بہت سارا وقت سازشوں اور لڑائى جهگڑوں ميں ضائع ہوجاتا ہے، كتنے اداروں كى بربادى، تقسيم  يا كمزورى كا سبب اقتدار كى ہوس اور اس كے لئے تنافس وتسابق رہا ہے۔
بہت سے مدرسين كو يه شكايت ہوتى ہے كه انتظاميه نے ان كے لئے ترقى كے دروازے بند كرديئے ہيں، يا تو اپنے اعزه واقارب كو ترجيح ديتے ہيں يا چاپلوسى كرنے والوں كو، اس كا نتيجه يه ہے كه تدريس كے علاوه ہر شعبه معزز سمجها جاتا ہے، اور ترقى كى ايك ايسى مادى تفسير  ذہنوں ميں بيٹهه گئى ہے، جس كى وجه سے تدريس ميں  منحصر رہتے ہوئے ترقى كا امكان نظر نہيں آتا۔

تدريس كا الميه:

ظاہر ہے كه اس صورت حال ميں تدريس كا  زوال  يقينى ہے، اور تدريس كے زوال كا اثر ہے كه فارغين كى بڑى تعداد علوم وفنون سے بے بہره ہے، اس الميه كے ذمه دار مدرسين ہيں۔
جو مدرسين چنده وصول كرنے كے لئے وقتا فوقتا غائب رہتے ہيں  طلبه كى دلچسپى ان كے موضوعات سے كم ہو جاتى ہے، اور انتظاميه چونكه ان كى ممنون ہوتى ہے اس لئے ان سے  كوئى باز پرس نہيں ہوتى، اور تدريس كى ذمه داريوں كو نظر انداز كرنا ان كا معمول بن جاتا ہے۔

سب سے زياده نقصان ده مدرسين:

مدارس كے لئے سب سے زياده نقصان ده وه مدرسين ہيں جو وعظوں اور تقريروں ميں مشغول ہوتے ہيں، اور دعوت وتبليغ كے نام پر ملك وبيرون ملك كے دورے كرتے رہتے ہيں، ان مقررين كے دو عظيم نقصان ہيں:
ايك يه كه  يه لوگ كثرت سے ناغه كرتے ہيں، اسفار اور پروگراموں كے بار   گراں كى وجه سے  تهكے ماندے كلاسوں ميں آتے ہيں، اور نہايت كسلمندى سے پڑهاتے ہيں۔
دوسرے يه كه ان كو مطالعه كا موقع نہيں ملتا، دروس پر تقريروں كا رنگ غالب ہوتا ہے، نه بحث وتحقيق اور نه ابتكار وندرت خيالى، مشتملات عوامى ہوتے ہيں اور دلائل خطابى،  لہذا طلبه ان موضوعات ميں كوئى صلاحيت نہيں پيدا كرتے، ان كى قوت استدلال مرده ہوجاتى ہے، ان كے اندر صحيح وغلط كے درميان تمييز پيدا كرنے كے ملكه كا فقدان ہوجا تا ہے، ان دروس كے بعد طلبه نه كسى علمى مسئله پر گفتگو كرسكتے ہيں،  نه كوئى مدلل بات كه سكتے ہيں، اور نه علمى غلطيوں اور دلائل كى كمزوريوں پر  كوئى گرفت كر سكتے ہيں۔

مسئله كا حل:

اگر ہم علم كے معيار كو بلند كرنا چاہتے ہيں، اور طلبه كى علمى صلاحيت بڑهانے كى ہميں فكر ہے، تو اس كے لئے مناسب اقدامات كرنے ہوں گے، اور اس سلسله ميں نه  كوئى مراعات يا سستى ہو، ا ور نه كوئى تساہل روا  ركها جائے، ميرے خيال ميں  تدريس كو صحيح سمت عطا كرنے كے لئے درج ذيل اصول كا التزام ضرورى ہے:
1-مدرسين انتظامى امور سے بالكل دور رہيں، نه اس مدرسه ميں كوئى  انتظام سنبهاليں جس ميں پڑهاتے ہيں اور نه كسى اور تعليمى يا غير تعليمى اداره ميں۔
2-مدرسين محصلى كا كام ترك كرديں، نه اپنے مدرسه كے لئے چنده كريں اور نه كسى اور مدرسه يا اداره كے لئے۔
3-مدرسين عوامى جلسون، وعظ اور تقرير كے كاموں سے پرہيز كريں، عوامى تقريريں تدريس كى ذمه دارى كے لئے سم قاتل ہيں، مدرسين صرف علمى سيميناروں اور كانفرنسوں ميں شركت كريں جن سے ان كے موضوعات ميں مددملے، معيارى سيميناروں اور كانفرنسوں ميں شركت سے ان كا جمود ختم ہوگا اور بحث وتحقيق سے ان كى دلچسپى بڑهے گى۔

مدرسين كى ترقى:

مدارس كى انتظاميه كا فريضه ہے كه جو مدرسين يكسو ہو كر كام كر رہے ہين ان كى قيمت كو سمجهيں، اور ان كى تنخواه اتنى ہو كه وه آسانى سے گزر بسر كرسكيں، اور بے فكرى سے اپنى ذمه دارى پورى كرسكيں۔
مدرسين كو معلوم ہونا چاہئے كه ان كى ترقى انتظامى، مالياتى امور يا خطابت ووعظ سے وابسته نہيں، بلكه ان كى ترقى ان موضوعات ميں ہے جن كو وه پڑها رہے ہيں، آج ہمارے پاس كسى بهى علم وفن كے ماہرين نہيں، اگر ہر مدرس اپنے موضوع كو اپنا مشغله بنا لے، اور اس ميں مطالعه وتحقيق جارى ركهے، تو ہمارے پاس اچهے ادباء، محدثين، مفسرين، فقہاء ومتكلمين وغيره كى كمى نہيں ہوگى۔
ماہرين فن كى قيمت سے كسى كو انكار نہيں، اگر آپ كسى فن ميں مہارت پيدا كرليں تو مشرق ومغرب ميں آپ كى عظمت كے گيت گائے جائيں گے، آپ كے ذريعه علوم وفنون كى نشأت ثانيه ہوگى، اور اہل علم وتحقيق كى ايسى نسل تيار ہوگى جو ملت كى ہمت جہت ترقى ميں معاون ہوگى۔

شیخ الاسلام مفتی اعظم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا ارطغرل فلم کے بارے میں امت مسلمہ کو درد بھرا اصولی دعوت وپیغام

شیخ الاسلام مفتی اعظم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا ارطغرل فلم کے بارے میں امت مسلمہ کو درد بھرا اصولی دعوت و پیغام

ارطغرل اور تصویر ویڈیو وغیرہ کو دین کے لیے استعمال کرنے والوں کے لیے حضرت کا درد بھرا مضمون۔ پینتیس چالیس سال قبل بھی کچھ دین کے نام پر فلمیں وغیرہ بنائی گئی تھیں اور ان کی افادیت کا پرچار کیا گیا تھا جیسا کہ آج کیا جارہا ہے جس کا رد حضرت کے فصیح و بلیغ قلم سے ملاحظہ فرمائیں

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہم لکھتے ہیں

اس فلم کے بارے میں ایک اور پروپیگنڈہ بڑے شدومد سے یہ کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ میں بڑی مدد ملی ہے۔ اور ہزاروں غیر مسلم اسے دیکھ کر مسلمان ہوگئے ہیں۔ اول تو یہ بات بھی پہلی بات کی طرح بے بنیاد پروپیگنڈا ہے۔ ایک معمولی سمجھ کے انسان کے لیے بھی یہ باور کرنا مشکل ہے کہ ایسی فلم کو دیکھ کر ہزاروں انسان اسلام میں داخل ہوگئے ہوں۔ لیکن اگر بالفرض یہ تماشا دیکھ کر کچھ لوگوں کے دل واقعی اسلام کی طرف مائل ہوتے ہیں تو آخر یہ کیوں فرض کر لیا گیا کہ اسلام کی تبلیغ اور لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے ہر طریقہ استعمال کرنا جائز ہے خواہ وہ اسلامی اصولوں کے کتنا خلاف ہو اگر”تبلیغِ اسلام“ کی خاطر اس دلیل کو قبول کر لیا جائے تو کل کو یہی دلیل بنفسِ نفیس سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ دکھانے کے لیے بھی پیش کی جاسکتی ہے۔

”تبلیغِ اسلام“ کا اتنا”درد“ رکھنے والے ان حضرات کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام نے اپنی تبلیغ کے لیے بھی کچھ خاص اصول مقرر فرمائے ہیں، جو تبلیغ ان اصولوں کو توڑ کر کی جائے وہ اسلام کے ساتھ دوستی نہیں، دشمنی ہے۔ یہ کوئی عیسائیت یا کمیونزم نہیں ہے جو اپنے نظریات کے پرچار کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقِ کار کو رواں رکھتا ہو، جسے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے اپنے اکابر کی حرمت کا بھی پاس نہ ہو اور جو دنیا میں محض ہم نواؤں کی تعداد بڑھانے کے لیے اپنی عورتوں کی عصمت بھی داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہو۔

سوال یہ ہے کہ اگر کسی زمانے یا کسی خطے کے لوگ موسیقی کے ذریعے اسلام کی طرف مائل ہو سکتے ہیں تو کیا”تبلیغِ اسلام“ کی خاطر طبلے سارنگی پر قرآن سنانے کی اجازت دے دی جائے گی؟ اگر کسی علاقے کے لوگوں کا سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم  کی شبیہ دیکھ کر مسلمان ہونا ممکن ہو تو کیا مسلمان (معاذاللہ) آپ ا کی فرضی تصویر شائع کرنے کو تیار ہو جائیں گے؟ اگر مسلم عورتوں کے رقص و سرود سے متاثر ہو کر کچھ لوگ مسلمان ہونے پر آمادہ ہوں تو کیا ان کے پاس”تبلیغِ اسلام“ کے لیے رقاصاؤں کے طائفے بھیجے جائیں گے؟ 

یہ آخر کیا طرزِ فکر ہے کہ دنیا میں جس جس برائی کا چلن عام ہو جاتا ہے اسے نہ صرف جائز اور حلال کرتے جاؤ بلکہ اسلام کی تبلیغ و ترقی کے لیے اس کے استعمال کو بھی ناگزیر قرار دو، آنحضرت ا  کی جس سیرتِ طیبہ کو فلما کر اسے تبلیغِ اسلام کا نام دیا جارہا ہے اس سیرتِ طیبہ کا سبق تو یہ ہے کہ حق کی تبلیغ و اشاعت صرف حق طریقوں سے ہی کی جاسکتی ہے۔ اگر حق کی تبلیغ کے لیے اس میں کسی باطل کی آمیزش اسلام کو گوارا ہوتی تو عہدِ رسالت کے مسلمانوں کو وہ اذیتیں برداشت نہ کرنی پڑتیں جن کے واقعات پر اس فلم کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ عہدِ رسالت کے مسلمانوں کو سب سے بڑی تربیت تو یہ دی گئی تھی کہ وہ اپنے آپ کو زمانے کے ہر غلط بہاؤ کے آگے سپر ڈالنے کے بجائے زندگی کی آخری سانس تک اس سے لڑنے اور اسے صحیح سمت کی طرف موڑنے کی جدوجہد کریں اور اس راہ میں جو مشکلات پیش آئیں انھیں خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرنے کی عادت ڈالیں۔ اگر یہ بزرگ ایسا نہ کرتے اور زمانے کی ہر پھیلی ہوئی برائی کے آگے ہتھیار ڈالتے جاتے تو آج دین کی کوئی قدر بھی اپنے اصلی شکل میں محفوظ نہ رہ سکتی۔

(مضمون: عہد رسالت کی فلم بندی، کتاب: اصلاحِ معاشرہ  ۲۳۱،۳۳۱)

دار العلوم دیوبند کی تاریخِ تاسیس اور مسلمانوں کے لئے ہجری اور عیسوی کیلنڈروں کا استعمال: ایک تبصرہ

دار العلوم دیوبند کی تاریخِ تاسیس اور مسلمانوں کے لئے ہجری اور عیسوی کیلنڈروں کا استعمال: ایک تبصرہ

حضرت مولانا کے مضمون میں کچھ شدت داخل ہوگئی ہے. میرے خیال میں ہجری کیلنڈر اور عیسوی/انگریزی کیلنڈر دونوں ہمارے لئے موجودہ زمانے میں مفید ہیں.

ہجری کیلنڈر کا نام اور اس کا شمار تو ہجرتِ رسول علیہ الصلوۃ والسلام سے ہوتا ہے مگر اس کی ابتدا حضرت عمر رضی اللہ کے زمانہِ خلافت سے ہوئی ہے. حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہجری کیلنڈر کا وجود نہیں تھا بلکہ آپ کی وفات کے بعد خلافتِ صدیقی میں بھی. اِس طرح اسلام کے ابتدائی تقریباً 30 سال ہجری کیلنڈر سے خالی رہے مگر ہجری تقویم کے مشمولات یعنی بارہ قمری مہینے وہی باقی رہے جو اسلام سے پہلے سے چلے آرہے تھے اور اسلام نے اس کو باقی رکھا. اسے کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ قمری مہینوں کی بنیاد رویتِ ہلال پر ہوتی ہے جس میں دن کبھی 29 اور کبھی 30 ہوتے ہیں.

ہجری کیلنڈر کی شروعات سے پہلے سالوں کی تعداد بغیر ہجری لفظ کے محض اعداد سے شمار ہوتی تھی اور جب یہ بتانا ہوتا تھا کہ فلاں شخص کب پیدا ہوا یا کب وفات ہوئی وغیرہ تو اس سال کے کسی اہم واقعے کا ذکر کردیا جاتا تھا یا اتنے سال پیچھے کا عدد بتادیا جاتا تھا مثلاً دو سال پہلے، دس سال پہلے. سال اور مہینوں کا جو نظام پہلے سے چلا آرہا ہے تھا اسلام نے اس کو باقی رکھا اور  اپنی عبادات و شرعی امور میں جن میں تاریخوں یا سالوں کے حساب لگانے کی بات تھی، اسی کو بنیاد بنایا. بلوغت اور نصوص میں مذکور مہینوں وغیرہ میں اعتبار اسی بارہ قمری مہینوں والے سال کا ہے. پھر حضرت عمر نے سہولت اور اسلام کے اظہارِ شان کی خاطر بارہ قمری مہینوں والے سال کے نظام کو "ہجری" کیلنڈر کا نام دے دیا. ہجری کیلنڈر میں مہینے وہی رہے جو پہلے سے چلے آرہے تھے یعنی قمری مہینے. اب حضرت عمر کے ذریعے موسوم ہجری کیلنڈر مسلمانوں میں رائج ہوگیا اور الحمد للہ اب بھی رائج ہے. چونکہ قمری مہینوں اور تاریخوں کے مطابق ہی اسلام کی متعدد عبادات وغیرہ ادا کی جاتی ہیں لہٰذا ان مہینوں اور تاریخوں کا علم ضروری ہے بلکہ فرضِ کفایہ ہے کیونکہ مقدمۃ الواجب واجب مگر ہجری کیلنڈر کا علم یعنی یہ کہ اس کی شروعات کب ہوئی اور اس وقت سے اب تک کتنے سال ہوگئے اس کا علم ضروری نہیں ہے، کیونکہ اسلام کے کسی حکم کا مدار اس پر نہیں ہے، البتہ بہتر ضرور ہے. اس طرح قمری نظامِ تاریخ کی حفاظت مسلمانوں پر ضروری ہے. ہم اپنے معاشرے میں اس نظام کو جو حضرت عمر کے زمانے سے ہجری سے موسوم ہے اگر رواج دیں تو یہ بہتر اور افضل ہے.
مگر ہجری کیلنڈر کا نظام اگر محفوظ ہے اور تاریخ بگڑنے کا دور دور تک کوئی خطرہ نہیں ہے تو عیسوی/انگریزی کیلنڈر سے مسلمانوں کو اجتناب کرنے کی تلقین کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے اور بالخصوص ایسے زمانے میں جب پوری دنیا سمٹ کر ایک آنگن کی شکل اختیار کرچکی ہے اور پوری دنیا کا کاروبار، لین دین اور دیگر بین الاقوامی معاملات عیسوی کیلنڈر کے مطابق انجام پارہے ہیں. ہندوستان میں مسلمانی حکومت میں ہجری کیلنڈر استعمال ہوتا تھا. پھر جب انگریز ملک پر قابض ہوئے تو وہ عیسوی کیلنڈر ساتھ لائے اور ملک میں آہستہ آہستہ عیسوی کیلنڈر عموماً رائج ہوگیا. ہمارے اولین اکابرِ دیوبند افضل پر عمل کرنے کے عادی تھے نیز ان کے زمانوں میں عیسوی کیلنڈر ہمارے زمانے کے مقابلے میں نسبۃً کم رائج تھا لہٰذا وہ اپنی تحریروں میں عموماً ہجری تاریخیں لکھتے تھے. البتہ بعد کے بہتیرے اکابر اہم وثائق اور تحریرات میں انگریزی تاریخیں بھی ساتھ ساتھ لکھتے تھے، اور مولانا موصوف نے بھی اپنی تحریر کے اختتام پر ہجری کے ساتھ عیسوی تاریخ لکھنے کا اہتمام فرمایا ہے.

اب ملک کے عرفِ عام میں تاریخ اور سال کا اطلاق چونکہ عیسوی/انگریزی کیلنڈر کی تاریخ اور سال پر ہوتا ہے اور اسلام میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے لہذا انگریزی کیلنڈر کو برتنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے بلکہ اگر کسی معاملے، لین دین، معاہدے وغیرہ میں ہجری کیلنڈر وتاریخ کی صراحت نہ کی گئی ہو تو وہاں عرف کا لحاظ کرتے ہوئے شرعاً انگریزی کیلنڈر کا ہی اعتبار ہوگا.

اسی طرح چونکہ دار العلوم دیوبند ہندوستان میں واقع ہے جہاں کے عرفِ عام میں کیلنڈر اور سالوں کو شمار کرنا عیسوی کیلنڈر کے مطابق ہوتا ہے لہذا کسی کا یہ کہنا کہ دار العلوم کی تاسیس 1866 میں ہوئی اور اس کے قیام پر 154 سال ہوگئے غلط نہیں ہوگا، مطابقِ واقعہ ہوگا. اس پر اعتراض کرنا نامناسب اور یہ کہنا کہ انگریزی تاریخ اور سن کے لحاظ سے حساب لگانے کی صورت میں ہم دار العلوم کی تاریخ میں سے پانچ سال کم یا ضائع کررہے ہیں حیران کن ہے.  عیسوی کیلنڈر سے ہٹ کر اگر ہجری کے مطابق کسی کو کچھ کہنا ہوگا تو ہجری کی صراحت اور قید بڑھانی ہوگی کیونکہ اسے بڑھائے بغیر اس عرف کے خلاف ہوگا جس کو شریعت نے تسلیم کیا ہے.

لہٰذا اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ دار العلوم کی تاسیس 1866 میں ہوئی اور 2020 میں اس کے قیام پر 154 سال مکمل ہوگئے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا، قابلِ اصلاح نہیں ہوگا بلکہ یہی اصل ہوگا اور ہجری سن اورسال کو بتانے کی صورت میں ہجری سن وتاریخ کی صراحت ضروری ہوگی.

خلاصہ یہ کہ ہجری اور عیسوی دونوں کیلنڈر درست ہیں، دونوں ہمارے لئے مفید ہیں. (عیسوی کیلنڈر کی افادیت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا  کہ اس کی شروعاتی تاریخ اور ابتداء کیسی رہی.) اور دونوں کیلنڈروں کے مطابق دار العلوم کی تاسیس کی بات کہی جاسکتی ہے، البتہ ہجری کہنے کی صورت میں ہجری کی صراحت ضروری ہوگی.

محمد عبید اللہ قاسمی، دہلی

مسجدوں میں نماز پڑھنے والے وہ پانچ افراد کون ہوں گے؟

مسجدوں میں نماز پڑھنے والے وہ پانچ افراد کون ہوں گے ـ
                        ــــــــــــــــــــــ
   از ـ  محمود احمد خاں دریابادی

     خبریں گرم ہیں کہ ۸ جون بروز پیر سے مسجدوں سمیت تمام عبادت گاہیں کھولی جارہی ہیں ـ اس سلسلے میں پہلی وضاحت تو یہ کرنی ہے کہ ممبئی اور مہاراشٹر میں ۸ جون سے کوئی عبادت گاہ نہیں کھل رہی ہے ـ حکومت مہاراشٹر کی جانب سے ۳۱ مئی کو جو ہدایات جاری ہوئی تھیں اُس میں صاف لکھا ہوا ہے کہ ساری عبادت گاہیں تا اطلاع ثانی بدستور بند رہیں گی ـ آج ممبئی پولیس کی اشپیشل برانچ کے ایڈیشنل کمشنر مسٹر کولے نے بھی اپنے پیغام میں یہ یاد دہانی کرائی ہے ـ
 
   دوسری ضروری بات یہ ہے کہ جن ریاستوں میں عبادت گاہیں پیر سے کھل جائیں گی وہاں بھی لوگوں کو عبادت گاہوں میں داخلے کی محدود اجازت ہوگی ـ یوپی کے وزیر اعلی کا ایک بیان بھی نظر سے گزرا ہے کہ عبادت گاہوں میں بیک وقت صرف پانچ افراد کے داخلے کی اجازت ہوگی ـ 

    ذرا سوچئے مسجد میں صرف پانچ آدمی نماز پڑھیں گے تو وہ پانچ کون ہوں گے، اُن کے انتخاب کا طریقہ کیا ہوگا، کچھ دبنگ افراد ہر جگہ ہوتے ہیں وہ ہر نماز میں زبردستی گھسنا چاہیں گے اس طرح ہر نماز میں مستقل جھگڑے کی شکل بنے گی، جمعہ کی نماز میں کیا ہوگا؟ .........کیا حکومت یہ چاہتی ہے کہ مسلمان آپس میں ہی لڑ مریں اور پولیس کو دونوں طرف سے کمائی کا موقع ملتا رہے ؟
 
     اس لئے عبادت گاہوں کے کھلنے کے اِس اعلان سے ہم مسلمانوں کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں، الحمدللہ ہماری مسجدیں آباد ہیں، مسجد کا عملہ مساجد میں باجماعت نمازیں ادا کررہا ہے، تراویح، جمعہ اور عید کے موقع پر مسجدوں میں یہی صورت حال رہی ہے ـ یہاں یہ واضح کردینا بھی ضروری ہے کہ ہر مسجد میں امام، موذن اور دیگر خدام کے ساتھ تقریبا چار پانچ افراد تو پہلے ہی نمازیں ادا کررہے ہیں،........... ابھی تک حکومت کی طرف سے ایسی کوئی وضاحت بھی نہیں آئی ہے کہ جن پانچ افراد کو نماز کی اجازت دی جائیگی اُن میں مسجد کا عملے کا شمار ہوگا یا نہیں ـ

    اس لئے ہماری رائے یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ہر محلے میں آپسی جھگڑا پیدا کرنے کے بجائے بہتر ہوگا کہ ابھی مسجدیں پوری طرح نہ کھولی جائیں، حسب سابق اذان  ہوتی رہے اور مسجد کا عملہ نماز باجماعت ادا کرتا رہے، اس دوران ملت کے ذمہ داران حکومت کے رابطے میں رہیں، مساجد اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں نیز مسلمانوں اور دوسروں کے طریقہ عبادت کے درمیان فرق کو واضح کریں .........ساتھ ہی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھ کر مسجدوں میں حاضری کے لئے مزید افراد کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کریں ـ

نصوح ایک عورت نما آدمی

نصوح ایک عورت نما آدمی تھا، باریک آواز، بغیر داڑھی اور نازک اندام مرد.

وہ اپنی ظاہری شکل وصورت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زنانہ حمام میں عورتوں کا مساج کرتا اور میل اتارتا تھا۔ کوئی بھی اسکی حقیقت نہیں جانتا تھا سبھی اسے عورت سمجھتے تھے۔
یہ طریقہ اسکے لئے ذریعہ معاش بھی تھا اور عورتوں کے جسم سے لذت بھی لیتا تھا۔ کئی بار ضمیر کے ملامت کرنے پر اس نے اس کام سے توبہ بھی کرلی لیکن ہمیشہ توبہ توڑتا رہا.

ایک دن بادشاہ کی بیٹی حمام گئی ۔حمام اور مساج کرنے کے بعد پتہ چلا کہ اسکا گراں بہا گوھر (موتی یا ہیرا) کھوگیا ہے
بادشاہ کی بیٹی نے حکم دیا کہ سب کی تلاشی لی جائے۔
سب کی تلاشی لی گئی ہیرا نہیں ملا 
نصوح رسوائی کے ڈر سے ایک جگہ چھپ گیا۔ 
جب اس نے دیکھا کہ شہزادی کی کنیزیں اسے ڈھونڈ رہی ہیں توسچے دل سے خدا کو پکارا اور خدا کی بارگاہ میں دل سے توبہ کی اور وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی بھی یہ کام نہیں کروں گا،  میری لاج رکھ لے مولا۔

دعا مانگ ہی رہا تھا کہ اچانک باہر سے آوازسنائی دی کہ نصوح کو چھوڑ دو، ہیرا مل گیا ہے۔

نصوح نم آنکھوں سے شہزادی سے رخصت لے کر گھر آگیا ۔
نصوح نے قدرت کا کرشمہ دیکھ لیا تھا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کام سے توبہ کرلی۔

کئی دنوں سے حمام نہ جانے پر ایک دن شہزادی نے بلاوا بھیجا کہ حمام آکر میرا مساج کرے لیکن نصوح نے بہانہ بنایا کہ میرے ہاتھ میں درد ہے میں مساج نہیں کرسکتا ہوں۔

نصوح نے دیکھا کہ اس شہر میں رہنا اس کے لئے مناسب نہیں ہے سبھی عورتیں اس کو چاہتی ہیں اور اس کے ہاتھ سے مساج لینا پسند کرتی ہیں۔

جتنا بھی غلط طریقے سے مال کمایا تھا سب غریبوں میں بانٹ دیا اور شہر سے نکل کر کئی میل دور ایک 
پہاڑی پر ڈیرہ ڈال کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہوگیا۔

 ایک دن اس کی نظر ایک بھینس پر پڑی جو اس کے قریب گھاس چر رہی تھی۔  
اس نے سوچا کہ یہ کسی چرواہے سے بھاگ کر یہاں آگئی ہے ،  جب تک اس کا مالک نہ آ جائے تب تک میں اس کی دیکھ بھال کر لیتا ہوں،لہذا اس کی دیکھ بھال کرنے لگا۔

کچھ دن بعد ایک تجارتی قافلہ راستہ بھول کر ادھر آگیا جو سارے پیاس کی شدت سے نڈھال تھے
انہوں نے نصوح سے پانی مانگا نصوح نے سب کو بھینس کا دودھ پلایا اور سب کو سیراب کردیا،
قافلے والوں نے نصوح سے شہر جانے کا راستہ پوچھا 
نصوح نے انکو آسان اور نزدیکی راستہ دیکھایا ۔
نصوح کے اخلاق سے متاثر ہو کر تاجروں نے جاتے ہوئے اسے بہت سارا مال بطور تحفہ دیا۔

نصوح نے ان پیسوں سے وہاں کنواں کھدوا دیا۔
آہستہ آہستہ وہاں لوگ بسنے لگے اور عمارتیں بننے لگیں۔ وہاں کے لوگ نصوح کو بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ 

رفته رفته نصوح کی نیکی کے چرچے بادشاه تک جا پہنچے۔بادشاہ کی دل میں نصوح سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ اس نے نصوح کو پیغام بھیجا کہ بادشاہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں مہربانی کرکے دربار تشریف لے آئیں۔

جب نصوح کو بادشاہ کا پیغام ملا اس نے ملنے سے انکار کر دیا اور معذرت چاہی کہ مجھے بہت سارے کام ہیں میں نہیں آسکتا، بادشاہ کو بہت تعجب ہوا مگر اس بے نیازی کو دیکھ کر ملنے کی طلب اور بڑھ گئی۔ بادشاہ  نے کہا کہ اگر نصوح نہیں آسکتے تو ہم خود اس کے پاس جائیں گے۔
جب بادشاہ نصوح کے علاقے میں داخل ہوا، خدا کی طرف سے ملک الموت کو حکم ہوا کہ بادشاہ کی روح قبض کرلے۔
چونکہ بادشاہ بطور عقیدت مند نصوح کو ملنے آرہا تھا اور رعایا بھی نصوح کی خوبیوں کی گرویدہ تھی، اس لئے  نصوح کوبادشاہ کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔

نصوح نے اپنے ملک میں عدل اور انصاف کا نظام قائم کیا۔ وہی شہزادی جسے عورت کا بھیس بدل کر ہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈرتا تھا ،اس شہزادی نے نصوح سے شادی کرلی۔
ایک دن نصوح دربار میں بیٹھا لوگوں کی داد رسی کررہا تھا کہ ایک شخص وارد ہوا اور کہنے لگے کہ کچھ سال پہلے میری بھینس گم ہوگئی تھی ۔ بہت ڈھونڈا مگر نہیں ملی ۔ برائے مہربانی میری مدد فرمائیں۔ 

نصوح نے کہا کہ تمہاری بھینس میرے پاس ہے 
آج جو کچھ میرے پاس ہے وہ تمہاری بھینس کی وجہ سے ہے، نصوح نے حکم دیا کہ اس کے سارے مال اور دولت کا آدھا حصہ بھینس کے مالک کو دیا جائے۔
وہ شخص خدا کے حکم سے کہنے لگا: اے نصوح جان لو، نہ میں انسان ہوں اور نہ ہی وہ جانور بھینس ہے۔
بلکہ ہم دو فرشتے ہیں تمہارے امتحان کے لئے آئے تھے یہ سارا مال اور دولت تمہارے سچے دل سے توبہ کرنے کا نتیجہ ہے، یہ سب کچھ تمہیں مبارک ہو، وہ دونوں فرشتے نظروں سے غائب ہوگئے۔ 

اسی وجہ سے سچے دل سے  توبہ کرنے کو (توبه نصوح) کہتے ہیں. تاریخ کی کتب میں نصوح کو بنی اسرائیل کے ایک بڑے عابد کی حیثیت سے لکھا گیا ہے۔ 

کتاب: مثنوی معنوی، دفتر پنجم
انوار المجالس صفحہ 432۔

سبق: نصوح رزق کمانے کے لئے اللہ کا نا پسندیدہ کام کیا کرتا تھا۔ جب وہ کام للہ کے خوف کی وجہ سے چھوڑا تو اللہ نے رزق کے اسباب پیدا کئے اور بادشاہت تک عطا کر دی۔ حرام طریقے سے لذت حاصل کرنا چھوڑا تو اللہ نے نکاح میں شہزادی دے دی

اللہ تعالی سب کو توبہ کرنے، اور تا دم مرگ اس توبہ پر قائم رہنے کی توفیق فرمائے آمین

Why there was a need of CAA before NRC?

Why there was a need of CAA before NRC?

We have seen in Assam that NRC has excluded more non-Muslims from the citizenship list than Muslims. There was a need to appease and protect Bangladeshi illegal immigrants who are mainly BJP voters. The CAA was also promised in the BJP election manifesto.
Moreover, CAA+NRC will be an additional tool to appease more Bengali immigrants in West Bengal state which is election bound next year. Winning West Bengal by the ruling BJP will be a big milestone for the Party.

What is the link between NRC and CAA?
These two are very  strongly interlinked. Without each other they both will be handicapped. See for example the claus 6 of the Citizenship Amendment Act to assertion how these two are clubbed with each other.
In Assam-NRC some 19 lakhs people are presently left out, around 5 lakhs are Hindu Bengali immigrants from Bangladesh. All of theme can be enrolled merely if they prove they are refugees and arrived in India before December 2014. However, remaining around 14 lakh, majority of whom are sons and daughters of the soil- indigenous  tribal people, from all religions including Hindus and Muslims, will remain non-citizens of India if they fail to prove again during the claim and objection procedure. It means CAA will give citizenship to those who came from three foreign countries and take away citizenship from those citizens who are indigenous Indians but do not have pieces of papers to prove it due their lack of education or being poor.

NRC without CAA is nothing, just a waste of national recourses and CAA without NRC doesn't make sense for BJP. However, the CAA already taken away the being "secular" status from India.

Is CAA against India's Constitution?
Yes, by all means it is. It is against the preamble of the Indian Constitution which stands on secularism as one of its major pillars. It is against Articles 13, 14, 15 and 21 of Indian Constitution. Read article 13 which prohibits enacting any law which may go against the basic principles of the Constitution and fundament rights, article 14 which speaks about equality of a "person" before the law and article 15 prohibits discrimination on the basis of sex, caste, religion, language or place of birth and the article 21 is about personal liberty of all citizens of India.
Until one is proven guilty Govt. cannot seize liberty of a citizen but in the cases of detention in Assam in the name of foreigners the same has not been followed, because if a person could not prove his Indian citizenship due to lack of documents with him, it directly does not mean that he or she is a foreigner unless the Govt. proves from which country and place he or she came from. Unless you do not prove he or she is a foreigner with evidence in your hand, you cannot punish a citizen of India. But you are punishing hundreds of people in Assam just because they couldn't prove that they are Indians  but you too couldn't prove they are foreigners. This same practice will not be done in reset of India is not assured.

When the NRC plan or details are not yet ready as the TIO reports reads (20 Dec. Online edition), then how the Govt knows what and how will it be and how not?

I don't know it. TIO might have the answer or it could be one more Jumla and propaganda from the HM.

If the NRC is like a simple documentation process as mentioned in TIO report then why the Govt. is going to do one more process after Aadhar which will be very costly and deadly tired some?
To divide Indians and rule. Just to keep Indians in line like they were standing during demonization so that they cannot think of or ask about development, economy, price-hike and jobs etc.

Thanks
MB Qasmi

شہریت ترمیمی بل ایک سازش؟

کیب CAB اور این آر سی اپنے ہی وطن میں ہندوستانیوں کو بے گھر کرنے کی سازش ہے؟

حضرت مولانا محمد ابو طالب رحمانی صاحب رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

مرکزی حکومت وقت کی ضرورت کو سمجھ کر چیلنجس قبول کرنے اور اس کا مقابلہ کرکے اس کا حل تلاشنے کے بجائے بیکار کی چیزوں میں وقت اور مال ضائع کر رہی ہے اور ایک جمہوری ملک میں کھلے عام تعصب پسندی کی آگ بھڑ کا رہی ہے.

ملک کی معیشت جس بری طرح سے متاثر ہوئی ہے اس سے قبل کبھی نہیں ہوئی جی ڈی پی گر کر %4.5 ہو گئی ہے، بے روزگاری عام ہوگئی ہے، مہنگائی آسمان چھو رہی ہے، ریپ کے دن بدن بڑھتے واردات ملک کی شبیہ پوری دنیا میں خراب کر رہا ہے لیکن مرکزی حکومت اور ان کے وزراء کو یہ سب نہیں دکھ رہا ہے انہیں تو بس دفع 370، رام مندر، کیب CAB اور این آر سی دکھ رہا ہے انہیں مسلم دشمنی اور تعصب زدہ سیاست ہی کرنی ہے جس میں اقلیتوں کو اس کے گھر سے بے گھر کرنے میں سب سے زیادہ دلچسپی ہے حبکہ حقیقت یہ ہے کہ کیب CAB اور NRC سے سب سے زیادہ نقصان ملک کا ہوگا، ہمارا ملک اس وقت جس معاشی بحران سے گذر رہا ہے، اور NRC پر مجوزہ بجٹ تقریبا 17؍ کھرب روپیے کا ہے، ایسی حالت میں اگر این آر سی لاگو ہوتا ہے تو ملکی معیشت کا دیوالہ نکلنے میں کوئی شبہ ہی نہیں ، بُھک مَری کا زبردست خطرہ ہے اور بھک مری کے نتیجہ میں لوٹ کھسوٹ اور کرائم کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔

     آسام میں جو NRC کے نام پر کارروائی ہوئی اس میں سات سال کا وقت لگا اور 16؍سو کروڑ روپیےخرچ اور لاکھوں افراد بےگھرہوئے،سیکڑوں جانیں گئیں، اور نتیجہ یہ نکلا کہ جب اس پوری کارروائی کی آخری رپورٹ آئی تو بھاجپا اور اس کی حکومت نے اس رپورٹ کو ماننے سے انکار کردیا؛ کیوں کہ اس کا مقصد این آر سی نہیں؛ بلکہ فساد پھیلانا اور ہندوستانیوں کو اپنے ہی وطن میں بےگھر کرنا تھا۔

حکومت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلمان ہندوستان میں صدیوں سے آباد ہیں لیکن اس کے باوجود اب CAB اور این آر سی جیسے لغویات کا سہارا لیکر ان مسلمانوں کو گھس پیٹھیا اور دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی پوری تیاری ہے *ہم مسلمانان ہند حکومت پر واضح کردینا چاہتے ہیں ان مسائل کو چھیڑ کر آپ ملک کا مال اور وقت ضائع نہ کریں ہندوستانی عوام کو گمراہ کرکے آپ اپنی ناکامی چھپا نہیں سکتے یہ ملک کل بھی ہمارا تھا آج بھی ہمارا ہے اور ہمیشہ ہمارا رہے گا ان شاء ﷲ*.

*این آر سی میں حکومت وقت بالکل ناکام ہوئی ہے کروڑوں روپئے ڈوب چکے ہیں لمبی مدت ضائع ہوئی ہے بہت سی جانیں چلی گئی اور ہندوستان کا ایک بڑا طبقہ بشمول ہندو بھائیوں کے ڈر اور خوف میں زندگی بسر کر رہا ہے آسام اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے مزید اس طرح کی حرکتوں سے بین الاقوامی اسٹیج پر ہندوستان کی کیا شبیہ ابھر کر آئے گی اس کا بھی اندازہ حکومت کو نہیں ہے*.

میں ملک کے  ہر فرد سے ہندو سے مسلمانوں سے یہ درخواست کرتا ہوں اس کیب CAB کے خلاف اور این آر سی کے خلاف اپنا سخت احتجاج درج کروائیں اور اپوزیشن کی تمام پارٹیوں اور لیڈروں کو واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ انتخابات کے وقت آپ کو مسلمانوں کی بڑی یاد آتی ہے مسلمانوں کے مسیحائی کرنے کا دم بھرتے ہیں اگر آپ نے اس وقت اس بل کی مخالفت کھلے عام نہ کی یا سیاست دکھاتے ہوئے کیب CAB کے خلاف ووٹنگ کے وقت غیر حاضر رہے یا واک آوٹ کیا تو ہم سمجھیں گے کہ آپ میں اور بی جے پی میں  کوئی فرق نہیں ہے پھر ہم بھی آپ کو انتخاب کے وقت یکطرفہ نکار دیں گے ہماری کمیونیٹی کے ایک فرد کا ووٹ آپ حاصل کرنے کو ترس جائیں گے۔
خیال رہے اس بل اور این آر سی کی مخالفت صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ بہت سی ریاستوں میں کھلے عام دیگر کاسٹ کے لوگ بھی کر رہے ہیں یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں اگر میڈیا اسے ہندو بنام مسلم بناتی ہے تو ان کو میزورم  اور دیگر  شمال مشرقی ریاستوں، اضلاع اور شہروں میں ہونے والے ہمارے غیر مسلم بھائیوں کا احتجاج ضرور یاد دلانا چاہئے۔

Islamic Madrasas: Role and Importance

Islamic Madrasas: Role and Importance

By: Khursheed Alam Dawood Qasmi*
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in
Introductory Words:
Thanks to the sincere efforts of Maulana Muhammad Qasim Nanautavi (1832-1879), a good number of Islamic Madrasas were founded following the establishment of Darul Uloom, Deoband (Est. 1866), in India, pre and post Indias freedom which are and were run with the contributions and donations of the Muslim community. Following the establishment of the British rule in India, all Islamic educational institutes were closed down because they were being run with munificent grants from the Mughal court and from Muslim nobles only. That was the reason; it had been decided at the time of foundation of Darul Uloom, Deoband that the entire financial burden of running Madrasa should be borne by the Muslims themselves.
Shedding light on the final collapse of the Mughal Empire and the ruin of the Islamic seminaries by the British rule in India with the events of 1857, ex- Mufti of Darul Uloom, Deoband, Mufti Muhammad Zafiruddin Miftahi (1926-2011) writes:
“…The educational institutions that had been imparting instruction to the Muslim youth in cities like Delhi, Lahore, Agra, and Jaunpur and similarly at many places in the provinces of Gujarat, Bihar, Madras and Bengal had all closed down after the establishment of British rule. This was mainly because they were being run with munificent grants from the Mughal court and from Muslim nobles. They also received financial aid from charitable trusts that had been founded in the past for this very purpose, and that had all stopped functioning or had been confiscated by the government after the establishment of British rule in India. (Darul Ulum Deoband: A Brief Account of its Establishment and Background, P.: 08)
Now, one can find a good number of Islamic Madrasas not only in India, Pakistan and Bangladesh; but even in the UK, USA, and many African and European countries, which follow the same syllabus and system of Darul Uloom, Deoband with little bit difference of the omission and addition into the curriculum and are run with the donations of the Muslims themselves to teach Islamic theology.
Muslims’ Current Situations:
There are a good number of Madrasas throughout the world, which are busy in spreading the Islamic messages and equip the Muslim kids and adults with Islamic theology. Though there is no official data available, but it is believed that there may be more than 50,000 Madrasas only in India. But after so many Madrasas, when you analyse the Muslims social and religious current situation, you will find that many of them are not aware of the real concept of Aqaaid (Believes), Ahkaam (rulings), Ma’amlaat (Dealings) Faraaidh (Obligations) etc. If one goes ahead and claims that in the country like India even a good number of Muslims dont know Shahaadtein (Islamic declaration of belief in the unity of Allah and Prophethood of Muhammad Sallallahu Aleihi Wa Sallam) properly, he will not be wrong.
The fact is that a Muslim as an individual must know Islam and its requirements as mentioned above to please his Creator, Allah in regard to his day-to-day affairs. The Muslims collectively, as being the best nation, must play a positive role in the society to spread the peace and convey the true messages of Islam to those who are unaware of. Because, this is the reason that Allah has addressed them in the Glorious Quraan as “You are the best Ummah (nation) ever raised for mankind. You bid the Fair and forbid the Unfair, and you believe in Allah.” (The Quran: Aal Imraan, Verse: 110)
Present problem is that when the Muslims themselves dont know believes, rulings, dealings, obligations etc., how can they be good Muslims and how can they convey the messages of Islam? We need to look into the main cause of the worst situation of Muslims. It’s a truth that most of the Muslim families don’t prefer Madrasas education. The students in Madrasas are commonly from few poor and middle class families. From upper class family, hardly one goes to the Madrasas. On top of that, those who go to Madrasa for learning are just four percent. The report of Sachar Commitee says: “Only four per cent of Muslims students actually go to Madrasas primarily because primary state schools do not exist for miles. Therefore, the idea that Muslims prefer Madrasa education was found to be not true.”
Inferiority Complex:
Common Muslim families in general and the upper class families in particular dont prefer Madrasas education. They dont want to let their children learn Islamic education. They are scared that after spending a long period of 6-8 years in a Madrasa, whatever their children will learn cant be enough to get a luxurious job with lucrative salary. Actually, they have mistaken thinking so. The goal and aim of learning in a Madrasa is not to get a luxurious job with lucrative salary. Madrasa education is not job or career-oriented. We, Muslims, never learn Islamic sciences as means to seek job. We learn to know Allah, His rights, and his sent messages that are in the Quraan and Hadeeth. We learn it for being a good human being. It helps us to lead a better life. We learn traditional sciences so that we can be able to convey the messages of Islam to those who are yet uninformed. So, we should not be in inferiority complex; rather we should understand the aims and objectives of religious education.
Sometimes, a Madrasas graduate himself raises the same question and goes up to extend to say, “I have lost so and so precious years of my life being in Madrasa.” This question comes only to the minds of those who join Madrasa unknowingly the objective, or he is facing inferiority complex. If one gets admission in a Madrasa knowing its goal, he will never complain of the same.
Value of Madrasas:
When one thinks deeply, he comes to know that we need to create awareness among the members of the Muslim community to know the value and significance of Madrasas and to make their children enrolled in it. We need to connect more and more Muslim families with Madrasas. When they get attached with Madrasas and start learning, Allah willing, above problem will be solved itself. It is, therefore, big task to encourage those 96% Muslims to join Madrasas to learn Islam. If a Muslim gains everything, like fame, wealth and high office; but he is unaware of the Creator and Islam, as a result, he gained nothing. This worldly life is only for taste, the real life and world will start after death, as we believe truly. Allah, the Almighty will question for the worldly life. That is why, we need to know Islam and learn Islamic theology as it will help to spend the life in the world in accordance with the will of Allah, the Supreme Lord. Islamic Madrasas are the best sources to learn Islamic knowledge. They are the fort of Islam. The Madrasas are the important vehicle for carrying a sense of separate identity for Muslims. Keeping this point in the view, we must appreciate and acknowledge the works and contributions of Islamic Madrasas.
Madrasas’ Curriculum:
There are some so-called intellectuals and thinkers who always talk about the curriculum of Madrasas. They say that Madrasas in the present condition are not relevant for the mainstream employment opportunities as the scope and curriculum is very limited. They always ask the curriculum must be modified and harmonized with the current condition and modern sciences should be included in it; while it’s a reality that they have never been in a Madrasa. They dont know even the ABC of Madrasa. As far as the changing or replacing of a book instead of a present book in the curriculum is concerned, owing to the language and method, its done occasionally. But their demand of changing by excluding some Islamic sciences or its assisting ones from the assigned curriculum by including modern sciences, is difficult and it can never happen, because, it is against the main objective of a Madrasa. As they arent fully informed with the purpose of the establishment of Madrasa, they put their demand in such manner.
What is the objective of the establishment of a Madrasa and why the modern sciences were and are not included in Madrasas curriculum? Lets read the speech of Darul Uloom, Deobands founder to know its reason satisfactorily. Presenting the report of Darul Uloom, Deoband in 1873, Maulana Nanautavi said:
“Why, in the pursuit and acquisition of knowledge, was this policy adopted? Why were the modern sciences excluded? Among others, due consideration (whether in general education or specialised training) must be given to the aspect that needs greatest attention owing to its neglect in the past. Now anyone with the least knowledge of history knows that in the modern age, owing to the increase in the number of government institutions, the teaching of the new sciences has received the kind of attention that was denied to the traditional sciences even in the days of the best rulers of the past. There has, however, been an equally remarkable decline in the teaching of the traditional sciences of religion. Under such circumstances, to most people the establishment of one more institution of modern learning would appear to be futile and redundant. Only those branches of modern knowledge have been made a part of the syllabi at Darul Uloom which lead to more effective learning of religious sciences.” (Speech by Nanautwi in Ruedad-e-Madrassah Islami-Arabi, 1873 AD)
Maulana Nanautavis speech makes it loud and clear that the purpose of Madrsa is not to teach the modern sciences as for it there are many colleges and universities; rather to give full attention to the religious education which had been completely declined from a long time. If a person demands that the medical sciences should be taught to the engineering students or vice versa, as everyone is aware of its value, the same thinkers will say that this person seems to be foolish as here is specialization in Engineering or Medical; but the same intellectuals fail to understand that the Madrasas curriculum is also for the specialization in Islamic sciences.
Conclusive Words:
Today, without a doubt, Islamic Madrasas are playing a key role to impart Islamic teachings, to reform the society and to make an Allah-fearing human being to lead a better life. The pivotal role of Madrasas in Muslim community can never be declined. As it was needed before, we need it today more than ever. But, we have to say with sorrow that few so-called intellectuals are always trying to defame the Madrasas and ignore its services to the community. While on the other hand, we find that previous intellectuals and thinkers appreciated the role of Madrasas wholeheartedly and always highlighted its need. We conclude this piece of writing with the some statements of the elderly scholars, thinkers and philosophers.
Celebrated Islamic scholar Allamah Sayyid Sulaiman Nadvi (1884-1953) writes: I frankly say we would be in greater need of the Arabic Madrasas in India going to be transformed in different shapes, than we need them today. These Madrasas would be treated as the foundation and centers of Islam in India. People, like today, would be engrossed roaming around offices and jobs and flattering the authorities in power, and these crazy people would remain on alert tomorrow like today. It is, therefore, the greatest responsibility of Muslims to run and take care of these Madrasas wherever and whatever condition they might be. If these Arabic Madrasas have no alternate benefit and role, it is not a petty thing that these Madrasas are a source to impart knowledge to the poor people freely. Having benefited by them, our poor class get elevated a bit and their next generation improves a bit more and this progression continues. A deep thinking will unravel this point of view.”
Hakeemul Ummat Hazrat Thanvi (1863-1943) is of the opinion about these Madrasas: “Today, for Muslims, the existence of Islamic Madrasas is a great boon, not imaginable greater than this. If a system exists in the world for survival of Islam, it is Madrasa.” (Huqooqul Ilm, P.: 51)
The Great Eastern poet and philosopher, Dr. Muhammad Iqbal (1877-1938) said: “Let these Makaatib and Madrasas be left to work independently. Let poor Muslims' children be allowed to study in these Madrasas. If these Mullahs and dervishes are no more, what will happen, do you know? Whatever will happen, I have observed with my eyes. If the Indian Muslims are deprived of the influence of these Madrasas, the same will happen, happened in Spain despite 800-year of Muslims' rulings. Today, except the ruins of Granada, Cordoba and the signs of Alhambra, there are no signs of Muslims and the influences of Islamic civilization. There would be no sign of 800-year rulings of Muslims and their civilization even in Hindustan, except the Taj Mahal of Agra and the Red Fort of Delhi.” (Deeni Madrasas: Maazi, Haal aur Mustaqbil, P.: 49)

* Teacher: Moon Rays Trust School, Zambia

Mughal Emperor Aurangzeb: Bad Ruler or Bad History?


Posted: 29 Aug 2015 07:22 PM PDT
By Dr. Habib Siddiqui
http://www.albalagh.net/general/0093.shtml

Of all the Muslim rulers who ruled vast territories of India from 712 to 1857 CE, probably no one has received as much condemnation from Western and Hindu writers as Aurangzeb. He has been castigated as a religious Muslim who was anti-Hindu, who taxed them, who tried to convert them, who discriminated against them in awarding high administrative positions, and who interfered in their religious matters. This view has been heavily promoted in the government approved textbooks in schools and colleges across post-partition India (i.e., after 1947). These are fabrications against one of the best rulers of India who was pious, scholarly, saintly, un-biased, liberal, magnanimous, tolerant, competent, and far-sighted.

Fortunately, in recent years quite a few Hindu historians have come out in the open disputing those allegations. For example, historian Babu Nagendranath Banerjee rejected the accusation of forced conversion of Hindus by Muslim rulers by stating that if that was their intention then in India today there would not be nearly four times as many Hindus compared to Muslims, despite the fact that Muslims had ruled for nearly a thousand years. Banerjee challenged the Hindu hypothesis that Aurangzeb was anti-Hindu by reasoning that if the latter were truly guilty of such bigotry, how could he appoint a Hindu as his military commander-in-chief? Surely, he could have afforded to appoint a competent Muslim general in that position. Banerjee further stated: "No one should accuse Aurangzeb of being communal minded. In his administration, the state policy was formulated by Hindus. Two Hindus held the highest position in the State Treasury. Some prejudiced Muslims even questioned the merit of his decision to appoint non-Muslims to such high offices. The Emperor refuted that by stating that he had been following the dictates of the Shariah (Islamic Law) which demands appointing right persons in right positions." During Aurangzeb's long reign of fifty years, many Hindus, notably Jaswant Singh, Raja Rajrup, Kabir Singh, Arghanath Singh, Prem Dev Singh, Dilip Roy, and Rasik Lal Crory, held very high administrative positions. Two of the highest ranked generals in Aurangzeb's administration, Jaswant Singh and Jaya Singh, were Hindus. Other notable Hindu generals who commanded a garrison of two to five thousand soldiers were Raja Vim Singh of Udaypur, Indra Singh, Achalaji and Arjuji. One wonders if Aurangzeb was hostile to Hindus, why would he position all these Hindus to high positions of authority, especially in the military, who could have mutinied against him and removed him from his throne?

Most Hindus like Akbar over Aurangzeb for his multi-ethnic court where Hindus were favored. Historian Shri Sharma states that while Emperor Akbar had fourteen Hindu Mansabdars (high officials) in his court, Aurangzeb actually had 148 Hindu high officials in his court. (Ref: Mughal Government) But this fact is somewhat less known.

Some of the Hindu historians have accused Aurangzeb of demolishing Hindu Temples. How factual is this accusation against a man, who has been known to be a saintly man, a strict adherent of Islam? The Qur'an prohibits any Muslim to impose his will on a non-Muslim by stating that "There is no compulsion in religion." (surah al-Baqarah 2:256). The surah al-Kafirun clearly states: "To you is your religion and to me is mine." It would be totally unbecoming of a learned scholar of Islam of his caliber, as Aurangzeb was known to be, to do things that are contrary to the dictates of the Qur'an.

Interestingly, the 1946 edition of the history textbook Etihash Parichaya (Introduction to History) used in Bengal for the 5th and 6th graders states: "If Aurangzeb had the intention of demolishing temples to make way for mosques, there would not have been a single temple standing erect in India. On the contrary, Aurangzeb donated huge estates for use as Temple sites and support thereof in Benares, Kashmir and elsewhere. The official documentations for these land grants are still extant."

A stone inscription in the historic Balaji or Vishnu Temple, located north of Chitrakut Balaghat, still shows that it was commissioned by the Emperor himself. The proof of Aurangzeb's land grant for famous Hindu religious sites in Kasi, Varanasi can easily be verified from the deed records extant at those sites. The same textbook reads: "During the fifty year reign of Aurangzeb, not a single Hindu was forced to embrace Islam. He did not interfere with any Hindu religious activities." (p. 138) Alexander Hamilton, a British historian, toured India towards the end of Aurangzeb's fifty year reign and observed that every one was free to serve and worship God in his own way.

Now let us deal with Aurangzeb's imposition ofthe jizya tax which had drawn severe criticism from many Hindu historians. It is true that jizya was lifted during the reign of Akbar and Jahangir and that Aurangzeb later reinstated this. Before I delve into the subject of Aurangzeb's jizya tax, or taxing the non-Muslims, it is worthwhile to point out that jizya is nothing more than a war tax which was collected only from able-bodied young non-Muslim male citizens living in a Muslim country who did not want to volunteer for the defense of the country. That is, no such tax was collected from non-Muslims who volunteered to defend the country. This tax was not collected from women, and neither from immature males nor from disabled or old male citizens. For payment of such taxes, it became incumbent upon the Muslim government to protect the life, property and wealth of its non-Muslim citizens. If for any reason the government failed to protect its citizens, especially during a war, the taxable amount was returned.

It should be pointed out here that zakat (2.5% of savings) and ‘ushr (10% of agricultural products) were collected from all Muslims, who owned some wealth (beyond a certain minimum, called nisab). They also paid sadaqah, fitrah, and khums. None of these were collected from any non-Muslim. As a matter of fact, the per capita collection from Muslims was several fold that of non-Muslims. Further to Auranzeb's credit is his abolition of a lot of taxes, although this fact is not usually mentioned. In his book Mughal Administration, Sir Jadunath Sarkar, foremost historian on the Mughal dynasty, mentions that during Aurangzeb's reign in power, nearly sixty-five types of taxes were abolished, which resulted in a yearly revenue loss of fifty million rupees from the state treasury.

While some Hindu historians are retracting the lies, the textbooks and historic accounts in Western countries have yet to admit their error and set the record straight.

This Dog Will Get More Fans Than Syed Ali Shah Geelani

This Dog Will Get More Fans Than Syed Ali Shah Geelani



By: Khursheed Alam Dawood Qasmi


There are many social networking sites like Orkut, Twitter, Google+ and Facebook. Nowadays, the popular one among them is "Facebook". The people all over the world use it for the same aim of social networking; whereas some friends are using it for their personal contact and works. This is also an undeniable fact that many youths people use it to deceive a girl and to make her a friend. They start friendship with Liking a Posted Status, commenting on it or with sending message and often it results the misuse and abuse of a girl. I have a Facebook page in my name too.

On Friday evening, November 11, 2011, I was using my Facebook account. I visited the walls of some of my friends' accounts. I also had a chance to visit the Facebook Wall of my friend: Zainul Bariwala (Zainul Abidin Bariwala).

My friend: Zainul Bariwala had written some comments on the wall of a page created with the title: "This Dog will get more fans than syed ali shah geelani". Yet, 182 people have liked this page.

As the profile picture of the above mentioned page, three pictures have been used yet. The first picture is of Dr. Zakir Naik, the second and the third ones are of two different dogs. According to me, "This Dog" means the profile picture. As far as "syed ali shah geelani" is concerned, so he is a famous political leader from Jammu & Kashmir and the chief of a separatist party: "All Parties Hurriyat Conference (G)". He is regarded as a separatist all over India for his view of separation of Kashmir.

Upto the extent of the creation of the page with above mentioned title, I'm not surprised and worried. But what made me surprised, suffocated and furious were the Posted status and photos by the cursed admin on the wall of the page. There are many status and photos on the page by the admin. All are to insult and abuse "Allah" (the Arabic word used instead of God), Muhammad (PBUH) (the last messenger of God) and his wife Aisha (RA). Under the comments of some status, the admin praises Jesus (PBUH) and claims that Jesus (PBUH) is the greatest. All insults are in clear words. Anyone can understand easily.

Being a Muslim, the both: my faith and inner feeling don't allow me to quote even one status or even one sentence from those. If someone wants to understand the poisonous mentality and enmity of the accursed admin against Islam, he should visit the page.

The person who created this page should know that due to his insult and abuse, Islam won't get removed from the surface of the earth. But, by the grace of Allah, now it's the fast spreading religion in the world. In the beginning era of Islam, there were thousands of people who plotted conspiracy and created confusion against Islam, but they couldn't get success in their planning. Their efforts went in vain. Islam wasn't removed and will never be. Yes! They were disgraced and removed and none is present to remember them with good name. They are being remembered with curse and disgrace. The same will happen with the cursed creator of such page on the Facebook. I'm fully convinced and it's part of my faith that Allah, the Almighty protected, protects and will protect Islam and Muslim upto the Doomsday.

Everyone is not of the same mind and view. But only few cursed people want to violate the peace and tranquility. The peace loving people will never like such page. The good human being always oppose the views and opinions that spread poison among the people.

There are some websites, blogs and Facebook pages with the goal of spreading enmity, violating the harmony and hurting the feeling of minority community. When a person using the fake account on Facebook in the name of Congress General Secretary, Rahul Gandhi or Chief minister of Madhya Pradesh, Shivraj Singh Chouhan can be caught red handed then what about this poisonous person. He can be caught and arrested as well. I, therefore, request our honourable Muslim leaders to come in the field and teach such people a lesson, so that they will never try to spread the enmity in the communities.

(The author, Khursheed Alam Dawood Qasmi, is a graduate of Darul Uloom, Deoband and at present, teacher of Moon Rays Trust School, Zambia, S. Africa. He can be reached at qasmikhursheed@yahoo.co.in)

Al-Huda Classes

Motivational Quotes

Some Motivational Quotes: 1. "Believe you can, and you’re halfway there." یقین رکھو کہ تم کر سکتے ہو، اور تم آدھے راستے پر پہنچ جا...