Search This Blog

Showing posts with label M Khursheeed Alam. Show all posts
Showing posts with label M Khursheeed Alam. Show all posts

غزہ: دنیا کا سب سے بڑا غیر قانونی قید خانہ


خورشید عالم داؤد قاسمی

آج کی تاریخ میں دنیا کا اگر کوئی سب سے بڑا غیر قانونی قید خانہ ہے؛ تو وہ فلسطین کا مشہور خطہ’’غزہ کی پٹی‘‘ہے۔ اسرائیل کی دہشت گردی اور پڑوسی ملک مصر کی غیر دانشمندانہ حکمت عملی کے سبب، غزہ دنیا کے سب سے بڑے غیر قانونی قید خانے اور آہنی پنجرے میں تبدیل کردیا گیاہے۔ غزہ پٹی 365 کیلو میٹر کے رقبہ پر مشتمل بچے کھچے فلسطین کا ایک اہم خطہ ہے۔ غزہ پٹی کی آبادی تقریبا دو ملین لوگوں پر مشتمل ہے۔ یاسر عرفات کی وفات کے بعد، منعقد ہونے والے الیکشن میں’’حماس‘‘ (اسلامی تحریکِ مزاحمت) کی کامیابی کے بعد، اسماعیل ہنیہ کو فلسطین کا وزیر اعظم منتخب کیا؛ لیکن صدر محمود عباس نے ان کو 2007 میں معزول کردیا، جس کے بعد مسٹر ہنیہ’’غزہ‘‘میں اپنی حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ اس طرح غزہ کی حکومت جون 2014 تک ’’حماس‘‘کے کنٹرول میں رہی۔ پھر2؍جون کو آپسی اتحاد و اتفاق کے بعد، مشترکہ حکومت بنانے کی بات طے ہوئی، مگر اس کا کوئی فائدہ حماس اور اہالیان غزہ کو حاصل نہیں ہوا۔
جہاں ایک طرف اسرائیل نے سن 2007 سے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کر رکھا ہے؛ وہیں دوسری طرف مصر نے غزہ بین الاقوامی گزرگاہ’’رفح ‘‘کی ناکہ بندی کیے ہوا ہے۔ غزہ کے محاصرہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسرائیلی حفاظتی دستے صرف غزہ کے باشندوں کی قدم قدم پر جامہ تلاشی لیتے ہیں؛ بل کہ غزہ کی پٹی میں، ہر طرح کی در آمدات پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اگر کوئی بیمار ہے؛ تو دوسرے ملک علاج کے لیے بھی نہیں جاسکتا ہے۔ اگر کوئی کہیں تعلیم حاصل کررہا ہے اور گھر والوں سے ملنے کے لیے کسی طرح غزہ میں داخل ہوجاتا ہے؛ تو دوبارہ اس کا نکلنا مشکل ہے۔ اسرائیل کے اس ظالمانہ محاصرے اور مصر کی ناکہ بندی کے نتیجے میں، کتنے لوگ علاج و معالجے سے محروم ہوکر، موت کی آغوش میں جاچکے ہیں اور کتنے پڑھنے لکھنے والے تعلیم سے محروم ہوکرغزہ میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔
اسرائیل کے غرور کو اگر کوئی جماعت خاک میں ملا سکتی ہے؛ تو آج کی تاریخ میں وہ واحد جماعت ’’حماس‘‘ہے اور حماس کی اصل روح غزہ کے باشندگان ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دسمبر 2005 میں ہی ایریل شیرون کی حکومت نے غزہ کے باشندگان کو حماس سے متنفر کرنے کیلیے غزہ سے بجلی سپلائی ختم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ مگر اس تجویز کو اس لیے عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا کہ اوّلا تو یہ عمل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوگی اور پوری دنیا اس پر اسرائیل کو تھوتھو کرے گی اور دوسرے یہ کہ اسرائیل کی اس حرکت کا سیدھا نقصان محمود عباس کی ’’فتح پارٹی‘‘کو الیکشن میں اٹھانا پڑے گا اور حماس حکومت بنانے میں کام یاب ہوجائیگی۔ جب 2006کے الیکشن میں، حماس نے جمہوری طریقے سے واضح اکثریت کے ساتھ، الیکشن جیت لیا؛ تو اسی وقت سے غزہ کو ملنے والی امداد کو روکنے کا عمل شروع کردیا گیا تھا۔ پھر ہوتے ہوتے 2007 سے اسرائیل نے پورے غزہ کا محاصرہ کرکے اسے دنیا کے سب سے بڑے غیر قانونی قید خانے میں تبدیل کردیا۔
غزہ کی پٹی کے محاصرے کا مقصد یہ ہے کہ جب غزہ کے باشندگان ہر طرف سے پریشانی کا سامنا کریں گے؛ تو وہ حماس کی حکمت عملی اور سرگرمیوں سے ناراض ہوکر، حماس کے خلاف علم بغاوت بلند کردیں گے اور پھر محمود عباس یا اس جیسے کسی نام نہاد معتدل سیاسی رہنماکی قیادت تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے، جو واضح طور پر اسرائیل کو تسلیم کرے اور اسرائیل کی راہ میں کسی طرح کی رکاوٹ پیدا نہ کرے۔ آج اسرائیل جو کھیل غزہ میں کھیل رہا ہے، وہ باشندگان غزہ کا گلا گھوٹنے کے مترادف ہے اور اسرائیل جہاں اس کا بلا واسطہ مجرم ہے، وہیں بین الاقوامی سماج اس جرم میں بالواسطہ شریک ہے۔
جب ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے اقتدار میں آئے؛ تو انھوں پہلا کام یہ کیا کہ’’رفح‘‘گزرگاہ کی ناکہ بندی ختم کی۔ اس سے غزہ والے نے راحت کی سانس لی تھی۔ مگر3؍جولائی 2013کو،محمد مرسی کی ناجائز گرفتاری کے بعد ، پھر سے رفح گزرگاہ کی ناکہ بندی کردی گئی اور قاہرہ عدالت نے’’حماس‘‘کو ایک دہشت پسند تنظیم قرار دے کر، اس کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی۔
غزہ کی پٹی کے محاصرے کا اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کیمون، اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل اور حقوق انسانی سے متعلق بہت سے دوسرے اداروں نے ’’اقوام متحدہ‘‘کے پلیٹ فارم سے، اسرائیل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے؛ مگر اسرائیل ہے کہ اس کو اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا؛ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اقوام متحدہ میں’’ویٹو پاور‘‘سے مسلح ایک ایسا ملک بھی موجود ہے جو کبھی اسرائیل کے مفاد کے خلاف کچھ ہونے نہیں دے گا؛ جہاں تک مذمتی قرارداد کی بات ہے؛ تو اس سے اسرائیل کا کیا بنتا اور بگڑتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی حقوقِ انسانی کونسل کے حقائق شناسی مشن نے سن 2009میں اپنی چھان بین کے بعد، یہ رپورٹ پیش کی تھی کہ اس محاصرہ نے غزہ کو ایک ’’اجتماعی قید خانے‘‘میں تبدیل کردیا ہے جو ناروا اور خلاف قانون ہے۔ اسے فورا ختم کیا جانا چاہیے۔ واضح رہے کہ یہ مشن’’بین الاقوامی کریمنل کورٹ(International Criminal Court)کے سابق جج مسٹر رچارڈ اور اقوام متحدہ کے پانچ ماہرین حقوق انسانی کے گروپ کی نگرانی میں تحقیق کررہا تھا۔
ناجائز ریاست اسرائیل اپنے وجود کی بقا کے لیے جو ظلم کررہی ہے، اس کی سزا اسے ایک دن ضرور مل کر رہے گی۔ مگر اس وقت بڑا افسوس ہوتا ہے جب ایک مسلمان پڑوسی ملک بھی غیروں جیسی حرکت کرنے سے باز نہیں آتا۔ ابھی چند دنوں قبل ترکی کے مرد آہن، رجب طیب اردگان نے اسرائیل اور ترکی تعلقات کی استواری کے حوالے سے اسرائیل کے سامنے تین شرطیں پیش کی تھیں۔ ایک یہ کہ اسرائیل نے سن 2010 میں غزہ کے لیے راحت رسانی کا سامان لے کر جانے والے بحری بیڑے پر حملہ کرکے جو ترکی شہریوں کا قتل کیا تھا، باضابطہ طور پر ترکی سے اس کی معافی مانگے۔ دوسرے یہ کہ جن لوگوں کا قتل ہوا تھا، ان کے اہل خانہ کو معاوضہ دے اور تیسرے یہ کہ ’’غزہ کی پٹی‘‘کا محاصرہ ختم کرے۔ جوں ہی ترکی کی ان شرائط کا علم مصری انتظامیہ کو ہوا؛ تو اس نے پہلے دو شرائط کے حوالے سے تو خاموشی اختیار کی؛ مگر تیسری شرط پر آگ بگولہ ہو کر، اسرائیل سے اپنی اس فکرمندی کا اظہار کیا کہ اس طرح ترکی حماس کے تسلط والے خطے غزہ میں اپنا ایک کردار ادا کرنا چاہتا ہے، جو مصر کے مفاد کے خلاف ہے اور مصری انتظامیہ اس حوالے سے فکرمند ہے۔ مصر کی اس حرکت سے کسی بھی اہل ایمان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ ایک مسلمان پڑوسی ملک بھی اس طرح کی باتیں کرسکتا ہے!
جب ایک مصری ارض فلسطین پر قدم رکھتا ہے؛ تو فلسطین کے بھوک پیاس سے بلبلاتے اور بیماریوں میں مبتلا بچے بوڑھے سب یہ کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ مصریوں کو ہم بھائی سمجھتے ہیں۔ ہم مصر کے مفاد کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھاتے۔ پھر مصر ہمیں کس غلطی کی سزا دے رہا ہے؟ وہ بڑی عاجزی کے ساتھ مصری انتظامیہ سے درخواست کرتے ہیں کہ رفح گزرگاہ کی ناکہ بندی کوختم کرکے، ان کو چین و سکون سے جینے کا موقع فراہم کریں؛ لیکن مصری انتظامیہ سننے کو تیار نہیں۔ یہ وہی مصری انتظامیہ ہے جو پڑوسیوں کے حقوق کے حوالے سے اپنی مساجد کے اماموں اور خطیبوں کو خصوصی لکچرز دلواتی ہے کہ اسرائیل ہمارا پڑوسی ملک ہے اور اسلام نے پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کی تاکید کی ہے۔ مگر جب فلسطینوں اور خاص طور غزہ کے باشندگان کی بات آتی ہے، تو وہ پڑوسی کے حقوق سے لاعلم ہوجاتی ہے۔
’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘کی رپورٹ کے مطابق ابھی6/جنوری 2016 کوفلسطینی اتھارٹی کے سربراہ ابوالمازن محمود عباس نے بیت لحم شہر میں واقع صدارتی دفتر میں، ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مصر کی جانب سے غزہ بین الاقوامی گزرگاہ ’’رفح‘‘کی ناکہ بندی کو حق بجانب قرار دیا اور اس کی ذمہ داری حماس جیسی مخلص جماعت کے سر ڈال دیا۔ محمود عباس نے کہا کہ مصر کو رفح کی گزرگاہ بندکرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ عباس نے حماس پر الزام عاید کرتے ہوئے کہا کہ رفح گزرگاہ کی بندش کی ذمہ دار حماس ہے؛کیوں کہ حماس کی جانب سے رفح گزرگاہ کی مانیٹرنگ فلسطینی اتھارٹی کے حوالے نہیں کی گئی، جس پرمصر کے ساتھ بحران پیدا ہوا۔ ان کے اس بیان پر فلسطین میں عوامی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے سخت غم وغصے کا اظہار کیا گیا۔ حماس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ عباس کے الزام میں کوئی حقانیت نہیں ہے اوروہ فلسطین دشمنی پر مبنی بیانات جاری کررہے ہیں۔
(مرحوم) یاسر عرفات( 2004-1929)کی وفات کے بعد، جب محمود عباس فلسطین اتھارٹی کا صدر منتخب ہوا؛ تو کچھ لوگوں کی یہ رائے تھی کہ عباس ایک معتدل شخص ہے۔ اب فلسطین کا مسئلہ بہت جلد حل ہوجائے گا۔ شاید ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ عباس کو صہیونی میڈیا نئے اسرائیل کے مفاد میں’’معتدل‘‘ہونے کی سند تفویض کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس شخص کو فلسطین، قدس اور اقصی کے مسائل سے کوئی خاص دل چسپی نہیں ہے۔ یہ شخص خود کو ایک قد آور اور اعتدال پسند لیڈر ثابت کرنے کی دھن میں کسی حد تک جاسکتاہے۔ جن حضرات کواس میں کچھ شک ہو، انہیں چاہیے کہ ابولمازن محمود عباس کے حوالے سے عربی زبان و ادب کے مشہور ادیب، مجلّہ الدّاعی کے چیف ایڈیٹر مولانا نور عالم خلیل امینی اور مشہور مصری داعی و ادیب ڈاکٹر صلاح الدین سلطان وغیرہ کی تحریروں کا مطالعہ کریں۔ ان شاء اللہ ان کا شک دور ہوجائے گا۔
بہ ہرحال، غزہ پٹی کے باشندگان کے حوالے سے اسرائیلی انتظامیہ اور اسرائیل کے صہیونیت زدہ باشندے ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں کہ کوئی بھی’’انسانیت نواز‘‘شخص اور جس کے سینے میں ایک دھڑکتا دل ہو، خاموش نہیں رہ سکتا۔ غزہ کی پٹی کے محاصرے سے انسانی حقوق کی بہت بڑی پامالی ہورہی ہے؛ لہذا عالمی طاقتوں کوہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ غزہ کا محاصرہ ختم کرے اور وہاں رہنے والے انسانوں کو سکون سے جینے کا موقع فراہم کرے۔ جہاں تک مصری انتظامیہ کا تعلق ہے؛ تو اسلامی اخوت، عرب رواداری اور پڑوسی کے حقوق کا خیال کرتے ہوئے اسے غزہ بین الاقوامی گزرگاہ رفح کی ناکہ بندی ختم کرنی چاہیے اور اللہ کے نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو پیش نظر رکھ کر ہی کوئی فیصلہ لینا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے (مدد چھوڑ کر دشمنوں کے) حوالے کرے۔ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے، اللہ اس کی حاجت پوری کرتا ہے۔(صحیح مسلم ، حدیث:(2580)۔
(مضمون نگار مشہور کالم نگار اور مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ کے استاذ ہیں )
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in

Umm-e-Maabad ka Bayan



اُمِّ معبد کا بیاں تو پُر کشش تصویر ہے


تحریر: خورشید عالم داؤد قاسمی




آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ سبحانہ و تعالی نے ہر اعتبار سے کامل و مکمل انسان بنایا تھا۔ نہ آپ جیسا سے پہلے کوئی پیدا ہوا اور ناہی آئندہ پیدا ہوگا۔ آپ کا اخلاق اتنا اونچا کہ دس سال تک آپ کی خدمت کرنے والے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے کہ کبھی مجھے اف (ہوں) تک نہ کہا۔ آپ کے حسن اخلاق کی اس سے بڑھ کر اور کیا شہادت ہو سکتی ہےکہ خود ربّ کائنات نے گواہی دی کہ آپ عظیم اخلاق کے حامل ہیں۔ آپ اتنے شفیق و رحیم کے ذات باری تعالی نے فرمایا کہ میں نے آپ کو سارے جہان کےلیے رحمت بناکر بھیجا۔ آپ اتنےحلیم و بردبار کہ محلے کی خاتون بھی اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے آپ سے تعاون لینے میں جھجھک محسوس نہیں کرتیں۔ آپ اتنے نرم دل کہ جن مکہ والوں نے ہر طرح سے ستایا حتی کہ آپ کو قتل کرنے تک کی سازش رچی، جب مکہ فتح ہوا، تو آپ نےمعافی کاعام اعلان کرتے ہوئے فرمایاجو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے، وہ مامون۔ جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے، وہ مامون۔ جو مسجد میں داخل ہوجائے، وہ مامون۔آپ اتنے متواضع اور منکسر المزاج کہ خود سے بکری کا ددوھ دوہتے، جوتا ٹوٹ جاتا؛ تو اس کی اصلاح کرتے، جب کپڑے پھٹ جاتے؛ تو پیوند لگاتے، سودا سلف کے لیےبازار جاتے اور اپنے ہاتھ لانے میں کوئی شرم وعار محسوس نہیں کرتے۔ امیر و غریب ہر ایک سے مصافحہ کرتے۔ بغیر کسی تمیز کےچھوٹا بڑا جو بھی ملتا، آپ سلام میں پہل کرتے۔ آپ اتنے حسین و جمیل کہ کسی نے خوب کہا کہ : آں چہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری۔حاصل یہ کہ آپ کی زندگی کا ہر پہلو، تواضع و انکساری کا مظہر اور انسانوں کے لیے صد فی صد  نمونہ عمل۔

اس تحریر میں آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار، حسن و جمال، عادت و خصلت، اوصاف و کمالات اور شمائل و خصائل کا وہ نقشہ پیش کرنا مقصود ہے جوآپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کے الفاظ میں نقل ہوتے آیا ہے۔ ہم اس کا آغاز ام معبد رضی اللہ عنہا کے الفاظ سے کرتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے پس منظر پیش خدمت ہے۔

جب کفار و مشرکین پیغمبر انقلاب کے قتل کے درپے ہوگئے؛ توانھوں نے بحکم خداوندی مکہ مکرمہ سے یثرب، جو بعد میں مدینہ منورہ بنا اور ہمیشہ کے لیے بن گيا، کی طرف اپنے رفیق غار و مزار ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی معیت میں روانہ ہوئے۔ قافلۂ اہل حق کٹھن راستے کو طے کرتے ہوئے مدینہ کی سمت بڑھتا جارہا تھا۔ چلتے چلتے راستہ میں ایک علاقہ سے گزر ہوا جسے "قدید" کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ اس علاقہ میں ایک چھوٹی سی بستی  تھی، جس میں "قبیلہ خزاعہ" کے لوگ بود و باش اختیار کیے ہوئے تھے، وہاں ایک خیمہ تھا۔ وہ خیمہ مشلل کے اندر واقع تھا۔ اس کا فاصلہ مکہ مکرمہ سے ایک سوتیس کیلو میٹر ہے۔ اب نورہدایت صلی اللہ علیہ وسلم "قبیلہ خزاعہ" میں پہنچ گئے۔ بھوک و پیاس کی شدت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی تھی۔ ہادئ عالم صلی اللہ علیہ وسلم خزاعہ کی ایک خاتون کے خیمہ نما مکان کے پاس جاکر رکے؛ تاکہ اس سے کچھ کھجور اور گوشت خرید سکیں۔ یہ  خیمہ ایک خوش قسمت خاتون اُمّ معبد خزاعیہ کا تھا۔ اُمّ معبداس وقت اپنے خیمہ میں موجود تھیں۔

اُمّ معبد  خزاعیہ کون ہیں؟ آپ کا نام عاتکہ بنت خالد بن منقذ الخزاعی  اور کنیت ام معبد ہے۔یہ قبیلہ خزاعہ کی  ایک باوقار اور با عفت، نمایاں اور تواناں خاتون تھیں؛ قبیلہ خزاعہ کی طرف منسوب کرکے آپ  کوخزاعیہ کہاجاتا ہے۔ گاؤں دیہات کے خیمہ میں رہنے والی غیر مشہور، غیر خواندہ، مگر عقل مند و دانا خاتون تھیں۔  ان کی زبان بڑی ہی فصیح و بلیغ تھی۔بکری چرانے والے ابو معبد کی رفیقۂ حیات تھیں۔ گوشۂ اسلام میں داخل ہونے سے پہلے بھی راستے سے گزرنے والے لوگوں کا استقبال کرتی تھیں اور جو کچھ میسر ہوتا  کھلاتی  پلاتی تھیں اور ایساکرنے سے کیا مانع ہوتا؛ جب کہ وہ ایک عرب خاتون تھیں۔ وہی عرب جو اپنی سخاوت و فیاضی اور مہمان نوازی کے لیے پورے عالم میں مشہور۔ پھر ایک مدت کے بعد، اپنے سرتاج ابو معبد کے ساتھ ، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور دونوں نے اسلام قبول کیا۔ زمانہ جاہلیت کی غیر معروف خاتون، اسلام کو گلے سے لگا کر، مشہور و معروف صحابیہ ہوگئیں ۔رضی اللہ عنہا و عن زوجہ الکریم!

 جس وقت معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم اس خیمہ کے پاس پہنچے، اس وقت امّ معبد کا شوہر بکریاں چرانے گیا ہوا تھا اور آپ تنہا گھر میں تشریف فرما تھیں۔ امّ معبد  کے حالات سازگار نہیں تھے اور خستہ حالی عیاں تھی۔ صاحب کوثر صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا: "کیا تمھارے پاس کچھ (کھانے پینے کا )ہے؟" ام معبد کا جواب مایوس کن تھا؛ کیوں کہ گھر میں ایک بکری کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ بکری بھی ایسی کمزور اور لاغر تھی کہ ام معبد کا شوہر اسے ریوڑ میں نہ لے جانے میں ہی عافیت محسوس کی۔ اس خاتون نے جواب دیا: واللہ! ہمارے پاس کچھ ہوتا؛ تو آپ لوگوں کی میزبانی میں تنگی نہ ہوتی۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اس دبلی پتلی اور لاغر بکری پر پڑی۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا: "اے ام معبد! یہ بکری کیسی ہے؟" ام معبد جواب دیتی ہیں: اسے کمزوری نے ریوڑ سے پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا  اس میں کچھ دودھ ہے؟" مہمان نواز خاتون پھر بڑی سنجیدگی سے یوں جواب دیتی ہیں: وہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔ رسول انس و جنّ صلی اللہ عیلہ وسلم گویا ہوتے ہیں: "اجازت ہے کہ اسے دوہ لوں؟" اس خاتون کو کیا معلوم کہ امام الانبیاء والرسل صلی اللہ علیہ وسلم اس کے خیمے پر تشریف فرما ہیں۔  کوئی بھی معجزہ رونما ہوسکتا ہے۔ بڑی  سنجیدگی سے یوں جواب دیتی ہیں: میرے ماں باپ آپ پر قربان! اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ اس کے تھن میں دودھ ہے؛ تو آپ  ضرور دوہ لیں!

اب ایک معجزہ کا ظہور ہونے جارہا ہے۔ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بکری کو پاس بلایا اور اس کے تھن پر ہاتھ پھیرا ، اللہ کا نام لیا اور بارگاہ رب الغزت میں دعا کی۔ بکری نے پاؤں پھیلا دیا۔ تھن دودھ سے بھر گیا۔ پھر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا برتن منگوایا،  پھر اتنا دوہا کہ وہ برتن پورا لبریز ہوگیا۔ پھر اس خاتون کو  دودھ پلایا؛ تا آں کہ وہ آسودہ ہوگئیں۔ مینارۂ نور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وفا شعار ساتھیوں کو دودھ پیش فرمایا، وہ سب بھی آسودہ ہوگئے۔  شفقت و محبت کا پیکر صلی اللہ علیہ وسلم بھوک و پیاس کی شدت برداشت کرتا رہا، دوسروں کو سیراب کرتا رہا اور خود سب سے اخیر میں دودھ نوش فرمایا۔ پھر دوسری دفعہ اتنا  دودھ دوہا  کہ برتن پھر بھر گیا۔  اس دودھ سے بھرے برتن کو ام معبد کے پاس چھوڑ کر، وہاں سے کوچ کرگئے۔

بس تھوڑی ہی دیر بعد ام معبد کا شوہر (ابو معبد) اپنی کمزور بکریوں کو، جو دبلے پن کی وجہ سے مریل چال چل رہی تھیں، ہانکتے ہوئے قدم رنجہ ہوئے۔اب ( گھر میں بھرا کوزہ) دودھ دیکھا۔  (حیران و ششدر ہوکر )اپنی بیوی سے گویا ہوا: اے ام معبد! کہاں سے تجھے یہ دودھ ہاتھ لگ گیا؟ جب کہ  (دودھ دینے والی) بکریاں دور دراز تھیں۔ دودھ دینے والی بکری تو گھر میں نہیں تھی! امّ معبد جواب دیتی ہیں: بات تو درست ہے، مگر بخدا ہمارے یہاں سے ایک مبارک شخص کا گزر ہوا ہے، جس کی حالت ایسی ایسی تھی۔ اس نے ام معبد سے کہا: اے ام معبد! مجھے اس شخص کے اوصاف بتاؤ!پھر ام معبد گویا ہوتی ہیں۔ جو بھی الفاظ اس وقت ام معبد کے زبان سے ادا ہوتے ہیں، وہ تاریخ میں ریکارڈ ہوتے جارہے ہیں؛ تا آں کہ آج تک کتابوں میں موجود ہیں۔ ہم بھی پڑھتے ہیں، آپ بھی پڑھتے اور  جن کو توفیق خداوندی ملے گی، رہتی دنیا تک پڑھیں گے۔ ام معبد رضی اللہ عنہا نے سب سے حسین و جمیل، جسیم و قوی، اعلی اخلاق و عمدہ کردار  اورقابل تقلید اوصاف و کمالات کے حامل شخصیت کا نقشہ کیسے کھینچا ہے، ہم یہاں ترجمہ پر اکتفا کرتے ہیں:

"پاکیزہ رو، کشادہ چہرہ، پسندیدہ خو، نہ پیٹ باہرکو نکلاہوا،  نہ سر کے بال گرے ہوئے، زیبا، صاحب جمال، آنکھیں سیاہ و فراخ، بال لمبے اور گھنے، آواز میں بھاری پن، بلند گردن، روشن مر دمک، سرمگیں چشم، باریک و پیوستہ ابرو، سیاہ گھنگھریالے بال، خاموش وقار کے ساتھ، گویا دل بستگی لئے ہوئے، دور سے دیکھنے میں زیبندہ و دلفریب، قریب سے نہایت شیریں و کمال حسین، شیریں کلام، واضح الفاظ، کلام کمی و بیشی الفاظ سے مبّرا، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی، میانہ قد کہ کوتاہی نظر سے حقیر نظر نہیں آتے، نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی، زیبندہ نہال کی تازہ شاخ، زیبندہ منظر والا قد، رفیق ایسے کہ ہر وقت اس کے گرد و پیش رہتے ہیں، جب وہ کچھ کہتا ہے؛ تو چپ چاپ سنتے ہیں، جب حکم دیتا تو تعمیل کے لیے جھپٹتے ہیں، مخدوم، مطاع، نہ کوتاہ سخن نہ فضول گو۔" (رحمۃ للعالمین، قاضی سلیمان منصورپوری)

اُمِّ معبد کا بیاں تو پُر کشش تصویر ہے
ہر صفت ہے استعارہ ہے، پھیلتی تنویر ہے
(گوہر ملسیانی)
           
آپ کے اخلاق عالیہ، اوصاف کریمہ اور خصائل شریفہ کا ذکر ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ نے بڑےجامع اور بلیغ انداز میں کیا ہے۔  ہند بن ابی ہالہ امّ المومنین سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے فرزند ارجمند ہیں جو زوج سابق سے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کے الفاظ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت آخرت کی فکر میں اور امور آخرت کی سوچ میں لگے رہتے ۔اس کا ایک تسلسل قائم تھا کہ کسی وقت آپ کو چین نہ ہوتاتھا۔ اکثر طویل سکوت فرماتے، بلا ضرورت کلام نہ فرماتے تھے۔ گفتگو کا آغاز فرماتے؛ تو دہن مبارک سے اچھی طرح الفاظ ادا فرماتےاور اسی طرح اختتام فرماتے۔ آپ کی گفتگو اور بیان بہت صاف، واضح اور دو ٹوک ہوتا، نہ اس میں غیر ضروری طوالت ہوتی نہ زیادہ اختصار۔ آپ نرم مزاج اور نرم گفتارتھے۔درشت خو  اور بے مروّت نہ تھے۔ نہ کسی کی اہانت کرتے تھے  اور نہ اپنے لیے اہانت پسند کرتے تھے۔نعمت کی بڑی قدر کرتےاور اس کو بہت زیادہ جانتےخواہ کتنی ہی قلیل ہو (کہ آسانی سے نظر بھی نہ آئے) اور اس کی برائی نہ فرماتے۔ کھانے پینے کى چیزوں کی برائی کرتے نہ تعریف،دنیا اور دنیا سے متعلق جو بھی چیز ہوتی، اس پر آپ کو کبھی غصہ نہ آتا؛ لیکن جب اللہ کے کسی حق کو پامال کیا جاتا؛ تو اس وقت آپ کے جلال کے سامنے کوئی چیز  ٹھہر نہیں سکتی تھی؛ یہاں تک کہ آپ اس کا بدلہ لے لیتے۔ آپ کو اپنی ذات کے لیے نہ غصہ آتا، نہ اس کے لیے انتقام لیتے۔ جب اشارہ فرماتے تو پورے ہاتھ کے ساتھ اشارہ فرماتے۔ جب کسی امر پر تعجب فرماتے تو اس کو پلٹ دیتے۔ گفتگو کرتے وقت داہنے ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے ملاتے۔ غصہ اور ناگواری کی بات ہوتی؛ تو روئے انور اس طرف سے بالکل پھیر لیتےاور اعراض فرمالیتے۔خوش ہوتے تو نظریں جھکالیتے۔ آپ کا ہنسنا زیادہ تر تبسّم تھا، جس سے صرف آپ کے دندان مبارک جو بارش کے اولوں کی طرح پاک و شفاف تھے  ظاہرہوتے۔" (نبی رحمت، ص: 565-566)

رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم حسین و جمیل ؛ بل کہ احسن و اجمل اور  ہر طرح کے ظاہری و باطنی عیوب سے مبرّا تھے۔  آپ کے رفیق اور وقت کے عظیم شاعر حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کی زبان جب آپ کی شخصیت کو بیان کرنا شروع کرتی ہے؛ تو اس طرح کے اشعار نکلتے ہیں:

وأحسن منك لم تر قط عيني ــــ  وأجمل منك لم تلد النساء
خلقت مبرّءا من كل عيب ــــ  كأنك قد خلقت كما تشاء

ترجمہ: آپ سے زیادہ حسین میری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا اور آپ سے زیادہ خوب صورت کسی خاتون نے نہیں جنا۔ آپ ہر طرح کے عیب سے مبرا ہوکر پیدا کيے گئے، ایسا لگتا کہ آپ ویسے ہی پیدا ہوئے، جیسا کہ  آپ نے چاہا۔

اللہ تعالی ہم سب کو خاتم الانبیاء والمرسلین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین!

(مضمون نگار  دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا کے استاذ ہیں۔)

Ghair Islami Jamhoori Mulk aur Shatim-e-Rasool

غیر اسلامی جمہوری ملک اور شاتم رسول

از: خورشید عالم داؤد قاسمی

"اظہار رائے کی آزادی" (Freedom of Expression/Speech)  کی آڑ میں آج لوگ بے لگام ہوتے جارہے ہیں۔ خاص طور پر کچھ ذہنی طور پر بیمارعناصر نے "اظہار رائے کی آزادی" کا اتنا غلط مفہوم سمجھا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ وہ کچھ بھی،کسی وقت، کوئی جگہ ، کسی طرح اور کسی کے بھی خلاف بول سکتے ہیں۔ اگر اظہار رائے کی آزادی کا یہی مطلب ہے؛ تو پھر ایک شخص خود کو آزاد سمجھے گا اور دوسرے  کو  گالی گلوج سے نوازے گا،اس کی توہین و تذلیل کرےگا، دوسرےکے خلاف جھوٹ بولے گا اورجھوٹے الزامات لگائے گا۔ یہ کہانی صرف شخص واحد پر ختم نہیں ہوگی؛  بل کہ اس کی زد میں ایک معاشرہ اور سماج آسکتا ہے، ایک اسٹیٹ آسکتا ہے، پورا ملک آسکتا ہے،  ایک حکومت اور حکومت کا سربراہ آسکتا ہے، دنیا کی محترم شخصیات، مذہبی اسکالرس اور مذہبی پیشوا  آسکتے ہیں۔ اگر اظہار رائے کی آزادی کا مطلب یہی ہوگا؛ تو پورےملک، قبیلے اور معاشرے سے امن و امان کا خاتمہ ہوجائے اور دنیا جہنم میں تبدیل ہوجائے گی۔ اظہار رائے کی آزادی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے۔ ہاں، یہ ان ذہنی طور پر بیمار لوگوں کے لیے ہوسکتا ہے، جن کے یہاں آزادی اظہار  رائے غیر محدود، غیر مقید اور لا متناہی ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اظہار رائے کی آزادی محدود اور مقید  ہے۔ کچھ ذہنی طور پر بیمار عناصر کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ"اظہار رائے کی آزادی" کی ایک حد ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا مطلب یہ ہے: "زبان و قلم سے اپنی رائے  اور نظریہ کو پیش کرنے کا ایک سیاسی حق، ہر اس شخص کے لیے جو اسے استعمال کرنا چاہتاہے؛ تاکہ آسانی سے وہ اپنی بات پہونچا سکے۔" یہ ہے اظہار رائے کی آزادی کی حد۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ہو، چاہے وہ  رات و دن  ہی اظہار رائے کی آزادی کا نعرہ کیوں نہ لگاتا ہو، مگر وہ بھی اس کی ایک حد متعین کررکھا ہے۔
آج مصیبت یہ ہے کہ لوگ  اظہار رائے کی آزادی کا استعمال اپنے خیالات و آراء کے اظہار کے لیے تو بہت کم کرتے ہیں، مگر دوسرے کی تذلیل و توہین،  فتنہ و فساد کو ہوا دینے اور مامون و محفوظ معاشرے سے امن و امان کو ختم کرنے کی سازش اور اپنی ذہنی بیماری کو ظاہر کرنے کے لیےاس کا سہارا  زیادہ لیتے ہیں۔ مسلمانوں کے نبی و رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر بےجا الزامات عائد کرتےہیں۔ جس شخص نے پوری زندگی امن کا پیغام عام کیا، ان کو دہشت گردی کا معلم شمار کیا جاتا ہے۔ جو شخص اعلی اخلاق و کردار، ارفع شمائل و خصائل  اور عفت و پاکدامنی کا مجسمہ ہو، ان کے تعدد ازدواج پر طعن و تشنیع کیا جاتا ہے۔ جب اشاعت اسلام کی بات آتی ہے، تو دشمنوں کو صرف تلوار کی جھنکار ہی سنائی دیتی ہے، مگر ان کا آسمان چھوتا ہوا اخلاق نہیں دکھتا۔غیر مسلم مورخ نے جسے تاریخ کی عظیم ترین شخصیت قرار دیا ہو، لوگ ان کا کارٹون بناکر ان کی توہین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سب سے بھی بڑھ ایسی ایسی تہمتیں لگاتے ہیں کہ ایک مسلمان صحافی و ادیب اور مقرر و خطیب  کا قلم و زبان انھیں نقل نہیں کرسکتا۔ اس طرح کی گستاخی کرنے والوں کے خلاف جب ایک مسلمان زبان کھولتا ہے؛ تو اسے رجعیت پسند، دیش دشمن، دہشت گرد اور آزادئ اظہار رائے سے ناواقف جیسے بھدے سےالفاظ سے گالی دی جاتی ہے۔ ایسے گستاخانہ اعمال کےارتکاب کے باوجود،ان اسلام دشمن عناصر کے لیے"اظہار رائے کی آزادی" ایک ڈھال بن جاتی ہے، جس سے وہ خود کو تو محفوظ کرلیتے ہیں، مگر پورا معاشرہ اس کی لگائی آگ میں جھلستا رہتا ہے۔
ابھی چند دنوں قبل،  یکم دسمبر 2015 کو"ہندو مہاسبھا" کا لیڈر،گندہ دہن کملیش تیواری نے رحمۃ للعالمین، مینارۂ رشد و ہدایت ،نبی اکرم، شفیع اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سبّ و شتم سے توہین کی۔ اس نے ایسی گندی  زبان استعمال کیا اور بہتان تراشی کی کہ کسی بھی دھرم کے لوگ اس جیسی گندی زبان کسی معمولی شخص کے خلاف بولنا پسند نہیں کریں گے؛ جب کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم تو بہت ہی اونچی، اعلی اور ارفع  شخصیت کے مالک  ہیں۔  اس واقعہ کے بعد، ملک کے طول و عرض میں  لوگوں نے احتجاج شروع کیا؛ تاکہ حکومت اس بد بخت کے خلاف اکشن لے۔ مگر  ملک کے کچھ حصے  سے رپورٹ آرہی ہے کہ پولیس مظاہرین کو گرفتار کررہی ہے اور یہ الزام لگارہی ہے کہ وہ مظاہرین داعش کا نعرہ لگا رہے تھے۔ یہ بات تو عقل کے کسی خانے میں فٹ نہیں ہورہی ہے کہ لوگ ناموس رسالت کی خاطر مظاہرہ کریں اور اس میں داعش کا نعرہ لگائیں! یہ حقیقت پوری دنیا کے لوگ جانتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان امن پسند ہیں اور فساد بگاڑ سے کوسوں دور رہتے ہیں۔
کچھ پڑھے لکھے مسلمانوں کو بھی اعتراض ہورہا ہے کہ اس احتجاج کا کیا فائدہ ہے! بہتر یہ ہے ہم اپنے دشمن کے پاس اسلام کے داعی بن پہنچیں اور احتجاج سے اجتناب کریں! یہی بہتر طریقہ ہے۔ مگر ان لوگوں کی بات سے کلی طور پر اتفاق نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک دعوت کی بات ہے؛ تو  دعوت کا کام کوئی نیا کام نہیں ہے اور کسی مخصوص وقت اور مخصوص شخص کے لیے بھی نہیں ہے۔ دعوت کا کام شب و روز کا کام ہے اور دعوت کے لیے ہر اس شخص کے پاس جانا ہے، جو اب تک ایمان کی روشنی سے نابلد اور دولت ایمان سے ناواقف ہیں۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ دین کی دعوت اور نبی کا تعارف کرانا بہت اہم کام ہے اور یہ کام تحریکی طور پر کیا جانا چاہیے۔ جہاں تک احتجاج سے اجتناب کرنے بات ہے؛ تو ہم صرف ان کو اتنا کہنا چاہیں گے کہ آئین اور دستور کا مطالعہ کرنے والے بخوبی واقف ہیں کہ ایک غیر اسلامی جمہوری ملک ہندوستان میں رہنے والوں کےلیے ایسے مواقع سے احتجاج ان کا دستوری حق ہے اور آج کے دور میں دنیا کی بہت سی حکومتیں احتجاج کی زبان بہت جلد سمجھتی ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت اور ان کا ادب و احترام  ہم مسلمانوں کے ایمان کا جزء ہے۔ اگر اس میں کسی طرح کی کوئی کمی واقع ہوتی ہے؛ تو ہمیں اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں کہ اسلام میں شاتم رسول کا  حکم  اور اس کی سزا۔
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن (مکہ مکرمہ میں)تشریف فرما تھے اور آپ کے سر پر خَود (Helmet)تھی۔  جب آپ نے خَود (Helmet) ہٹایا؛ تو ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہا کہ ابن خطل (جو آپ کی توہین کرتا تھا اور برا بھلا کہتا تھا) غلاف کعبہ سےلپٹا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے قتل کردو!"۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1846-3044)
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ ایسے شخص سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شاتم ہو؟ اس پر انھوں نے فرمایا: "ایسے شخص کو قتل کردینا واجب اور ضروری ہےاور ایسے شخص سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیاجائے گا؛ کیوں کہ خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے ایک شخص کو قتل کردیا تھا اور توبہ کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔" (الصارم المسلول علی شاتم الرسول: 4)
ایک نابینہ صحابی (رضی اللہ عنہ) تھے۔ ان کی ایک باندی تھی۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتی تھی۔ انھوں نے روکنے کی کوشش کی، مگر وہ نہیں رکی۔ انھوں نے زجرو توبیخ کیا، مگر اس کا بھی کچھ اثر نہیں ہوا۔ایک رات وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے رہی تھی؛ لہذا اس نابینے صحابی نے کدال سے پیٹ پر حملہ کرکےاسے قتل کردیا۔ صبح میں مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا۔ وہ صحابی حاضر ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے اور پورا واقعہ بیان کیا۔ اس پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أَلَا اشْهَدُوا أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ۔" لوگوں گواہ رہو! اس کا خون لاحاصل اور بے بدلہ ہے (قاتل سے قصاص نہیں لیا جائے گا)۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر:4361)
خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالک رحمہ اللہ سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے۔ ہارون الرشید نے لکھاتھا کہ عراق کے علماء نے شاتم رسول کو کوڑے لگانے کی سزا تجویز کی ہے۔ آپ کا اس مسئلہ میں کیا فتویٰ ہے؟  امام مالک علیہ الرحمہ نے غضب ناک ہوکر فرمایا "وہ اُمت زندہ کیسے رہے گی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں سب و شتم (توہین رسالت) پر خاموش رہے!؟ جو کسی بھی نبی کو گالی دے اُسے قتل کیاجائے گا اور جو صحابہ کو گالی دے اسے کوڑے لگائے جائیں۔" (کتاب الشفاء 2/223)
امام احمدابن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جوشخص بھی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے یا آپ کی شان میں گستاخی کرے وہ مسلمان ہو یا کافر اُسے قتل کیاجائے گا۔  میرا خیال ہے کہ اسے قتل کیا جائے گا اور اس  سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔  (الصارم المسلول علی شاتم الرسول، 300)
شیخ امام زین الدین ابن نحیم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ہر وہ شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی بغض رکھے وہ مرتد ہوگا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والا بدرجہ اولیٰ مرتد ہوگا؛ لہٰذا ایسے شخص کو قتل کردیاجائے اور اس کی توبہ قبول نہ ہوگی جس کی وجہ سے قتل کو ساقط کیاجاسکے یہی اہل کوفہ (احناف) اور امام مالک کا مسلک ہے۔ (بحرالرائق  5/125-126)
امام خیر الدین رملی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں: جو سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نازیبا کلمات کہتاہے وہ مرتد ہے اور اس کا حکم مرتدین کا حکم ہے (یعنی قتل کیاجانا)۔ اس کی توبہ اصلاً قبول نہ ہوگی نیز اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے جو ایسے شخص کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافرہے۔ (فتاویٰ خیریہ ، 103)
امام ابوبکر احمدبن علی الرازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: لیث نے ایسے مسلمان کے بارے میں فرمایا جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتاہے بیشک اس(نام ونہاد مسلمان) سے نہ مناظرہ کیاجائے نہ اسے مہلت دی جائے اور نہ ہی اس سے توبہ کا مطالبہ کیاجائے اور اسے اسی مقام پر ہی قتل کیاجائے (یعنی فوراً قتل کردیاجائے) اور یہی حکم توہین رسالت کرنے والے یہودی و نصرانی کاہے۔(احکام القرآن)
قاضی ثناء اللہ پانی پتی  صاحب(رحمہ اللہ) رقم طراز ہیں: جو ملعون سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالیہ کی شان میں بکواس کرے یا اہانت کا مرتکب ہو یا دینی امور میں سے کسی امر کا یاحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک میں سے کسی عضو کا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف میں کسی وصف کا عیب نکالے ایساکرنے والاخواہ مسلمان تھا یا ذمی کافر یا حربی اگرچہ یہ سب کچھ اس نے مذاق میں کیا وہ واجب القتل ہے اور اس کی توبہ بھی قبول نہ ہوگی اس پر تمام اُمت کا اتفاق ہے۔ (مالابد منہ، 126)
محمد بن سخنون فرماتے ہیں: "علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے اور توہین کرنے والاکافر ہے اور اس کے لیے اللہ کے عذاب کی وعید جاری ہے۔امت (مسلمہ) کے نزدیک اس کا حکم قتل ہے۔ جو شخص اس کے کفر اور غذاب میں شک کرتا ہے، وہ کافر ہے۔" (الصارم المسلول علی شاتم الرسول: 4)
اگر کوئی شخص پیغمبرِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے،ان کو سبّ و شتم کرے؛ تو اس کی سزا کے حوالے سے  مندرجہ بالا حکم نقل کیا گیا ہے۔ اس بات سے سب واقف ہیں کہ ہندوستان جیسے غیر اسلامی جمہوری ملک میں، اس مذکورہ بالا اسلامی سزا کو نافذ نہیں کیا جاسکتا؛ بل کہ ایک اسلامی ملک میں بھی اس سزا کو فرد واحد ، جماعت یا تنظیم نافذ نہیں کرسکتی۔ اس سزا کا نفاذ حکومت وقت کرے گی۔ ہم جہاں  کے باشندہ ہیں وہ ایک غیر اسلامی جمہوری ملک  ہے۔ ہم اس ملک میں کیا کرسکتے ہیں وہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
ہم بحیثیت ہندوستانی شہری،  ہندوستانی آئین میں دیے گئے حق کا استعمال کریں۔ ایسے شخص کے خلاف اپنی نفرت کا کھلے عام اظہار کریں۔ ایسے شخص کے خلاف انفرادی اور اجتماعی طور پر ملک کے پولیس اسٹیشنوں پر"ایف آئي آر" درج کرائیں۔ آئین نے جو سزا مقرر کی ہے، اس کو دلوانے کی پوری جد و جہد کریں۔ آج کے دور میں دنیا کی حکومتیں احتجاج کی زبان بہت جلد سمجھتی ہیں۔ اگر حکومت اکشن نہیں لے رہی ہے؛ تو ہم پر امن احتجاج کرکے اور ریلیاں نکال کر حکومت پر دباؤ بنائیں؛ تاکہ حکومت اکشن لینے پر مجبور ہو اور قومی امن کو خطرہ میں ڈالنے والے  ایسےشخص کو عبرتناک سزا دے اور آئندہ کے لیے ایسے لوگوں کی زبان پر تالا لگ جائے۔


(مضمون نگار  دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا کے استاذ ہیں۔)

AlHudaClasses

Daily English Phrase

keep the ball rolling کام کو جاری رکھنا We realised we would need outside funding to keep the ball rolling. ہم نے محسوس کیا کہ کام کو جاری ر...