مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری نور اللہ مرقدہ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کا سحر آفریں خطاب
ہمارے اور آپ کے آقا ،تاج دار مدینہ،سرکار دو عالم،محبوب رب العالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے؛"بعثت معلما"کہ مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے،آپ کے ختم الرسل،خاتم الانبیاء اور اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ہونے کے ساتھ جو سب سے بڑی خوبی اور امتیازی شان آپ میں پائی جاتی تھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کے لئے معلم اور مثالی استاذ ہونا تھا۔یہ امتیازی صفت اور خصوصی شان آپ کے بعض امتی کو بھی عطا کی گئی ۔چنانچہ حضرت الاستاذ حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند نور اللہ مرقدہ و برد مضجعہ(1940....2020)
بھی ان خاصان خاص بندوں میں سے تھے جو واقعۃ ایک محبوب اور مثالی استاذ تھے۔
دارالعلوم کے تمام طلبہ کے دلوں میں ان کے تئیں قدرومنزلت،حب و اکرام کا جو جذبہ ہم نے دیکھا وہ کہیں اور نظر نہیں آیا، یہ سنہ1992ء کی بات ہے جب میں دیوبند میں دورہ حدیث میں زیر تعلیم تھا نظام تدریس اپنی پوری جلوہ سامانیوں کے ساتھ رواں دواں تھا کہ ہمارے ملک کی فضا کچھ سیاستدانوں کے سیاسی داؤ پیچ اور خود کو نفع اور دوسروں کو ضرر پہونچانے کے لیے نفرت کے زہر سے مسموم بنائی جانے لگی اور اس نفرت کا اثر نفرت کے پجاریوں کے درمیان پروان چڑھتے چڑھتے نوبت اس حد تک جا پہونچی کہ6دسمبرسنہ1992 ہندوستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن بن گیا جس دن مسلمانوں کی تاریخی عبادتگاہ بابری مسجد کو مسمار کردیا گیا
یہ حادثہ کیا رونما ہوا اور یہ خبر کیا کانوں سے ٹکرائی کہ ہر طرف بے چینی و اضطراب کا عالم بپا ہوگیا،جگہ جگہ ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے ۔دیوبند بھی ایک حساس علاقہ ہے مزید برآں دارالعلوم جیسا عظیم ادارہ موجود ہے جہاں بیشتر جواں سال ہزاروں غیور طلبہ زیر تعلیم رہتے ہیں وہ بھی فطرۃ اس واقعہ سے کافی متاثر ہوئے وہ غیرت دینی اور حمیت اسلامی کے جذبہ سے سرشار ہو کر مختلف گیٹ سے حکومت اور اس شرمناک حرکت کے خلاف احتجاجاً باہر نکل گئے۔ان احتجاج کرنے والوں پر اس وقت کسی فساد ی نے گولی چلا دی جس سے ہمارا ایک ساتھی شہید ہوگیا،ہم نے اس کی قسمت کو سلام کیا اور اس کے نصیب پر عش عش،کیوں کہ ہم سب بھی اسی جذبہ سے سرشار اور اسی جوش سے لبریز تھے۔
طلبہ اس خوش نصیب شہید کی نماز جنازہ پڑھنے کے لئے جوق در جوق احاطہ مولسری میں اکٹھا ہونے لگے تاکہ اس بابرکت جنازہ میں شریک ہوکر اپنے لئے سامان مغفرت کا انتظام کرسکیں پھر چند ذمہ دار حضرات جنازہ کو لے کر قبرستان قاسمی چلے گئے اور اب تمام گیٹ بند کئے جاچکے تھے۔طلبہ گیٹ کی طرف بھاگے جارہے تھے سبھی بڑے بڑے اساتذہ کرام انھیں منتشر کررہے تھے،انھیں سمجھا رہے تھےاور ہر نامعقول ضرر رساں اقدام سے باز رکھنے اور رہنے کی کوشش کررہے تھے مگر یہ ہجوم بے قابو تھا۔
دارالعلوم کے درودیوار تکبیر کے فلک شگاف نعروں سے گونج رہا تھا ہر ایک جذبہ ایمانی اور جوش جانفشانی سے لبریز تھا اور اسے عین وقت کا تقاضا سمجھ رہا تھا؛ یہی وجہ تھی کہ وہ اساتذہ کے منع کرنے کے باوجود باز نہیں آرہا تھا جب کہ وہ انہیں اساتذہ کے ایک حکم بلکہ ایک اشارہ کے سامنے اپنی پلکیں بچھانے کو اپنی سعادت سمجھتا تھا اسی افراتفری اور اضطرابی کیفیت میں اعلان ہوتا ہے کہ سبھی طلبہ عزیز سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ دارالحدیث میں جمع ہو جائیں،مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری خطاب فرئیں گے۔
اس پیغام کو سننے کے بعد سبھی طلبہ نے دارالحدیث کا رخ کیا خیال یہ تھا کہ آج مفتی صاحب ہمارے دلوں میں جہاد کی روح پھونکیں گے اور بذات خود ہمارے اس قافلہ کی قیادت کریں گے اور ہمارا یہ لشکر ،اسلام کے اس مایہ ناز سپوت کی سپہ سالاری میں باطل کی صفوں میں شگاف اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دےگا۔
مفتی صاحب نے آیت جہاد "ان اللہ اشتری من الخ"کی تلاوت فرمائی،تو ہمارے خیال کو مزید تقویت حاصل ہوئی۔مگر جب مفتی صاحب نے اس کی تشریح و تفسیر فرمائی؛تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور دل و دماغ کے دریچے وا ہوگئے کہ جہاد کا اصل طریقہ،روح اور مقصد کیاہے؟مفتی صاحب نے فرمایا کہ دیکھو بچو! آیت میں ارشاد باری ہے
' یقاتلون فی سبیل اللہ فیقتلون ویقتلون"یعنی ایمان والے لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں پھر وہ قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں
آیت میں اس بات کی طرف صاف اشارہ ہے کہ باطل سے مقابلہ میں جب زور آزمائی ہو تو ہماری تیاری اتنی ہونی چاہیۓ کہ ہم انہیں پہلے پچھاڑ سکیں اب اپنی حالت پر خود غور کرلو۔اس لئے احتجاج میں دارالعلوم سے باہر نکلنا اور کوئی حرکت انجام دینا خودکشی کے مترادف ہوگا۔
یہ تو مفتی صاحب کی بات کا خلاصہ تھا جسے انھوں نے ایک خاص انداز اور مسحور کن پیرائے میں بیان فرمایا جو طلبہ کے اس بپھرے ہجوم پر ایسا اثر انداز ہوا جس نے سینکڑوں طلبہ کی جان بچائی اور اہل خانہ کو اپنے لاڈلوں کی محرومی سے بھی محفوظ رکھا۔
وہ جذبہ جو درحقیقت جنون تھااور وہ خیال جو در اصل ناپختگی کا اثر تھا ایک کہنہ مشق حکیم کی بر وقت تشخیص اور دوا سے فی الفور کافور ہو گیا۔طلبہ نے ہوش کے ناخن لئے،سنجیدگی کا دامن تھاما،اور ایک ناقابل تلافی نقصان سے خود کو اور دارالعلوم کو بچالیا۔
حضرت الاستاذ حضرت مفتی صاحب کی زندگی کا ایک دوسرا پہلو جو میرے لئے بہت نمایاں تھا وہ آپ کا سلام میں پہل سے متعلق ہے ،مجھے کسی نے بتایا کہ مفتی صاحب سلام میں بہت سبقت کرتے ہیں یہاں تک کہ ہم کوشش کے باوجود سلام کی ابتدا نہیں کرپاتے،یہ بات مجھے بہت عجیب وغریب معلوم ہوئی اور بے حد اچنبھا بھی ہوا کیوں کہ میں اسے طالب علم(ناقل) کی کوتاہی سمجھ رہا تھا کہ یہ خود سلام میں تاخیر کرتا ہوگا تا آنکہ استاذ محترم خود تعلیما سلام کردیتے ہوں گے لہٰذا راقم الحروف نے خود تجربہ کی ٹھانی،تو بات بالکل سچ ثابت ہوئی میں نے کئی بار معراج گیٹ سے گزرتے ہوئے مفتی صاحب سے سلام کرنے میں سبقت کی کوشش کی مگریہ سعادت کبھی مجھے حاصل نہیں ہوئی کیوں کہ میں رفیق تھا اور وہ سعید تھے اسم با مسمی تھے۔
بہرحال مفتی صاحب کے حیات کے یہ چند گوشے تھے جسے آپ حضرات کے ساتھ شیئر کررہاہوں یوں تو آپ کی حیات کا ایک ایک لمحہ قابل رشک اور نمونہ اسلاف ہے،جن کا احاطہ آپ کی سوانح حیات میں قلم بند ہوکر منظر عام پر آئے گا اور انشاء اللہ باصرہ نواز ہوگا۔
رفیق احمد اعظمی قاسمی
قاضی پورہ گھوسی مئو