Search This Blog

Showing posts with label Obituary. Show all posts
Showing posts with label Obituary. Show all posts

حضرت مفتی سعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ

مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری نور اللہ مرقدہ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کا سحر آفریں خطاب

ہمارے اور آپ کے آقا ،تاج دار مدینہ،سرکار دو عالم،محبوب رب العالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے؛"بعثت معلما"کہ مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے،آپ کے ختم الرسل،خاتم الانبیاء اور اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ہونے کے ساتھ جو سب سے بڑی خوبی اور امتیازی شان آپ میں پائی جاتی تھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کے لئے معلم اور مثالی استاذ ہونا تھا۔یہ امتیازی صفت اور خصوصی شان آپ کے بعض امتی کو بھی عطا کی گئی ۔چنانچہ حضرت الاستاذ حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند نور اللہ مرقدہ و برد مضجعہ(1940....2020)
بھی ان خاصان خاص بندوں میں سے تھے جو واقعۃ ایک محبوب اور مثالی استاذ تھے۔
دارالعلوم کے تمام طلبہ کے دلوں میں ان کے تئیں قدرومنزلت،حب و اکرام کا جو جذبہ ہم نے دیکھا وہ کہیں اور نظر نہیں آیا، یہ سنہ1992ء کی بات ہے جب میں دیوبند میں دورہ حدیث میں زیر تعلیم تھا نظام تدریس اپنی پوری جلوہ سامانیوں کے ساتھ رواں دواں تھا کہ ہمارے ملک کی فضا کچھ سیاستدانوں کے سیاسی داؤ پیچ اور خود کو نفع اور دوسروں کو ضرر پہونچانے کے لیے نفرت کے زہر سے مسموم بنائی جانے لگی اور اس نفرت کا اثر  نفرت کے پجاریوں کے درمیان پروان چڑھتے چڑھتے نوبت اس حد تک جا پہونچی کہ6دسمبرسنہ1992  ہندوستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن بن گیا جس دن مسلمانوں کی  تاریخی عبادتگاہ بابری مسجد کو مسمار کردیا گیا
یہ حادثہ کیا رونما ہوا اور یہ خبر کیا کانوں سے ٹکرائی کہ ہر طرف بے چینی و اضطراب کا عالم بپا ہوگیا،جگہ جگہ ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے ۔دیوبند بھی ایک حساس علاقہ ہے مزید برآں دارالعلوم جیسا عظیم ادارہ موجود ہے جہاں بیشتر جواں سال ہزاروں غیور طلبہ زیر تعلیم رہتے ہیں وہ بھی فطرۃ اس واقعہ سے کافی متاثر ہوئے وہ غیرت دینی اور حمیت اسلامی کے جذبہ سے سرشار ہو کر مختلف گیٹ سے حکومت اور اس شرمناک حرکت کے خلاف احتجاجاً باہر نکل گئے۔ان احتجاج کرنے والوں پر اس وقت کسی فساد ی نے گولی چلا دی جس سے ہمارا ایک ساتھی شہید ہوگیا،ہم نے اس کی قسمت کو سلام کیا اور اس کے نصیب پر عش عش،کیوں کہ ہم سب بھی اسی جذبہ سے سرشار اور اسی جوش سے لبریز تھے۔
طلبہ اس خوش نصیب شہید کی نماز جنازہ پڑھنے کے لئے جوق در جوق احاطہ مولسری میں اکٹھا ہونے لگے تاکہ اس بابرکت جنازہ میں شریک ہوکر اپنے لئے سامان مغفرت کا انتظام کرسکیں پھر چند ذمہ دار حضرات جنازہ کو لے کر قبرستان قاسمی چلے گئے اور اب  تمام گیٹ بند کئے جاچکے تھے۔طلبہ گیٹ کی طرف بھاگے جارہے تھے سبھی بڑے بڑے اساتذہ کرام انھیں منتشر کررہے تھے،انھیں سمجھا رہے تھےاور ہر نامعقول ضرر رساں اقدام سے باز رکھنے اور رہنے کی کوشش کررہے تھے مگر یہ ہجوم بے قابو تھا۔
دارالعلوم کے درودیوار  تکبیر کے فلک شگاف نعروں سے گونج رہا تھا ہر ایک  جذبہ ایمانی اور جوش جانفشانی سے لبریز تھا اور اسے عین وقت کا تقاضا سمجھ رہا تھا؛ یہی وجہ تھی کہ وہ اساتذہ کے منع کرنے کے باوجود باز نہیں آرہا تھا جب کہ وہ انہیں اساتذہ کے ایک حکم بلکہ ایک اشارہ کے سامنے اپنی پلکیں بچھانے کو اپنی سعادت سمجھتا تھا اسی افراتفری اور اضطرابی کیفیت میں اعلان ہوتا ہے کہ سبھی طلبہ عزیز سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ دارالحدیث میں جمع ہو جائیں،مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری  خطاب فرئیں گے۔
اس پیغام کو سننے کے بعد سبھی طلبہ نے دارالحدیث کا رخ کیا خیال یہ تھا کہ آج مفتی صاحب ہمارے دلوں میں جہاد کی روح پھونکیں گے اور بذات خود ہمارے اس قافلہ کی قیادت کریں گے اور ہمارا یہ لشکر ،اسلام کے اس مایہ ناز سپوت کی سپہ سالاری میں باطل کی صفوں میں شگاف اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دےگا۔
مفتی صاحب نے آیت جہاد "ان اللہ اشتری من  الخ"کی تلاوت فرمائی،تو ہمارے خیال کو مزید تقویت حاصل ہوئی۔مگر جب مفتی صاحب نے اس کی تشریح و تفسیر فرمائی؛تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور دل و دماغ کے دریچے وا ہوگئے کہ جہاد کا اصل طریقہ،روح اور مقصد کیاہے؟مفتی صاحب نے فرمایا کہ دیکھو بچو!  آیت میں ارشاد باری ہے
' یقاتلون فی سبیل اللہ فیقتلون ویقتلون"یعنی ایمان والے لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں پھر وہ قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں
آیت میں اس بات کی طرف صاف اشارہ ہے کہ باطل سے مقابلہ میں جب زور آزمائی ہو تو ہماری تیاری اتنی ہونی چاہیۓ کہ ہم انہیں پہلے پچھاڑ سکیں اب اپنی حالت پر خود غور کرلو۔اس لئے احتجاج میں دارالعلوم سے باہر نکلنا اور کوئی حرکت انجام دینا خودکشی کے مترادف ہوگا۔
یہ تو مفتی صاحب کی بات کا خلاصہ تھا جسے انھوں نے ایک خاص انداز اور مسحور کن پیرائے میں بیان فرمایا جو طلبہ کے اس بپھرے ہجوم پر ایسا اثر انداز ہوا جس نے سینکڑوں طلبہ کی جان بچائی اور اہل خانہ کو اپنے لاڈلوں کی محرومی سے بھی محفوظ رکھا۔
وہ جذبہ جو درحقیقت جنون تھااور وہ خیال جو در اصل ناپختگی کا اثر تھا ایک کہنہ مشق حکیم کی بر وقت  تشخیص اور دوا سے فی الفور کافور ہو گیا۔طلبہ نے ہوش کے ناخن لئے،سنجیدگی  کا دامن تھاما،اور ایک ناقابل تلافی نقصان سے خود کو اور دارالعلوم کو بچالیا۔
حضرت الاستاذ حضرت مفتی صاحب کی زندگی کا ایک دوسرا پہلو جو میرے لئے بہت نمایاں تھا وہ آپ کا سلام میں پہل سے متعلق ہے ،مجھے کسی نے بتایا کہ مفتی صاحب سلام میں بہت سبقت کرتے ہیں یہاں تک کہ ہم کوشش کے باوجود  سلام کی ابتدا نہیں کرپاتے،یہ بات مجھے بہت عجیب وغریب معلوم ہوئی اور بے حد اچنبھا بھی ہوا کیوں کہ میں اسے طالب علم(ناقل) کی کوتاہی سمجھ رہا تھا کہ یہ خود سلام میں تاخیر کرتا ہوگا تا آنکہ استاذ محترم خود تعلیما سلام کردیتے ہوں گے لہٰذا راقم الحروف نے خود تجربہ کی ٹھانی،تو بات بالکل سچ ثابت ہوئی میں نے کئی بار معراج گیٹ سے گزرتے ہوئے مفتی صاحب سے سلام کرنے میں سبقت کی کوشش کی مگریہ سعادت کبھی مجھے حاصل نہیں ہوئی کیوں کہ میں رفیق تھا اور وہ سعید تھے اسم با مسمی تھے۔
بہرحال مفتی صاحب کے حیات کے یہ چند گوشے تھے جسے آپ حضرات کے ساتھ شیئر  کررہاہوں یوں تو آپ کی حیات کا ایک ایک لمحہ قابل رشک اور نمونہ اسلاف ہے،جن کا احاطہ آپ کی سوانح حیات میں قلم بند ہوکر منظر عام پر آئے گا اور انشاء اللہ باصرہ نواز ہوگا۔

رفیق احمد اعظمی قاسمی
قاضی پورہ گھوسی مئو

شیخ عبد الحق صاحب اعظمی رح

موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
محدّث جلیل حضرت الاستاذ شیخ عبد الحق صاحب اعظمی –نور اللہ مرقدہ– (1928-2016)

از: خورشید عالم داؤد قاسمی٭

30/دسمبر کو جہاں سن 2016 اپنا آخری سانس لے رہا تھا اور وہ صرف ایک دن کا مہمان تھا کہ مغرب وعشاء کے درمیان، محمد رسول اللہ- صلی اللہ علیہ وسلم- کی احادیث شریفہ کا عظیم خادم، علوم نبویّہ کا حقیقی وارث اور ایشیاء کی ممتاز دینی درس گاہ، امّ المدارس: دارالعلوم، دیوبند کا محدّث جلیل، حضرت الاستاذ شیخ عبد الحق صاحب اعظمی –نور اللہ مرقدہ–  ایک تھکے ماندے مسافر کی طرح خاموشی سے دائمی نیند سو گئے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون۔ موت ایک ایسی حقیقت جسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں؛ لہذا سب لوگوں کی طرح بندہ نے بھی حضرت الاستاذ کی موت کو"مرضی مولی از ہمہ اولی" کہتے ہوئے قبول کیا۔ یہ خبر منٹوں میں،دنیا کے گوشے گوشے میں، جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہر شخص نے بڑے افسوس کے ساتھ اس خبر کو پڑھا اور سنا اور بھاری دل کے ساتھ دوسروں کے ساتھ شیئر کیا۔

موت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ موت ایک ایسی حقیقت ہےکہ جس سے کسی کو بھی مفر نہیں۔ جب پیارے نبی محمد- صلی اللہ علیہ وسلم- کو موت آکر رہی؛ تو پھر دوسرے کی کیا بات! موت تو پاک پوتر مالک کے دیدار کا ایک ذریعہ ہے؛ اگر آدمی کا انتقال نہ ہو؛ تو اپنے رحیم وکریم رب کا دیدار کیسے کرے گا! یہی تو وجہ تھی کہ نبی اکرم -صلی اللہ علیہ وسلم- نے اپنے لیے موت کو پسند فرماکر، اپنے منبر سے اپنی موت کا یوں اشارہ دیا: "إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ، وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ". فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ: فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا. (بخاری شریف، حدیث: 3904) ترجمہ: اللہ تعالی نے ایک بندے  کو اس کے درمیان اختیار دیا ہے کہ اللہ تعالی ان کو دنیا کی رونق دیں، جتنی وہ چاہے اوران (نعمتوں )کے درمیان جو اللہ تعالی کے پاس ہے؛ لہذا اس بندے نے ان (نعمتوں) کو اختیار کیا جو اللہ تعالی کے پاس۔ ابوبکر -رضی اللہ عنہ – (سمجھ گئے کہ نبی -صلی اللہ علیہ وسلم -نے اپنے لیے موت کو پسند کیا؛ لہذا ) رونے لگے اور فرمایا: آپ پر ہم اپنے ماں باپ قربان کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو ایمان کی حالت میں اس دنیا سے اٹھائے! آمین!

موت نے کسی کو نہیں چھوڑا۔ چاہے انسان ہویا حیوان یا پھر چرند وپرند ہو، سب جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ یہ نظام اس سنسار کے پیدا کرنے والے کا ہی بنایا ہوا ہے۔ سچے مالک نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: "كُلّ نَفْس ذَائِقَة الْمَوْت" (سورہ آل عمران، آیت: 185) ترجمہ: (تم میں) ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ چناں چہ سب کے سب انبیاء ورسل، صحابہ وتابعن اوراولیاء وصلحا کو اس جہان سے کوچ کرنا پڑا۔ ہم سب کو بھی ایک دن جانا ہوگا۔ حضرت شیخ صاحب –نور اللہ مرقدہ – بھی اپنے مقررہ وقت پر، پاک پروردگار کے حکم کا اتباع کرتے ہوئے اس جہاں سے کوچ کرگئے۔ اللہ تعالی حضرت الاستاذ کو جنّت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے! آمین!
آئے عشّاق، گئے وعدہء فردا لے کر ٭ اب انھیں ڈھونڈ چراغ ِرخِ زیبا لے کر

حضرت شیخ صاحب –نور اللہ مرقدہ– کی ولادت بہ روز: پیر، 6/رجب المرجب، سن 1345 ھ (سن 1928ء) کو ،اترپردیش کے معروف ضلع: "اعظم گڑھ" کے ایک گاؤں: "جگدیش پور" میں ہوئی۔ آپ چھ سال کے تھے کہ آپ کے والدماجدجناب عمر صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ آپ کی کفالت وتربیت مشہور عالم دین، شیخ محمد مسلم صاحب جونپوری –قدس سرہ– نے کی۔ پھر ایک گاؤں میں پرورش پانے والے یتیم کو، اللہ تعالی نےایک نیّر تاباں بنایا۔ پھر آپ سے کیا ایشیا، کیا افریقہ، کیا یورپ اور کیا امریکہ، ہر جگہ کے لوگوں نے کسب فیض ۔ اللہ تعالی آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور اس کا اپنے شایان شان بدلہ عطا فرمائے! آمین!

حضرت شیخ صاحب –قدس سرہ– نے ابتدائی تعلیم، حضرت مولانا عبد الغنی صاحب پھولپوری (1876-1963) –رحمہ اللہ–، خلیفہ حضرت تھانوی (1863-1943) کے قائم کردہ ادارہ: "مدرسہ بیت العلوم"، سرائے میر، اعظم گڑھ میں حاصل کی۔ بیت العلوم میں آپ نے صرف ونحو، عربی اور فقہہ اسلامی کی کچھ کتابیں پڑھی۔ بیت العلوم میں آپ نے درس نظامی کی مشہور کتاب: "شرح وقایہ" تک کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے  بعد، آپ نےدارالعلوم، مئو ناتھ بھنجن میں داخلہ لیا اور "مشکاۃ المصابیح" تک کی تعلیم مکمل کی۔ پھر آپ نے دارالعلوم ،دیوبند کا رخ، جس کے جوار میں، آپ کی آخری آرام گاہ منجاب اللہ مقدر تھی۔

شیخ نے ایشیاء کی عظیم دینی واسلامی یونیورسیٹی دارالعلوم، دیوبندمیں تکمیل فضیلت کے لیے داخلہ لیا۔ آپ نے دارالعلوم میں شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی (1879-1957)، علامہ محمد ابراہیم بلیاوی (متوفی: 1967)، شیخ الادب شیخ محمد اعزاز علی امروہوی (1300-1373ھ)، شیخ فخرالحسن مرادآبادی اور مولانا ظہور احمد دیوبندی –نور اللہ مراقدہم– وغیرہم سے اکتساب فیض کیا۔ حضرت شیخ ثانی صاحب نے بخاری شریف مکمل اور ترمذی ،جلد: اوّل، شیخ الاسلام حضرت مدنی -قدس سرہ - سے پڑھی۔ آپ نے 1368ھ/1949ء میں رسمی تعلیم سے فراغت حاصل کی۔ حضرت شیخ ثانی کو اجازت حدیث، ان کے مذکورہ بالاشیوخ عظام کے ساتھ ساتھ، حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی (1897-1983)، سابق رئیس: دارالعلوم، دیوبند، محدث کبیرحضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی(1900-1992)، حضرت مولانا عبد الغنی پھولپوری (1876-1963) اور برکت العصر حضرت شیخ الحدیث محمد زکریا صاحب (1898-1982) –رحمہم اللہ– سے بھی حاصل  تھی۔ آپ حضرت شیخ الحدیث کی مبارک سند سے احادیث مسلسلہ کی اجازت دیتے تھے۔ الحمد للہ، آپ نے ان عظیم المرتبت اساتذہ وشیوخ سے قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کی، جن میں سےہر ایک آفتاب وماہتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
نہ تخت وتاج میں نے لشکر وسپاہ میں ہے ٭  جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے

حضرت الاستاذ نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز "مدرسہ مطلع العلوم"، بنارس، یوپی سے کیا۔ اس ادارہ میں آپ نے تقریبا 16/سال تک تدریسی خدمات انجام دی۔ پھر "مدرسہ حسینیہ"، کولڈیہا،گریڈیہہ، جھارکھنڈ (بہار) میں تقریبا 9/مہینے تدریسی خدمات انجام دی۔  حضرت اس مدرسہ کا ذکر کرتے ہوئے کبھی کبھی فرماتے تھے کہ بقدر مدت حمل بہار میں رہ چکا ہوں۔ بہار کے لوگ بہت ہی ادب واحترام سے پیش آتے تھے۔ اس کے بعد، "دارالعلوم"، مئوناتھ بھنجن میں بھی حدیث کی کتابیں آپ کے زیر درس رہی۔ جہاں بھی آپ نے تدریسی خدمات انجام دی، عام طور پر حدیث کی کتابیں آپ سےمتعلق رہیں۔

سن 1982عیسوی میں،  آپ کو امّ المدارس دارالعلوم، دیوبند میں علیاء کے استاذ کی حیثیت سے منتخب کیا گيا ۔ آپ نے اس وقت سے اپنی زندگی کے اخیر لمحہ تک اس عظیم ادارے میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ صحیح بخاری، جلد: ثانی اور مشکاۃ شریف کے اسباق آپ سے متعلق تھے۔ آپ بخاری جلد ثانی پڑھانے کی ہی وجہ سے، طلبہ واساتذہ دارالعلوم، دیوبند کے درمیان "شیخ ثانی" سے معروف تھے۔ آپ نے تقریبا34 سال تک دارالعلوم میں، بخاری جیسی حدیث کی عظیم کتاب کا درس دیا۔ اس طرح کل ملا کر ، آپ تقریبا 60/سالوں تک قرآن وحدیث کی خدمت میں مصروف رہے۔  اس دوران ہزاروں طلبہ نے آپ سے پڑھا اور استفادہ کیا۔ آپ کے شاگردوں میں ہزاروں علماء اور فقہاء ومحدثین شامل ہیں؛ جن کو بجا طور پر آپ کا شاگرد ہونے پر فخر ہے۔

آپ کا بخاری شریف کا درس بعد نمازِعشاء  ہوتا تھا۔ ترجمان کے ساتھ کچھ طلبہ آپ کو "مسجد چھتہ" سے لانے جاتے تھے۔  چھتہ مسجدکی ہی چھت پر بنے گھر میں، آپ رہتے تھے۔ طلبہ آپ کے اردگرد ہوتے اور آپ ایک ہاتھ میں عصا لیے،دارالحدیث تک بڑے ہی سکون واطمینان سے آتے۔  جو طلبہ آپ کے آتے وقت، آپ کے پیچھےچلتے تھے، ان کو کبھی کبھی منع کرتے کہ آپ میرے پیچھے اس طرح نہ چلیں، یہ سنت نبوی کے خلاف ہے۔ سنا ہے کہ ان دنوں، کمزوری اور ضعف کے سبب حضرت وِیل چیر (Wheelchair)  سے اسباق پڑھانے آتے تھے۔ آپ اسباق کے بڑے پابند تھے۔ دیوبند کا موسم سرما ہویا موسم گرما، آپ کو درس گاہ آنا تھا اور سبق پڑھانا تھا۔ یہ ناممکن تھا کہ آپ دیوبند میں ہوں اور سبق نہ پڑھائیں۔ آپ کا بخاری شریف کا سبق عام طور پر تقریبا دو ڈھائی گھنٹے کا ہوتا تھا۔ مگر تعب وتھکان کا احساس تک نہ ہونے دیتے۔
ہاں دکھا دے، اے تصوّر! پھر وہ صبحُ وشام تو ٭ دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تو

بندہ راقم الحروف کو شیخ ثانی صاحب کی سب سے پہلی زیارت سن 1997 یا 1998 میں اس وقت ہوئی، جب نیپال کی مرکزی درس گاہ:فیض الاسلام، پَرسا،  نیپال کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے تشریف لے جارہے تھے اور راستہ  سے گزرتے ہوئے، آپ نے مدرسہ اشرف العلوم، کنہواں، سیتامڑھی کے سابق ناظم: قاری محمد طیّب صاحب –رحمہ اللہ– کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے تشریف لے گئے۔ اس وقت  راقم الحروف اشرف العلوم میں عربی دوم یا عربی سوم کا طالب علم تھا۔ "پرسا" نیپال میں واقع ہے اور کنہواں ہندوستان میں واقع ہے۔ مگر ان دونوں جگہوں کے درمیان صرف چند کلو میٹرس کا ہی فاصلہ ہے؛ لہذا حضرت شیخ صاحب کی زیارت اور ان کی تقریر سننے کے لیے اشرف العلوم  کے طلبہ "پرسا"جارہے تھے؛ چناں چہ میں بھی سب کے ساتھ گیا اور شیخ صاحب کی تقریر سے پہلے، ہم سب نے جاکر حضرت سے سلام ومصافحہ کیا۔

جب سن 2000عیسوی میں دارالعلوم، دیوبند میں داخلہ لیا؛ تو پھر اس کے بعد تو حضرت کی زیارت ہوتی ہی رہتی تھی۔ جب بندہ ششم سےترقی کرکے عربی ہفتم میں قدم رکھا؛ تو حضرت سے مشکاۃ شریف پڑھنے کا موقع نصیب ہوا۔ پھر"دورہ حدیث شریف" کے سال، سن 2003 میں،  بخاری شریف ، جلد: ثانی، حضرت شیخ صاحب –قدس سرہ–  سے  پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل ٭ نسیمِ صبح تیری مہربانی

حضرت شیخ تک رسائی حاصل کرنے اور آپ سے ملنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی۔ کوئی بھی شخص کبھی بھی جاکر مل سکتا تھا اور اپنی بات پیش کرسکتا تھا۔ آپ کسی بھی آنے والے کو مایوس نہیں کرتے تھے۔ جب بھی کوئی شخص آپ کے پاس دعوتی واصلاحی پرگرام میں شرکت  کی دعوت لے کر آتا، چاہے وہ پروگرام دیہات میں ہورہا ہو یا شہرمیں،  اندرون ملک کا پروگرام ہویا بیرون ملک کا،  آپ اس کی دعوت قبول کرتے۔ اسی طرح اگر کسی دینی ادارے میں کوئی تقریب ہو، اجلاس ہو، آپ کو دعوت ملتی؛ تو اسے قبول فرماتے اور اپنی شرکت سے نوازتے۔  عام طور پر دوسرے مدارس وجامعات کے ذمے داران حضرات آپ کو افتتاح بخاری شریف اور ختم بخاری شریف کے لیے مدعو کرتے تھے۔ اس طرح آپ نے ہندوستان کے سیکڑوں شہروں اور دیہاتوں اور کئی بیرونی ممالک کا اصلاحی ودعوتی دورہ کیا۔ اللہ تعالی نے آپ کی زبان میں بڑا اثردے رکھا تھا۔ آپ نہایت ہی متواضع ومنکسرالمزاج تھے۔  آپ مستجاب الدعوات تھے۔ اللہ تعالی اس امت کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے! آمین!
وہ فاقہ مست ہوں جس راہ سے گزرتا ہوں  ٭  سلام کرتا ہے آشوب  روزگار  مجھے

حضرت شیخ صاحب نے یکے بعد دیگرے تین نکاح کیا۔ پہلی اہلیہ سے ایک لڑکا، جناب عبد الحکیم صاحب اور دو لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ پہلی اہلیہ کی وفات کے بعد،آپ نےدوسری شادی کی۔ دوسری بیوی سےایک بیٹا، جو بچپن میں ہی انتقال کرگیا اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ دوسری بیوی کی وفات کے بعد، تیسرا نکاح کیا۔ تیسری زوجہ سے پانچ لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی جو سب کے سب حیات سے ہیں۔ اللہ تعالی ان سب کو خوش وخرم رکھے اور ان کو حضرت شیخ صاحب  -قدس سرہ- کے لیے صدقہ جاریہ بنائے! آمین!

حضرت شیخ صاحب –نور اللہ مرقدہ– عمرکی 88 بہاریں دیکھ چکے تھے۔ آپ پیرانہ سالی کی وجہ سےکمزور ہوگئے تھے۔ بہ روز: جمعہ 30/دسمبر 2016 کو شام میں،  آپ کو متلی آئی پھر ناسازی طبیعت کے شکایت کی۔ آپ کو دیوبند کے ہی ایک ہسپتال  میں لے جایا گيا۔ ڈاکٹر نے جانچا اور ایکسرا وغیرہ کے بعد، اطمینان کا اظہار کیا۔ مگر جن کا وقت مقررہ آچکا ہو، اس کو طبیب وحکیم کیا کرسکتا ہے۔ آپ ہسپتال میں ہی مغرب وعشاء کے درمیان آخری سانس لی اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے ٭ خواب کے پردے میں بیداری کا ایک پیغام ہے

حضرت شیخ کی نماز جنازہ،31/دسمبر 2016 کو، شام ساڑھے تین بجے دارالعلوم کے احاطہ  دارِجدیدمیں، استاذ محترم حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب –دامت برکاتہم–  استاذ حدیث وسابق ناظم تعلیمات دارالعلوم، دیوبند کی امامت میں ادا کی گئی۔ عوام وخواص کی ایک بڑی تعدادنے آپ کے جنازہ میں شرکت کی۔ پھر ہزاروں طلبہ اور علماءنے اپنے کندھوں پر اٹھا کر ، "قبرستان قاسمی" میں ، اللہ تعالی کی امانت، اللہ کے سپرد کردی۔اللہ تعالی آپ کی قبر کو نور سے بھردے! آمین!
آسماں تیری لحد پرشبنم افشانی کرے ٭ سبزہء نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

٭ ہیڈ: اسلامک اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

لانا پڑا تمھیں کو تمھاری مثال میں



باسمہ تعالی
لانا پڑا تمھیں کو تمھاری مثال میں

(امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحب رحمہ اللہ 1927-2015)

تحریر: خورشید عالم داؤد قاسمی

Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in

یہ کیسی حقیقت ہے کہ کل تک جو شخص ہمارے سامنےہوتا تھا، ہمیں بہت ہی عزیز و محترم تھا، ہم ان کے ساتھ رہتے سہتے اور زندگی گزارتے تھے، ہم ان کے کردار و گفتار سے استفادہ کرتے تھے، وہ ہمارے خوشی و غمی میں شریک ہوتا ہے اور ہم اس کے خوشی و غمی میں ساتھ ہوتے تھے، آج وہ شخص اپنے مالک حقیقی سے جا ملتا ہے اور پھر ہم اسے اپنے کندھے پر اٹھا کر، قبر کی گود میں اتاڑکر مٹی و پتھر سے اسے بند کردیتے ہیں۔ یہ ہے انسانی زندگی کی حقیقت۔ اللہ تعالی نے ہمیں اس دنیا میں امتحان کے لیے بھیجا ہے۔ ہمیں اپنے مال و متاع اور اسباب دنیوی پر بھروسہ کرکے اللہ تعالی سے غافل نہیں ہونا چاہیے؛ بل کہ ہمیشہ اللہ تعالی کو یاد رکھنا چاہیے۔ اس دنیا میں رہ کر جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہے، اللہ سے ڈرتا ہے، اچھے اعمال کرتا ہے، اللہ کی مخلوق کے لیے رشد و ہدایت کا ذریعہ بنتا ہے اور ان کے لیے نافع ثابت ہوتا؛ تو ایسا شخص موت سے نہیں ڈرتا؛ بل کہ ایسے شخص  کے لیے موت ایک عظیم تحفہ ہے اور اپنے پاک پروردگار سے ملنے کاذریعہ ہے۔

بہار، اڑیسہ اور جھارکھنڈ کے مسلمانوں کے چھٹے امیر شریعت (امیر شریعت سادس)، ہندوستانی مسلمانوں کا متحدہ پلیٹ فارم "آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ" کے جنرل سکریٹری اور ایشیاء کی عظیم دینی درسگاہیں: دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے ممبر اور دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ کی مجلس نظامت کے رکن: حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) اس دنیا سے ہمیشہ ہمیش کے لیے کوچ کرگئے۔ انا للہ و انّا الیہ راجعون۔

امیر شریعت  سادس عصر حاضر میں ہندوستانی مسلمانوں کے چند گنے چنے رہنماؤں اور چند معروف و مشہور علماء دین میں سے تھے۔ آپ حضرت شيخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے تلامذہ میں سے تھے۔ آپ کا روحانی تعلق بھی شیخ الاسلام سے ہی تھا۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کرنے کے بعد، اس وقت کی مشہور دینی درس گاہ "مدرسہ امدادیہ، دربھنگہ" میں داخلہ لیا اور متوسطات کی کتابیں پڑھی۔ پھر اعلی تعلیم کے لیے، سن 1942 میں ایشیاء کی عظیم دینی و اسلامی درس گاہ اور تحریک آزادی ہند کا مرکز: دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا۔ آپ دارالعلوم، دیوبند میں داخلہ لے کر، وقت کے ماہرین علوم و فنون سے اپنی علمی پیاس بجھائی۔ پھر سن 1946 میں دارالعلوم ،دیوبند سےآپ نے دورۂ حدیث شریف کی تکمیل کی۔ بعد ازاں، مزید ایک سال دارالعلوم، دیوبند میں رہ کر "تخصص فی الادب" کیا۔ اس طرح سن 1947 میں آپ نے دارالعلوم، دیوبند سے  تعلیم کی تکمیل کے بعد، تدریسی لائن سے منسلک ہوگئے۔

رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد، آپ "مدرسہ ریاض العلوم، ساٹھی" میں بحییثیت صدر مدرس 1948 سے 1962 تک انتظامی اور تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر آپ نے مدرسہ رشید العلوم، چترا، جھارکھنڈ (سابق بہار) میں تدریسی خدمات شروع کی۔ اس ادارہ میں 1963-1964 تک آپ صدر المدرسین کی حیثیت سے رہے۔

جب آپ "مدرسہ ریاض العلوم، ساٹھی"میں بحیثیت صدر المدرسین  تدریسی و انتظامی ذمے داری نبھا رہے تھے، تب سے ہی امیر شریعت رابع مولانا سید منت اللہ رحمانی (رحمہ اللہ) سے آپ کا تعارف تھا۔ جب مولانا رحمانی امیر شریعت رابع منتخب ہوئے؛ تو ان کی دور رس نگاہ نے قابل اور باصلاحیت علماء کا ایک ایسا گروپ امارت شرعیہ میں جمع کیا، جو آپ کی وفات کے بعد، اسلاف و اکابر کے مشن کو پوری تندہی اور جدو جہد کے ساتھ آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دارالعلوم کے وہ چند فضلاء جن کو "رجال ساز یا افراد ساز" کے طور پر زمانہ یاد کرے گا، ان میں ایک شخصیت مولانا سید منت اللہ رحمانی (رحمہ اللہ) کی بھی تھی۔ جن لوگوں نے بھی مولانا رحمانی کی زیر نگرانی کام کیا اور کسی طرح کی ذمے داری سنبھالی، وہ سے کے سب چندے آفتاب اور چندے ماہتاب بن کر پوری دنیا میں چمکے۔ ان ہی چند لوگوں میں امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحب (رحمہ اللہ) بھی تھے۔

نشان منزل جاناں ملے ملے نہ ملے  ٭  مزے کی چیز ہے یہ ذوق جستجو میرا

امیر شریعت رابع مولانا سید منت اللہ رحمانی "امارت شرعیہ" کے امیر منتخب ہونے کے بعد، جہاں امارت میں"قضاء" کا عہدہ جامعہ رحمانی کے موقر استاذ فقہ و حدیث: قاضی مجاہد الاسلام قاسمی (رحمہ اللہ) کو تفویض کیا، وہیں سن 1965  میں، حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب کو، قاضی صاحب کے اصرار پر، ایک مضافاتی مدرسہ سے امارت  شرعیہ لاکر ،امارت کی نظامت کا عہدہ پیش کیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ امارت کے پاس اپنا دفتر تک نہیں تھا، "خانقاہ مجیبیہ" میں اس کی آفس تھی۔ مگر اللہ کے ان مخلص بندوں نے مولانا رحمانی کی زیر نگرانی، دن رات ایک کرکے محنت کی اور امارت کے مشن کو بہار و اڑیسہ کے چھوٹے چھوٹے گاؤں تک پہنچایا۔ جوں جوں امارت کا کام بڑھتا گیا، اللہ نے امارت کے لیے راہ ہموار کی اور پھر "پھلواری شریف، پٹنہ" میں امارت کی اپنی آفس وغیرہ کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔

19/مارچ 1991 کو امیر شریعت رابع مولانا سید منت اللہ رحمانی کی وفات کے بعد، مولانا عبد الرحمن صاحب رحمہ اللہ کو "امیر شریعت خامس" اور مولانا سید نظام الدین صاحب کو نائب امیر منتخب کیا گیا۔ 2/ستمبر 1998 کو امیر شریعت خامس اپنے رب سے جاملے۔ پھر یکم نومبر 1998 کو اراکین شوری امارت شرعیہ نے آپ کو "امیر سادس" اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کو نائب امیر منتخب کیا۔ امارت شرعیہ کے حوالے سے چاہے آپ کی نظامت کا طویل دور ہوا یا پھر "امارت" کا لمبا زمانہ، آپ نے اپنی ذمے داری بحسن و خوبی نبھاتے ہوئے ادارہ کی ترقی اور اس کے مشن کے پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔


نگاہ برق نہیں، چہرہ آفتاب نہیں  ٭  وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
جب حضرت مولانا نظام الدین صاحب "امارت" سے منسلک ہوگئے؛ تو پورے طور پر امیر شریعت رابع کے ہوکر رہ گئے۔ اب چاہے پورے ہندوستانی مسلمانوں کی الجھی گتھی سلجھانی ہو یا امارت کے مشن کو گاؤں گاؤں پہنچانا، ہر جگہ اخلاص و للہیت کے ساتھ اپنی ذمے داری نبھاتے رہے۔ جب امیر شریعت رابع نے دسمبر 1972 میں تحریک"مسلم پرسنل لاء" کا آغاز کیا؛ تو اس وقت بھی مولانا سید نظام الدین صاحب اس تحریک میں اپنے رفقاء کے ساتھ آگے آگے رہے اور امیر شریعت کے معین و مددگار ثابت ہوئے۔ بورڈ کے قیام کے بعد، حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب (رحمہ اللہ) کو بورڈ کا باوقار عہدہ صدارت پیش کیا گیا؛ جب کہ مولانا رحمانی کو جنرل سکریٹری منتخب کیا۔ بہت سے لوگوں کے ساتھ مولانا سید نظام الدین صاحب کو بھی بورڈ کا معزز رکن بنایا گيا۔ قاری محمد طیب صاحب (رحمہ اللہ) کی وفات کے بعد، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (رحمہ اللہ) کو بورڈ کا صدر منتخب کیا گيا۔ پھر 19/مارچ 1991 کو بورڈ کے جنرل سکریٹری کی وفات کے بعد، باتفاق رائے مئی 1991 میں مولانا سید نظام الدین صاحب کو بورڈ کا جنرل سکریٹری بنایا گيا۔ اس وقت سےاپنی آخری سانس تک آپ بورڈ کے موقر جنرل سکریٹری رہے۔ بورڈ میں چوں کہ مختلف فرقوں اور مختلف جماعتوں کے نمائندے ہوتے ہیں، اس لیے اختلاف رائے کا ہونا یقینی اور ظاہر ہے، مگر اس کے باوجود بھی تقریبا اپنے 25/سالہ جنرل سکریٹری رہنے کے دور میں، کسی طرح کا کوئی بڑا انتشار رونما نہ ہونے دیا؛ بل کہ اپنی خدا داد صلاحیت اور حسن اخلاق سے بورڈ کے شیرازہ کو متحد رکھا۔
فروغ مہر بھی دیکھا، جمال گلشن بھی  ٭  تمھارے سامنے کس کا چراغ جلتا ہے

آپ کا دائرہ کار صرف "امارت شرعیہ" اور "آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ" تک ہی محدود نہیں تھا؛ بل کہ آپ دارالعلوم، دیوبند اور دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ جیسی اسلامی اور علمی درسگاہوں اور تحریکوں کی مجلس شوری اور مجلس نظامت کے رکن بھی رہے۔ آپ کو ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامی کا رکن سن 1996 میں؛ جب دارالعلوم، دیوبند کی مجلس شوری کا رکن سن 1997 میں منتخب کیا گيا۔ آپ ان دونوں اداروں کی شورائی میٹنگوں میں پابندی سے پہنچتے تھے اور اپنی رائے صواب سے نوازتے تھے۔ آپ ان اداروں کو اکابر کی امانت سمجھتے تھے اور ان اداروں کے خلاف کسی طرح کی بات سننا پسند نہیں کرتے تھے۔

مجھے یاد آرہا ہے کہ میں دارالعلوم، دیوبند میں "تکمیل ادب عربی" کا طالب علم تھا۔ اس وقت میرے ایک دوست نے مجھے یہ بتایا تھا کہ وہ رمضان بعد ایک دن امیر شریعت سے ملنے گئے ہوئے تھے۔ دارالعلوم، دیوبند کا ایک طالب علم حضرت سے "تکمیل افتاء میں داخلہ کی شفارش" کے لیے پہنچا۔ اس طالب علم نے امیر شریعت کی شفارش حاصل کرنے کے لیے اپنی بات شروع کی اور کہا: "میں آپ کے یہاں تکمیل افتاء  میں داخلہ کی شفارش کے لیے آیا ہوں؛ کیوں کہ دارالعلوم میں بہار کے طلبہ کا آسانی سے تکمیل افتاء میں داخلہ نہیں ہوتا؛ جب کہ دوسری جگہ کے طلبہ کا بآسانی داخلہ ہوجاتا ہے۔" امیر شریعت نے جوں ہی اس طالب کا یہ جملہ سنا، بہت ہی خفا ہوئے اور کہا کہ "آپ نے اس جملے سے دارالعلوم، دیوبند کی انتظامیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں مجلس شوری کا رکن ہوں اور بخوبی جانتا ہوں کہ حقیقت کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے تکمیل افتاء میں داخلہ کے بہت سے طلبہ متمنی ہوتے ہیں اور وہ امتحان میں اچھے نمبرات حاصل کرنے کی وجہ سے اس کے مستحق بھی ہوتے ہیں۔ مگر تکمیل افتاء میں محدود سیٹیں ہونے کی وجہ سے اتنے طلبہ کی گنجائش نہیں ہوتی؛ اس لیے تقابل کے بعد ہر صوبہ سے قابل طلبہ کو منتخب کیا جاتا۔ اس میں بہار کے طلبہ بھی ہوتے ہیں۔ مگر آپ نے دروغ گوئی سے کام لیاہے۔ آئندہ اس طرح کی دروغ گوئی سے پرہیز کریں۔"

ان معروف ملی تنظیموں اور مشہور اداروں کے علاوہ آپ دسیوں تنظیموں اور مکاتب و مدارس کے نگراں اور سرپرست تھے۔ آپ اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا جیسی عظیم علمی اکیڈمی کے سرپرستوں میں بھی تھے۔ آپ بڑے اخلاص سے ان اداروں کی رہنمائی کرتے رہے۔ وہ جس عہدہ پر بھی فائز رہے، اللہ کی مدد ان کے شامل حال رہی اور اسلاف و اکابر کی نمائندگی اور قائم مقامی بڑی حسن و خوبی اور سلیقے کے ساتھ انجام دیتے رہے اور کبھی کسی کو کچھ بولنے کا موقع نہ دیا۔
دونوں جہاں آئینہ دکھلا کے رہ گئے     ٭  لانا پڑا تمھیں کو تمھاری مثال میں

 امیر شریعت سادس کی پیدائش بہار کے مشہور ضلع: گیا میں 31/مارچ 1927 کو ہوئی۔ آپ کا تعلق ایک علمی خانوادہ سے تھا۔آپ کے والد ماجد قاضی سید حسین صاحب، حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیری (رحمہ اللہ ) کے شاگرد تھے۔ آپ کئی مہینوں سے صاحب فراش تھے۔ انتقال سے چند دنوں قبل رانچی میں زیر علاج تھے۔ ڈاکٹروں نے یہ کہہ کہ واپس کردیا تھا کہ اب حضرت کسی بھی وقت اس دار فانی سے کوچ کرجائیں گے۔ اس کے بعد آپ کو "پھلواری شریف، پٹنہ" میں لاکر رکھا گيا۔ 17/اکتوبر 2015 کی شام کو، چھ بج کر پندرہ منٹ پر، 88 سال کی عمر میں، حضرت والا اپنے پاک پروردگار کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہزاروں لوگوں کو یتیم کرکے رحلت فرما گئے۔ نائب امیر شریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب، کارگزار جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے آپ کی نمازجنازہ  پڑھائی اور پٹنہ کے "حاجی حرمین قبرستان" میں لاکھوں لوگوں نے غمناکی کی حالت میں آپ کو سپرد خاک کردیا۔
وہ فاقہ مست ہوں جس راہ سے گزرتا ہوں  ٭  سلام کرتا ہے آشوب  روزگار  مجھے
٭٭٭

(مضمون نگار  دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا کے استاذ ہیں۔)

AlHudaClasses

Daily English Phrase

keep the ball rolling کام کو جاری رکھنا We realised we would need outside funding to keep the ball rolling. ہم نے محسوس کیا کہ کام کو جاری ر...