Search This Blog

Showing posts with label Urdu Articles. Show all posts
Showing posts with label Urdu Articles. Show all posts

زوالِ تدريس

بسم اللّه الرحمن الرحيم

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

شعبہائے مدارس:

تعليمى اداروں كے كاركنوں كو بالعموم تين  شعبوں ميں تقسيم كيا جاتا ہے، ہيئت تدريسيه يعنى مدرسين، شعبۂ رابطۂ عامه اور ہيئت اداريه يعنى انتظاميه.
انتظاميه كى ذمه دارى ہے كه  وه تدريسى عمل كے لئے ہر ممكن سہوليات فراہم كرے، اس كى حيثيت معاون كى ہے، وه خود كو مدرسين كے بالمقابل نه سمجهے اور نه ان كى راه ميں كوئى ركاوٹ پيدا كرے۔
شعبۂ رابطۂ عامه كا كام مدارس اور عوام ميں  ربط پيدا كرنا ہے، يعنى مدارس كے ذريعه عوام كى ضروريات پورى كرنا، اور عوام كے ذريعه مدارس كى ضروريات پورى كرنا، اس كے تحت دو اہم شعبے ہوتے ہيں، ايك محصلين كا جو مدارس كے لئے مالى امداد كے حصول كى كوشش كرتے ہيں، دوسرے مبلغين وواعظين، جو عوام كى تذكير كا كام كرتے ہيں۔
تيسرے شعبۂ تدريس، تعليمى اداروں كا اصل كام جن كى وجه سے ان كا وجود ہے تدريس ہے، تدريس معاشره كا سب سے زياده قابل احترام پيشه ہے، اور مدرسوں كے اندر مدرسين ہى كو سب سے زياده اہميت ملنى چاہئے، كيونكه معيارى  تدريس كے بغير مدارس كا وجود بے معنى ہے۔

مدرسين كى افسوسناك صور حال:

افسوس كه آج كل مدرسين اپنے مقام  بلند سے نا آشنا ہيں، اپنى ذمه داريوں كى عظمت سے غافل، اور طلبه كى علمى ترقى سے بے پرواه، مدرسين كے ذہنوں ميں يه واہمه راسخ ہوگيا ہے كه ان  كے سامنے ترقى كى سارى راہيں مسدود ہيں، ترقى كا معيار ان كے نزديك مال وجاه ہے، اس لئے ان كى اكثريت تدريس پر قانع نہيں ہوتى، بلكه مدارس كے دوسرے شعبوں ميں دخل اندازى كے لئے بے چين رہتى ہے، كچه مدرسين محصلى كے كام پر لگ جاتے ہيں، اور ان علاقوں ميں تحصيل چنده كے لئے مقابله آرائى كرتے ہيں جہاں پيسے زياده ہوں، ان كى اس مقابله آرائى  كى قيمت خود علم كو دينى پڑتى ہے، اور علم ہى  كو لوگ ذليل ورسوا سمجهنے لگتے ہيں۔
مدرسين كى ايك دوسرى جماعت وعظ وتقرير ميں لگ جاتى ہے، اس سے انہيں شہرت حاصل ہوتى ہے، عوامى مقبوليت بڑهتى ہے اور مالداروں سے تعلقات قائم كرنے كى راه ہموار ہوتى ہے، اس ميدان ميں انہيں جاه بهى ملتى ہے  اور دولت بهى۔
چونكه انتظاميه كو اقتدار حاصل ہوتا ہے، اس لئے بعض مدرسين كى نگاہيں انتظامى عہدوں پر ہوتى ہيں، با وقار انتظامى عہدے محدود ہيں، مثلا ناظم، صدر، مہتمم وغيره، اس لئے ان عہدوں كے لئے رسه كشى ہوتى ہے، اور بہت سارا وقت سازشوں اور لڑائى جهگڑوں ميں ضائع ہوجاتا ہے، كتنے اداروں كى بربادى، تقسيم  يا كمزورى كا سبب اقتدار كى ہوس اور اس كے لئے تنافس وتسابق رہا ہے۔
بہت سے مدرسين كو يه شكايت ہوتى ہے كه انتظاميه نے ان كے لئے ترقى كے دروازے بند كرديئے ہيں، يا تو اپنے اعزه واقارب كو ترجيح ديتے ہيں يا چاپلوسى كرنے والوں كو، اس كا نتيجه يه ہے كه تدريس كے علاوه ہر شعبه معزز سمجها جاتا ہے، اور ترقى كى ايك ايسى مادى تفسير  ذہنوں ميں بيٹهه گئى ہے، جس كى وجه سے تدريس ميں  منحصر رہتے ہوئے ترقى كا امكان نظر نہيں آتا۔

تدريس كا الميه:

ظاہر ہے كه اس صورت حال ميں تدريس كا  زوال  يقينى ہے، اور تدريس كے زوال كا اثر ہے كه فارغين كى بڑى تعداد علوم وفنون سے بے بہره ہے، اس الميه كے ذمه دار مدرسين ہيں۔
جو مدرسين چنده وصول كرنے كے لئے وقتا فوقتا غائب رہتے ہيں  طلبه كى دلچسپى ان كے موضوعات سے كم ہو جاتى ہے، اور انتظاميه چونكه ان كى ممنون ہوتى ہے اس لئے ان سے  كوئى باز پرس نہيں ہوتى، اور تدريس كى ذمه داريوں كو نظر انداز كرنا ان كا معمول بن جاتا ہے۔

سب سے زياده نقصان ده مدرسين:

مدارس كے لئے سب سے زياده نقصان ده وه مدرسين ہيں جو وعظوں اور تقريروں ميں مشغول ہوتے ہيں، اور دعوت وتبليغ كے نام پر ملك وبيرون ملك كے دورے كرتے رہتے ہيں، ان مقررين كے دو عظيم نقصان ہيں:
ايك يه كه  يه لوگ كثرت سے ناغه كرتے ہيں، اسفار اور پروگراموں كے بار   گراں كى وجه سے  تهكے ماندے كلاسوں ميں آتے ہيں، اور نہايت كسلمندى سے پڑهاتے ہيں۔
دوسرے يه كه ان كو مطالعه كا موقع نہيں ملتا، دروس پر تقريروں كا رنگ غالب ہوتا ہے، نه بحث وتحقيق اور نه ابتكار وندرت خيالى، مشتملات عوامى ہوتے ہيں اور دلائل خطابى،  لہذا طلبه ان موضوعات ميں كوئى صلاحيت نہيں پيدا كرتے، ان كى قوت استدلال مرده ہوجاتى ہے، ان كے اندر صحيح وغلط كے درميان تمييز پيدا كرنے كے ملكه كا فقدان ہوجا تا ہے، ان دروس كے بعد طلبه نه كسى علمى مسئله پر گفتگو كرسكتے ہيں،  نه كوئى مدلل بات كه سكتے ہيں، اور نه علمى غلطيوں اور دلائل كى كمزوريوں پر  كوئى گرفت كر سكتے ہيں۔

مسئله كا حل:

اگر ہم علم كے معيار كو بلند كرنا چاہتے ہيں، اور طلبه كى علمى صلاحيت بڑهانے كى ہميں فكر ہے، تو اس كے لئے مناسب اقدامات كرنے ہوں گے، اور اس سلسله ميں نه  كوئى مراعات يا سستى ہو، ا ور نه كوئى تساہل روا  ركها جائے، ميرے خيال ميں  تدريس كو صحيح سمت عطا كرنے كے لئے درج ذيل اصول كا التزام ضرورى ہے:
1-مدرسين انتظامى امور سے بالكل دور رہيں، نه اس مدرسه ميں كوئى  انتظام سنبهاليں جس ميں پڑهاتے ہيں اور نه كسى اور تعليمى يا غير تعليمى اداره ميں۔
2-مدرسين محصلى كا كام ترك كرديں، نه اپنے مدرسه كے لئے چنده كريں اور نه كسى اور مدرسه يا اداره كے لئے۔
3-مدرسين عوامى جلسون، وعظ اور تقرير كے كاموں سے پرہيز كريں، عوامى تقريريں تدريس كى ذمه دارى كے لئے سم قاتل ہيں، مدرسين صرف علمى سيميناروں اور كانفرنسوں ميں شركت كريں جن سے ان كے موضوعات ميں مددملے، معيارى سيميناروں اور كانفرنسوں ميں شركت سے ان كا جمود ختم ہوگا اور بحث وتحقيق سے ان كى دلچسپى بڑهے گى۔

مدرسين كى ترقى:

مدارس كى انتظاميه كا فريضه ہے كه جو مدرسين يكسو ہو كر كام كر رہے ہين ان كى قيمت كو سمجهيں، اور ان كى تنخواه اتنى ہو كه وه آسانى سے گزر بسر كرسكيں، اور بے فكرى سے اپنى ذمه دارى پورى كرسكيں۔
مدرسين كو معلوم ہونا چاہئے كه ان كى ترقى انتظامى، مالياتى امور يا خطابت ووعظ سے وابسته نہيں، بلكه ان كى ترقى ان موضوعات ميں ہے جن كو وه پڑها رہے ہيں، آج ہمارے پاس كسى بهى علم وفن كے ماہرين نہيں، اگر ہر مدرس اپنے موضوع كو اپنا مشغله بنا لے، اور اس ميں مطالعه وتحقيق جارى ركهے، تو ہمارے پاس اچهے ادباء، محدثين، مفسرين، فقہاء ومتكلمين وغيره كى كمى نہيں ہوگى۔
ماہرين فن كى قيمت سے كسى كو انكار نہيں، اگر آپ كسى فن ميں مہارت پيدا كرليں تو مشرق ومغرب ميں آپ كى عظمت كے گيت گائے جائيں گے، آپ كے ذريعه علوم وفنون كى نشأت ثانيه ہوگى، اور اہل علم وتحقيق كى ايسى نسل تيار ہوگى جو ملت كى ہمت جہت ترقى ميں معاون ہوگى۔

شیخ الاسلام مفتی اعظم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا ارطغرل فلم کے بارے میں امت مسلمہ کو درد بھرا اصولی دعوت وپیغام

شیخ الاسلام مفتی اعظم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا ارطغرل فلم کے بارے میں امت مسلمہ کو درد بھرا اصولی دعوت و پیغام

ارطغرل اور تصویر ویڈیو وغیرہ کو دین کے لیے استعمال کرنے والوں کے لیے حضرت کا درد بھرا مضمون۔ پینتیس چالیس سال قبل بھی کچھ دین کے نام پر فلمیں وغیرہ بنائی گئی تھیں اور ان کی افادیت کا پرچار کیا گیا تھا جیسا کہ آج کیا جارہا ہے جس کا رد حضرت کے فصیح و بلیغ قلم سے ملاحظہ فرمائیں

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہم لکھتے ہیں

اس فلم کے بارے میں ایک اور پروپیگنڈہ بڑے شدومد سے یہ کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ میں بڑی مدد ملی ہے۔ اور ہزاروں غیر مسلم اسے دیکھ کر مسلمان ہوگئے ہیں۔ اول تو یہ بات بھی پہلی بات کی طرح بے بنیاد پروپیگنڈا ہے۔ ایک معمولی سمجھ کے انسان کے لیے بھی یہ باور کرنا مشکل ہے کہ ایسی فلم کو دیکھ کر ہزاروں انسان اسلام میں داخل ہوگئے ہوں۔ لیکن اگر بالفرض یہ تماشا دیکھ کر کچھ لوگوں کے دل واقعی اسلام کی طرف مائل ہوتے ہیں تو آخر یہ کیوں فرض کر لیا گیا کہ اسلام کی تبلیغ اور لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے ہر طریقہ استعمال کرنا جائز ہے خواہ وہ اسلامی اصولوں کے کتنا خلاف ہو اگر”تبلیغِ اسلام“ کی خاطر اس دلیل کو قبول کر لیا جائے تو کل کو یہی دلیل بنفسِ نفیس سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ دکھانے کے لیے بھی پیش کی جاسکتی ہے۔

”تبلیغِ اسلام“ کا اتنا”درد“ رکھنے والے ان حضرات کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام نے اپنی تبلیغ کے لیے بھی کچھ خاص اصول مقرر فرمائے ہیں، جو تبلیغ ان اصولوں کو توڑ کر کی جائے وہ اسلام کے ساتھ دوستی نہیں، دشمنی ہے۔ یہ کوئی عیسائیت یا کمیونزم نہیں ہے جو اپنے نظریات کے پرچار کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقِ کار کو رواں رکھتا ہو، جسے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے اپنے اکابر کی حرمت کا بھی پاس نہ ہو اور جو دنیا میں محض ہم نواؤں کی تعداد بڑھانے کے لیے اپنی عورتوں کی عصمت بھی داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہو۔

سوال یہ ہے کہ اگر کسی زمانے یا کسی خطے کے لوگ موسیقی کے ذریعے اسلام کی طرف مائل ہو سکتے ہیں تو کیا”تبلیغِ اسلام“ کی خاطر طبلے سارنگی پر قرآن سنانے کی اجازت دے دی جائے گی؟ اگر کسی علاقے کے لوگوں کا سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم  کی شبیہ دیکھ کر مسلمان ہونا ممکن ہو تو کیا مسلمان (معاذاللہ) آپ ا کی فرضی تصویر شائع کرنے کو تیار ہو جائیں گے؟ اگر مسلم عورتوں کے رقص و سرود سے متاثر ہو کر کچھ لوگ مسلمان ہونے پر آمادہ ہوں تو کیا ان کے پاس”تبلیغِ اسلام“ کے لیے رقاصاؤں کے طائفے بھیجے جائیں گے؟ 

یہ آخر کیا طرزِ فکر ہے کہ دنیا میں جس جس برائی کا چلن عام ہو جاتا ہے اسے نہ صرف جائز اور حلال کرتے جاؤ بلکہ اسلام کی تبلیغ و ترقی کے لیے اس کے استعمال کو بھی ناگزیر قرار دو، آنحضرت ا  کی جس سیرتِ طیبہ کو فلما کر اسے تبلیغِ اسلام کا نام دیا جارہا ہے اس سیرتِ طیبہ کا سبق تو یہ ہے کہ حق کی تبلیغ و اشاعت صرف حق طریقوں سے ہی کی جاسکتی ہے۔ اگر حق کی تبلیغ کے لیے اس میں کسی باطل کی آمیزش اسلام کو گوارا ہوتی تو عہدِ رسالت کے مسلمانوں کو وہ اذیتیں برداشت نہ کرنی پڑتیں جن کے واقعات پر اس فلم کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ عہدِ رسالت کے مسلمانوں کو سب سے بڑی تربیت تو یہ دی گئی تھی کہ وہ اپنے آپ کو زمانے کے ہر غلط بہاؤ کے آگے سپر ڈالنے کے بجائے زندگی کی آخری سانس تک اس سے لڑنے اور اسے صحیح سمت کی طرف موڑنے کی جدوجہد کریں اور اس راہ میں جو مشکلات پیش آئیں انھیں خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرنے کی عادت ڈالیں۔ اگر یہ بزرگ ایسا نہ کرتے اور زمانے کی ہر پھیلی ہوئی برائی کے آگے ہتھیار ڈالتے جاتے تو آج دین کی کوئی قدر بھی اپنے اصلی شکل میں محفوظ نہ رہ سکتی۔

(مضمون: عہد رسالت کی فلم بندی، کتاب: اصلاحِ معاشرہ  ۲۳۱،۳۳۱)

دار العلوم دیوبند کی تاریخِ تاسیس اور مسلمانوں کے لئے ہجری اور عیسوی کیلنڈروں کا استعمال: ایک تبصرہ

دار العلوم دیوبند کی تاریخِ تاسیس اور مسلمانوں کے لئے ہجری اور عیسوی کیلنڈروں کا استعمال: ایک تبصرہ

حضرت مولانا کے مضمون میں کچھ شدت داخل ہوگئی ہے. میرے خیال میں ہجری کیلنڈر اور عیسوی/انگریزی کیلنڈر دونوں ہمارے لئے موجودہ زمانے میں مفید ہیں.

ہجری کیلنڈر کا نام اور اس کا شمار تو ہجرتِ رسول علیہ الصلوۃ والسلام سے ہوتا ہے مگر اس کی ابتدا حضرت عمر رضی اللہ کے زمانہِ خلافت سے ہوئی ہے. حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہجری کیلنڈر کا وجود نہیں تھا بلکہ آپ کی وفات کے بعد خلافتِ صدیقی میں بھی. اِس طرح اسلام کے ابتدائی تقریباً 30 سال ہجری کیلنڈر سے خالی رہے مگر ہجری تقویم کے مشمولات یعنی بارہ قمری مہینے وہی باقی رہے جو اسلام سے پہلے سے چلے آرہے تھے اور اسلام نے اس کو باقی رکھا. اسے کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ قمری مہینوں کی بنیاد رویتِ ہلال پر ہوتی ہے جس میں دن کبھی 29 اور کبھی 30 ہوتے ہیں.

ہجری کیلنڈر کی شروعات سے پہلے سالوں کی تعداد بغیر ہجری لفظ کے محض اعداد سے شمار ہوتی تھی اور جب یہ بتانا ہوتا تھا کہ فلاں شخص کب پیدا ہوا یا کب وفات ہوئی وغیرہ تو اس سال کے کسی اہم واقعے کا ذکر کردیا جاتا تھا یا اتنے سال پیچھے کا عدد بتادیا جاتا تھا مثلاً دو سال پہلے، دس سال پہلے. سال اور مہینوں کا جو نظام پہلے سے چلا آرہا ہے تھا اسلام نے اس کو باقی رکھا اور  اپنی عبادات و شرعی امور میں جن میں تاریخوں یا سالوں کے حساب لگانے کی بات تھی، اسی کو بنیاد بنایا. بلوغت اور نصوص میں مذکور مہینوں وغیرہ میں اعتبار اسی بارہ قمری مہینوں والے سال کا ہے. پھر حضرت عمر نے سہولت اور اسلام کے اظہارِ شان کی خاطر بارہ قمری مہینوں والے سال کے نظام کو "ہجری" کیلنڈر کا نام دے دیا. ہجری کیلنڈر میں مہینے وہی رہے جو پہلے سے چلے آرہے تھے یعنی قمری مہینے. اب حضرت عمر کے ذریعے موسوم ہجری کیلنڈر مسلمانوں میں رائج ہوگیا اور الحمد للہ اب بھی رائج ہے. چونکہ قمری مہینوں اور تاریخوں کے مطابق ہی اسلام کی متعدد عبادات وغیرہ ادا کی جاتی ہیں لہٰذا ان مہینوں اور تاریخوں کا علم ضروری ہے بلکہ فرضِ کفایہ ہے کیونکہ مقدمۃ الواجب واجب مگر ہجری کیلنڈر کا علم یعنی یہ کہ اس کی شروعات کب ہوئی اور اس وقت سے اب تک کتنے سال ہوگئے اس کا علم ضروری نہیں ہے، کیونکہ اسلام کے کسی حکم کا مدار اس پر نہیں ہے، البتہ بہتر ضرور ہے. اس طرح قمری نظامِ تاریخ کی حفاظت مسلمانوں پر ضروری ہے. ہم اپنے معاشرے میں اس نظام کو جو حضرت عمر کے زمانے سے ہجری سے موسوم ہے اگر رواج دیں تو یہ بہتر اور افضل ہے.
مگر ہجری کیلنڈر کا نظام اگر محفوظ ہے اور تاریخ بگڑنے کا دور دور تک کوئی خطرہ نہیں ہے تو عیسوی/انگریزی کیلنڈر سے مسلمانوں کو اجتناب کرنے کی تلقین کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے اور بالخصوص ایسے زمانے میں جب پوری دنیا سمٹ کر ایک آنگن کی شکل اختیار کرچکی ہے اور پوری دنیا کا کاروبار، لین دین اور دیگر بین الاقوامی معاملات عیسوی کیلنڈر کے مطابق انجام پارہے ہیں. ہندوستان میں مسلمانی حکومت میں ہجری کیلنڈر استعمال ہوتا تھا. پھر جب انگریز ملک پر قابض ہوئے تو وہ عیسوی کیلنڈر ساتھ لائے اور ملک میں آہستہ آہستہ عیسوی کیلنڈر عموماً رائج ہوگیا. ہمارے اولین اکابرِ دیوبند افضل پر عمل کرنے کے عادی تھے نیز ان کے زمانوں میں عیسوی کیلنڈر ہمارے زمانے کے مقابلے میں نسبۃً کم رائج تھا لہٰذا وہ اپنی تحریروں میں عموماً ہجری تاریخیں لکھتے تھے. البتہ بعد کے بہتیرے اکابر اہم وثائق اور تحریرات میں انگریزی تاریخیں بھی ساتھ ساتھ لکھتے تھے، اور مولانا موصوف نے بھی اپنی تحریر کے اختتام پر ہجری کے ساتھ عیسوی تاریخ لکھنے کا اہتمام فرمایا ہے.

اب ملک کے عرفِ عام میں تاریخ اور سال کا اطلاق چونکہ عیسوی/انگریزی کیلنڈر کی تاریخ اور سال پر ہوتا ہے اور اسلام میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے لہذا انگریزی کیلنڈر کو برتنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے بلکہ اگر کسی معاملے، لین دین، معاہدے وغیرہ میں ہجری کیلنڈر وتاریخ کی صراحت نہ کی گئی ہو تو وہاں عرف کا لحاظ کرتے ہوئے شرعاً انگریزی کیلنڈر کا ہی اعتبار ہوگا.

اسی طرح چونکہ دار العلوم دیوبند ہندوستان میں واقع ہے جہاں کے عرفِ عام میں کیلنڈر اور سالوں کو شمار کرنا عیسوی کیلنڈر کے مطابق ہوتا ہے لہذا کسی کا یہ کہنا کہ دار العلوم کی تاسیس 1866 میں ہوئی اور اس کے قیام پر 154 سال ہوگئے غلط نہیں ہوگا، مطابقِ واقعہ ہوگا. اس پر اعتراض کرنا نامناسب اور یہ کہنا کہ انگریزی تاریخ اور سن کے لحاظ سے حساب لگانے کی صورت میں ہم دار العلوم کی تاریخ میں سے پانچ سال کم یا ضائع کررہے ہیں حیران کن ہے.  عیسوی کیلنڈر سے ہٹ کر اگر ہجری کے مطابق کسی کو کچھ کہنا ہوگا تو ہجری کی صراحت اور قید بڑھانی ہوگی کیونکہ اسے بڑھائے بغیر اس عرف کے خلاف ہوگا جس کو شریعت نے تسلیم کیا ہے.

لہٰذا اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ دار العلوم کی تاسیس 1866 میں ہوئی اور 2020 میں اس کے قیام پر 154 سال مکمل ہوگئے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا، قابلِ اصلاح نہیں ہوگا بلکہ یہی اصل ہوگا اور ہجری سن اورسال کو بتانے کی صورت میں ہجری سن وتاریخ کی صراحت ضروری ہوگی.

خلاصہ یہ کہ ہجری اور عیسوی دونوں کیلنڈر درست ہیں، دونوں ہمارے لئے مفید ہیں. (عیسوی کیلنڈر کی افادیت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا  کہ اس کی شروعاتی تاریخ اور ابتداء کیسی رہی.) اور دونوں کیلنڈروں کے مطابق دار العلوم کی تاسیس کی بات کہی جاسکتی ہے، البتہ ہجری کہنے کی صورت میں ہجری کی صراحت ضروری ہوگی.

محمد عبید اللہ قاسمی، دہلی

مسجدوں میں نماز پڑھنے والے وہ پانچ افراد کون ہوں گے؟

مسجدوں میں نماز پڑھنے والے وہ پانچ افراد کون ہوں گے ـ
                        ــــــــــــــــــــــ
   از ـ  محمود احمد خاں دریابادی

     خبریں گرم ہیں کہ ۸ جون بروز پیر سے مسجدوں سمیت تمام عبادت گاہیں کھولی جارہی ہیں ـ اس سلسلے میں پہلی وضاحت تو یہ کرنی ہے کہ ممبئی اور مہاراشٹر میں ۸ جون سے کوئی عبادت گاہ نہیں کھل رہی ہے ـ حکومت مہاراشٹر کی جانب سے ۳۱ مئی کو جو ہدایات جاری ہوئی تھیں اُس میں صاف لکھا ہوا ہے کہ ساری عبادت گاہیں تا اطلاع ثانی بدستور بند رہیں گی ـ آج ممبئی پولیس کی اشپیشل برانچ کے ایڈیشنل کمشنر مسٹر کولے نے بھی اپنے پیغام میں یہ یاد دہانی کرائی ہے ـ
 
   دوسری ضروری بات یہ ہے کہ جن ریاستوں میں عبادت گاہیں پیر سے کھل جائیں گی وہاں بھی لوگوں کو عبادت گاہوں میں داخلے کی محدود اجازت ہوگی ـ یوپی کے وزیر اعلی کا ایک بیان بھی نظر سے گزرا ہے کہ عبادت گاہوں میں بیک وقت صرف پانچ افراد کے داخلے کی اجازت ہوگی ـ 

    ذرا سوچئے مسجد میں صرف پانچ آدمی نماز پڑھیں گے تو وہ پانچ کون ہوں گے، اُن کے انتخاب کا طریقہ کیا ہوگا، کچھ دبنگ افراد ہر جگہ ہوتے ہیں وہ ہر نماز میں زبردستی گھسنا چاہیں گے اس طرح ہر نماز میں مستقل جھگڑے کی شکل بنے گی، جمعہ کی نماز میں کیا ہوگا؟ .........کیا حکومت یہ چاہتی ہے کہ مسلمان آپس میں ہی لڑ مریں اور پولیس کو دونوں طرف سے کمائی کا موقع ملتا رہے ؟
 
     اس لئے عبادت گاہوں کے کھلنے کے اِس اعلان سے ہم مسلمانوں کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں، الحمدللہ ہماری مسجدیں آباد ہیں، مسجد کا عملہ مساجد میں باجماعت نمازیں ادا کررہا ہے، تراویح، جمعہ اور عید کے موقع پر مسجدوں میں یہی صورت حال رہی ہے ـ یہاں یہ واضح کردینا بھی ضروری ہے کہ ہر مسجد میں امام، موذن اور دیگر خدام کے ساتھ تقریبا چار پانچ افراد تو پہلے ہی نمازیں ادا کررہے ہیں،........... ابھی تک حکومت کی طرف سے ایسی کوئی وضاحت بھی نہیں آئی ہے کہ جن پانچ افراد کو نماز کی اجازت دی جائیگی اُن میں مسجد کا عملے کا شمار ہوگا یا نہیں ـ

    اس لئے ہماری رائے یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ہر محلے میں آپسی جھگڑا پیدا کرنے کے بجائے بہتر ہوگا کہ ابھی مسجدیں پوری طرح نہ کھولی جائیں، حسب سابق اذان  ہوتی رہے اور مسجد کا عملہ نماز باجماعت ادا کرتا رہے، اس دوران ملت کے ذمہ داران حکومت کے رابطے میں رہیں، مساجد اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں نیز مسلمانوں اور دوسروں کے طریقہ عبادت کے درمیان فرق کو واضح کریں .........ساتھ ہی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھ کر مسجدوں میں حاضری کے لئے مزید افراد کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کریں ـ

اللہ کے عذاب سے بچو!


اللہ کے عذاب سے بچو!

از: مولانا سر شمس الہدی قاسمی
چیف ایڈیٹر: "دی لائٹ"  میگزن
وہیڈ انگلش ڈپارٹمنٹ، جامعہ اکل کوا، مہاراشٹرا

میں اپنی اس تحریر کا آغاز حضرت لوط  علیہ السلام کی قوم کی  اُس کہانی سے کرنے جارہا ہوں، جسے باری تعالی نے قرآن حکیم میں تسجیل کرکے ہمیشہ کے لیے ثبت کردیا ہے۔ حضرت لوط  علیہ السلام  اللہ تعالی کے پیارے نبی اور بندے تھے، جن کو اللہ تعالی نے باشندگانِ "سدوم" کو راہ راست دکھانے اور ان کی اصلاح کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔ "سدوم" فلسطین کا ایک شہر تھا، جو "بیت المقدس" اور "اردن" کے درمیان، "بحر میّت" (Dead Sea) کے جنوب میں واقع تھا۔ حضرت لوط علیہ السلام  اپنی زندگی کے اکثر شب وروز "اہالیانِ سدوم" کو احد وصمد اللہ کی عبادت وبندگی، اچھے اعمال پر عمل پیرا ہونے اور ایک پاکیزہ زندگی گزارنے کی پوری جدّ وجہد کے ساتھ دعوت دیتے رہے۔ آپ  علیہ السلام "اہالیانِ سدوم" کو وعظ ونصیحت کرتے رہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکام اور اوامر ونواہی کو چیلنج نہ کريں  اور پاک پروردگار کے بیان کردہ حدود سے تجاوز نہ کریں۔ آپ علیہ السلام نے "باشندگانِ سدوم" کو یہ بھی نصیحت فرمائی کہ اپنی جنسی تسکین کےلیے عورتوں سے شادی کریں اور ان کو شریک حیات بناکر ایک صاف ستھری زندگی گزاریں۔
        بہر حال، "سدوم" کے بدنصیب اور ناپاک باشندوں نے ان کی ایک نہ مانی، انھوں نے تعلیمات ربّانی کو رد کردیا  اور غیر فطری طریقے  سے جنسی تسکین میں اس طرح ملوّث ہوئے کہ اپنے شہر میں تشریف لانے والے مرد مہمانوں کو بھی اپنی جنسی تسکین کے لیے بے عزت کرنے کے پیچھے پڑگئے۔ حضرت لوط  علیہ السلام نے اُن کو ہم جنس پرستی سے روکنے کی بڑی کوشش کی، مگر اُس قوم نے آپ  علیہ السلام کی کوششوں کو  بار آور نہ ہونے دیا؛ بل کہ وہ قوم آپ علیہ السلام کو چیلنج کرنے لگی اور اس حد تک پہنچ گئی کہ وہ کہنے لگی کہ اگر آپ (علیہ السلام) اللہ کے سچے نبی ہیں،  تو اللہ تعالی ہم پر عذاب بھیجیں گے۔
آپ  علیہ السلام  اُس قوم سے اِس طرح حیران وپریشان ہوئے کہ آخر کار بارگاہِ خداوندی میں دستِ دعا دراز کرکے، اپنے پیارے اللہ سے اُس قوم پر عذاب کے بھیجنے کی درخواست کردی۔ پھر وہی ہوا، جو ہونا تھا۔ آپ –علیہ السلام– کی دعا قبول ہوگئی۔ اللہ تعالی نے آپ  علیہ السلام کو حکم دیا کہ رات میں کسی وقت اُس شہر (سدوم) کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ جب اللہ تعالی کا عذاب آیا؛ تو اِس طرح آیا کہ پورا شہر الٹ دیا گیا۔ اُن پر پتھروں کی بارش ہونے لگی۔ پورا شہر تباہ  وبرباد ہوگیا اور صفحۂ ہستی سے مٹادیا گیا۔ یہ سب اُن ناپاک اہالیانِ سدوم کے بدترین اور قبیح فعل کی وجہ سے ہوا۔ اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے!
"ہم جنس پرستی" کے حوالے سے دنیا کے متعدد ممالک کی موجودہ صورت، اہالیانِ سدوم سے کچھ مختلف معلوم نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم کی یہ کہانی ہم جیسے بہت سے افراد کے ذہن ودماغ میں گردش کر رہی ہے کہ کہیں کسی وقت اللہ کا عذاب نہ آجائے۔ یہ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارا پیارا وطن: ہندوستان ہم جنس پرستی کے حوالے سے صاف ستھری امیج رکھتا تھا؛ کیوں کہ ہم جنس پرستی ہندوستان میں ایک جرم (Crime) گردانا جاتا تھا؛ مگر چند لوگوں کی درخواست کو پیش نظر رکھ کر، ملک کی عدالت عالیہ نے بہ روز جمعرات، 6/ستمبر 2018 کو یہ فیصلہ سنایا کہ برضا ورغبت اگر دو بالغ افراد ہم جنس پرستی کرتے ہیں؛ تو یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس جرم عظیم کو سرے سے جرم کی ہی فہرست سے نکال دیا؛ جب کہ برطانوی دور سے ہندوستان کےقوانین کی  دفعہ 377 کے تحت ہم جنس پرستی ایک جرم تھا، جس کی سزا عمر قید، یا پھر دس سال تک قید اور جرمانہ کی بھی ادائیگی تھی۔ ذیل میں منسوخ دفعہ 377 ملاحظہ فرمائے:
377. Unnatural offences: Whoever voluntarily has carnal intercourse against the order of nature with any man, woman or animal shall be punished with imprisonment for life, or with imprisonment of either description for term which may extend to ten years, and shall also be liable to fine.
اس دفعہ کو ناقص قرار دینے کا مطلب یہ ہوا کہ اب ہندوستان میں رضامندانہ طور "ہم جنس پرستی" کو قانونی جواز فراہم ہوگیا؛ چناں چہ اب یہ کوئی قابل تعزیر جرم نہ رہا جیسا کہ ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ عدالت عالیہ نے  سیکڑوں سال پرانے قانون کو ناقص قرار دینے کا فیصلہ، قومی وبین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے دباؤ میں صادر کیا ہے یا ان کی نظر میں سچ مچ یہ شخصی آزادی کے زمرے آتا ہے؟
ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہندوستان کی دھرتی کو مختلف مذاہب وادیان اور ان کے پیروکاروں کی جائے پیدائش ہونے کا شرف حاصل ہے، جیسے ہندوازم، بدھ ازم۔  یہ ہندوستانی دھرتی مختلف مذاہب وادیان اور تہذیب وثقافت کا ملک ہے جس کے شہریوں کی اکثریت کسی نہ کسی مذہب میں یقین رکھتی اور اس پر عمل پیرا ہوکر، اپنے بزرگ وبرتر خدا کو خوش کرتی ہے۔ ہندوستانی تہذیب کا مذاہب وادیان سے بہت پرانا رشتہ ہے جو ہندوستانی معاشرہ میں اندر تک سرایت کیے ہوا ہے۔ عزب مآب ججوں نے اس بات کو قابل اعتنا نہیں سمجھا کہ "ہم جنس پرستی" نہ صرف ہمارے مذاہب وادیان؛ بل کہ فطرت کے بھی خلاف ہے اور فطرت سے بغاوت کے مترادف ہے۔ "ہم جنس پرستی" کو غیر قانونی  اور جرم ثابت کرنے والے قانون کو ختم کرنا اور مرد کا مرد سے اور عورت کا عورت سے خواہشات نفسانی کی تکمیل کرنا یا پھر مرد کا مرد سے اور عورت کا عورت سے آپس میں شادی کرنے کا جواز فراہم کرنا بدیہی طور پر ہمارے ازدواجی اور معاشرتی نظام کو تباہ وبرباد کردے گا اور ساتھ ہی ساتھ اس قانون کی تنسیخ فطری ارتقا اور نسل انسانی کی افزائش کے لیے مانع ثابت ہوگا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس طرح کی انارکی اور بے راہ روی کے معصوم بچوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور یہ اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دے گا۔ اگر طبّی اعتبار سے بھی دیکھا جائے؛ تو ہم جنس پرستی معاشرہ میں ایڈس اور باد فرنگ جیسی شدید مہلک بیماریوں کا باعث ہے۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے؛ بل کہ آج کے دور میں، اسے طبّی علوم نے ثابت بھی کردیا ہے۔
"ہم جنس پرستی" جیسے عمل کو قانونی پناہ مل جانے سے معاشرے میں جہاں یقینی طور پر شادی بیاہ کا تناسب گھٹے گا، وہیں دوسری طرف ریپ اور زنا کا وغیرہ تناسب بڑھے گا۔ صرف چند ذہنی طور پر بیمار لوگوں کی ذاتی آزادی کے نام پر، عوام کو اس بات کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ معاشرے کی شکل وصورت اور صدیوں پرانی عمدہ تہذیب وثقافت کے ساتھ کھلواڑ کریں اور پورے ملک میں کھلے عام انارکی پھیلائیں۔ ہمیں ان ممالک سے سبق حاصل کرنا چاہیے جہاں ہم جنس پرستی کو قانونی جواز ملنے کی وجہ سے خواتین زیادہ متاثر ہوئیں ہیں اور خاندانی نظام پورے طور پر منتشر ہوچکا ہے۔
خیر جہاں سے ہم نے اپنی اس تحریر کا آغاز کیا تھا اور ذکر کیا تھا کہ "اہالیانِ سدوم" نے اس قبیح فعل کا ارتکاب کیا۔ اب اس کے بعد، اس قوم کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کا بھی ذکر اوپر آیا کہ ان پر کی بستی پلٹ دی گئی اور ان پر پتھر کی بارش ہوئی۔  اللہ تعال نے اس فعل کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے: ﴿وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ۔ (سورہ ہود، آیت: 83) ترجمہ: "اور وہ (مقام) ان ظالموں سے کچھ دور بھی نہیں ہے۔" وہ لوگ جو قانونی جواز کی آڑ میں ہم جنس پرستی جیسے قبیح اور ناپاک فعل کے ارتکاب پر مصر ہیں، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ دنیوی عدالت میں خود کو سزا سے بچالیں گے؛ کیوں کہ یہ فعل اب کوئی جرم نہیں رہا، مگر عظیم طاقت وقدرت والے اللہ کی سخت پکڑ سے ان کا بچ نکلنا محال اور ناممکن ہے۔ جناب نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– کا ارشاد ہے کہ ہماری امّت کے کچھ افراد اس گناہ کا ارتکاب کریں گے جس گناہ کا ارتکاب "اہالیانِ سدوم" نے کیا تھا۔ جب اس گناہ کا ارتکاب ہونے لگے؛ تو تم اسی سخت عذاب کا انتظار کرو۔ مطلب یہ ہے جو عذاب "اہالیانِ سدوم" پر آیا، وہی عذاب اس گناہ کے مرتکبین پر آئے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دفعہ 377 کی منسوخیت بہت سے مذاہب وادیان کے عائلی قوانین پر بری طرح سے اثر انداز ہوگا۔ اللہ تعالی اس طرح کے جنسی خواہشات کی انارکی میں ملوث ہونے ہم سب کی حفاظت فرمائے! اللہ تعالی ہم سب کی، ہماری بہنوں، بچیوں اور بچوں کی اس قبیح فعل سے حفاظت فرمائے! اللہ تعالی شہریوں کے بنیادی حقوق کو سمنجھنے اور اس کی حفاظت کی توفیق دے! ٭٭٭

نصوح ایک عورت نما آدمی

نصوح ایک عورت نما آدمی تھا، باریک آواز، بغیر داڑھی اور نازک اندام مرد.

وہ اپنی ظاہری شکل وصورت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زنانہ حمام میں عورتوں کا مساج کرتا اور میل اتارتا تھا۔ کوئی بھی اسکی حقیقت نہیں جانتا تھا سبھی اسے عورت سمجھتے تھے۔
یہ طریقہ اسکے لئے ذریعہ معاش بھی تھا اور عورتوں کے جسم سے لذت بھی لیتا تھا۔ کئی بار ضمیر کے ملامت کرنے پر اس نے اس کام سے توبہ بھی کرلی لیکن ہمیشہ توبہ توڑتا رہا.

ایک دن بادشاہ کی بیٹی حمام گئی ۔حمام اور مساج کرنے کے بعد پتہ چلا کہ اسکا گراں بہا گوھر (موتی یا ہیرا) کھوگیا ہے
بادشاہ کی بیٹی نے حکم دیا کہ سب کی تلاشی لی جائے۔
سب کی تلاشی لی گئی ہیرا نہیں ملا 
نصوح رسوائی کے ڈر سے ایک جگہ چھپ گیا۔ 
جب اس نے دیکھا کہ شہزادی کی کنیزیں اسے ڈھونڈ رہی ہیں توسچے دل سے خدا کو پکارا اور خدا کی بارگاہ میں دل سے توبہ کی اور وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی بھی یہ کام نہیں کروں گا،  میری لاج رکھ لے مولا۔

دعا مانگ ہی رہا تھا کہ اچانک باہر سے آوازسنائی دی کہ نصوح کو چھوڑ دو، ہیرا مل گیا ہے۔

نصوح نم آنکھوں سے شہزادی سے رخصت لے کر گھر آگیا ۔
نصوح نے قدرت کا کرشمہ دیکھ لیا تھا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کام سے توبہ کرلی۔

کئی دنوں سے حمام نہ جانے پر ایک دن شہزادی نے بلاوا بھیجا کہ حمام آکر میرا مساج کرے لیکن نصوح نے بہانہ بنایا کہ میرے ہاتھ میں درد ہے میں مساج نہیں کرسکتا ہوں۔

نصوح نے دیکھا کہ اس شہر میں رہنا اس کے لئے مناسب نہیں ہے سبھی عورتیں اس کو چاہتی ہیں اور اس کے ہاتھ سے مساج لینا پسند کرتی ہیں۔

جتنا بھی غلط طریقے سے مال کمایا تھا سب غریبوں میں بانٹ دیا اور شہر سے نکل کر کئی میل دور ایک 
پہاڑی پر ڈیرہ ڈال کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہوگیا۔

 ایک دن اس کی نظر ایک بھینس پر پڑی جو اس کے قریب گھاس چر رہی تھی۔  
اس نے سوچا کہ یہ کسی چرواہے سے بھاگ کر یہاں آگئی ہے ،  جب تک اس کا مالک نہ آ جائے تب تک میں اس کی دیکھ بھال کر لیتا ہوں،لہذا اس کی دیکھ بھال کرنے لگا۔

کچھ دن بعد ایک تجارتی قافلہ راستہ بھول کر ادھر آگیا جو سارے پیاس کی شدت سے نڈھال تھے
انہوں نے نصوح سے پانی مانگا نصوح نے سب کو بھینس کا دودھ پلایا اور سب کو سیراب کردیا،
قافلے والوں نے نصوح سے شہر جانے کا راستہ پوچھا 
نصوح نے انکو آسان اور نزدیکی راستہ دیکھایا ۔
نصوح کے اخلاق سے متاثر ہو کر تاجروں نے جاتے ہوئے اسے بہت سارا مال بطور تحفہ دیا۔

نصوح نے ان پیسوں سے وہاں کنواں کھدوا دیا۔
آہستہ آہستہ وہاں لوگ بسنے لگے اور عمارتیں بننے لگیں۔ وہاں کے لوگ نصوح کو بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ 

رفته رفته نصوح کی نیکی کے چرچے بادشاه تک جا پہنچے۔بادشاہ کی دل میں نصوح سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ اس نے نصوح کو پیغام بھیجا کہ بادشاہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں مہربانی کرکے دربار تشریف لے آئیں۔

جب نصوح کو بادشاہ کا پیغام ملا اس نے ملنے سے انکار کر دیا اور معذرت چاہی کہ مجھے بہت سارے کام ہیں میں نہیں آسکتا، بادشاہ کو بہت تعجب ہوا مگر اس بے نیازی کو دیکھ کر ملنے کی طلب اور بڑھ گئی۔ بادشاہ  نے کہا کہ اگر نصوح نہیں آسکتے تو ہم خود اس کے پاس جائیں گے۔
جب بادشاہ نصوح کے علاقے میں داخل ہوا، خدا کی طرف سے ملک الموت کو حکم ہوا کہ بادشاہ کی روح قبض کرلے۔
چونکہ بادشاہ بطور عقیدت مند نصوح کو ملنے آرہا تھا اور رعایا بھی نصوح کی خوبیوں کی گرویدہ تھی، اس لئے  نصوح کوبادشاہ کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔

نصوح نے اپنے ملک میں عدل اور انصاف کا نظام قائم کیا۔ وہی شہزادی جسے عورت کا بھیس بدل کر ہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈرتا تھا ،اس شہزادی نے نصوح سے شادی کرلی۔
ایک دن نصوح دربار میں بیٹھا لوگوں کی داد رسی کررہا تھا کہ ایک شخص وارد ہوا اور کہنے لگے کہ کچھ سال پہلے میری بھینس گم ہوگئی تھی ۔ بہت ڈھونڈا مگر نہیں ملی ۔ برائے مہربانی میری مدد فرمائیں۔ 

نصوح نے کہا کہ تمہاری بھینس میرے پاس ہے 
آج جو کچھ میرے پاس ہے وہ تمہاری بھینس کی وجہ سے ہے، نصوح نے حکم دیا کہ اس کے سارے مال اور دولت کا آدھا حصہ بھینس کے مالک کو دیا جائے۔
وہ شخص خدا کے حکم سے کہنے لگا: اے نصوح جان لو، نہ میں انسان ہوں اور نہ ہی وہ جانور بھینس ہے۔
بلکہ ہم دو فرشتے ہیں تمہارے امتحان کے لئے آئے تھے یہ سارا مال اور دولت تمہارے سچے دل سے توبہ کرنے کا نتیجہ ہے، یہ سب کچھ تمہیں مبارک ہو، وہ دونوں فرشتے نظروں سے غائب ہوگئے۔ 

اسی وجہ سے سچے دل سے  توبہ کرنے کو (توبه نصوح) کہتے ہیں. تاریخ کی کتب میں نصوح کو بنی اسرائیل کے ایک بڑے عابد کی حیثیت سے لکھا گیا ہے۔ 

کتاب: مثنوی معنوی، دفتر پنجم
انوار المجالس صفحہ 432۔

سبق: نصوح رزق کمانے کے لئے اللہ کا نا پسندیدہ کام کیا کرتا تھا۔ جب وہ کام للہ کے خوف کی وجہ سے چھوڑا تو اللہ نے رزق کے اسباب پیدا کئے اور بادشاہت تک عطا کر دی۔ حرام طریقے سے لذت حاصل کرنا چھوڑا تو اللہ نے نکاح میں شہزادی دے دی

اللہ تعالی سب کو توبہ کرنے، اور تا دم مرگ اس توبہ پر قائم رہنے کی توفیق فرمائے آمین

حضرت مفتی سعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ

مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری نور اللہ مرقدہ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کا سحر آفریں خطاب

ہمارے اور آپ کے آقا ،تاج دار مدینہ،سرکار دو عالم،محبوب رب العالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے؛"بعثت معلما"کہ مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے،آپ کے ختم الرسل،خاتم الانبیاء اور اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ہونے کے ساتھ جو سب سے بڑی خوبی اور امتیازی شان آپ میں پائی جاتی تھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کے لئے معلم اور مثالی استاذ ہونا تھا۔یہ امتیازی صفت اور خصوصی شان آپ کے بعض امتی کو بھی عطا کی گئی ۔چنانچہ حضرت الاستاذ حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند نور اللہ مرقدہ و برد مضجعہ(1940....2020)
بھی ان خاصان خاص بندوں میں سے تھے جو واقعۃ ایک محبوب اور مثالی استاذ تھے۔
دارالعلوم کے تمام طلبہ کے دلوں میں ان کے تئیں قدرومنزلت،حب و اکرام کا جو جذبہ ہم نے دیکھا وہ کہیں اور نظر نہیں آیا، یہ سنہ1992ء کی بات ہے جب میں دیوبند میں دورہ حدیث میں زیر تعلیم تھا نظام تدریس اپنی پوری جلوہ سامانیوں کے ساتھ رواں دواں تھا کہ ہمارے ملک کی فضا کچھ سیاستدانوں کے سیاسی داؤ پیچ اور خود کو نفع اور دوسروں کو ضرر پہونچانے کے لیے نفرت کے زہر سے مسموم بنائی جانے لگی اور اس نفرت کا اثر  نفرت کے پجاریوں کے درمیان پروان چڑھتے چڑھتے نوبت اس حد تک جا پہونچی کہ6دسمبرسنہ1992  ہندوستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن بن گیا جس دن مسلمانوں کی  تاریخی عبادتگاہ بابری مسجد کو مسمار کردیا گیا
یہ حادثہ کیا رونما ہوا اور یہ خبر کیا کانوں سے ٹکرائی کہ ہر طرف بے چینی و اضطراب کا عالم بپا ہوگیا،جگہ جگہ ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے ۔دیوبند بھی ایک حساس علاقہ ہے مزید برآں دارالعلوم جیسا عظیم ادارہ موجود ہے جہاں بیشتر جواں سال ہزاروں غیور طلبہ زیر تعلیم رہتے ہیں وہ بھی فطرۃ اس واقعہ سے کافی متاثر ہوئے وہ غیرت دینی اور حمیت اسلامی کے جذبہ سے سرشار ہو کر مختلف گیٹ سے حکومت اور اس شرمناک حرکت کے خلاف احتجاجاً باہر نکل گئے۔ان احتجاج کرنے والوں پر اس وقت کسی فساد ی نے گولی چلا دی جس سے ہمارا ایک ساتھی شہید ہوگیا،ہم نے اس کی قسمت کو سلام کیا اور اس کے نصیب پر عش عش،کیوں کہ ہم سب بھی اسی جذبہ سے سرشار اور اسی جوش سے لبریز تھے۔
طلبہ اس خوش نصیب شہید کی نماز جنازہ پڑھنے کے لئے جوق در جوق احاطہ مولسری میں اکٹھا ہونے لگے تاکہ اس بابرکت جنازہ میں شریک ہوکر اپنے لئے سامان مغفرت کا انتظام کرسکیں پھر چند ذمہ دار حضرات جنازہ کو لے کر قبرستان قاسمی چلے گئے اور اب  تمام گیٹ بند کئے جاچکے تھے۔طلبہ گیٹ کی طرف بھاگے جارہے تھے سبھی بڑے بڑے اساتذہ کرام انھیں منتشر کررہے تھے،انھیں سمجھا رہے تھےاور ہر نامعقول ضرر رساں اقدام سے باز رکھنے اور رہنے کی کوشش کررہے تھے مگر یہ ہجوم بے قابو تھا۔
دارالعلوم کے درودیوار  تکبیر کے فلک شگاف نعروں سے گونج رہا تھا ہر ایک  جذبہ ایمانی اور جوش جانفشانی سے لبریز تھا اور اسے عین وقت کا تقاضا سمجھ رہا تھا؛ یہی وجہ تھی کہ وہ اساتذہ کے منع کرنے کے باوجود باز نہیں آرہا تھا جب کہ وہ انہیں اساتذہ کے ایک حکم بلکہ ایک اشارہ کے سامنے اپنی پلکیں بچھانے کو اپنی سعادت سمجھتا تھا اسی افراتفری اور اضطرابی کیفیت میں اعلان ہوتا ہے کہ سبھی طلبہ عزیز سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ دارالحدیث میں جمع ہو جائیں،مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری  خطاب فرئیں گے۔
اس پیغام کو سننے کے بعد سبھی طلبہ نے دارالحدیث کا رخ کیا خیال یہ تھا کہ آج مفتی صاحب ہمارے دلوں میں جہاد کی روح پھونکیں گے اور بذات خود ہمارے اس قافلہ کی قیادت کریں گے اور ہمارا یہ لشکر ،اسلام کے اس مایہ ناز سپوت کی سپہ سالاری میں باطل کی صفوں میں شگاف اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دےگا۔
مفتی صاحب نے آیت جہاد "ان اللہ اشتری من  الخ"کی تلاوت فرمائی،تو ہمارے خیال کو مزید تقویت حاصل ہوئی۔مگر جب مفتی صاحب نے اس کی تشریح و تفسیر فرمائی؛تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور دل و دماغ کے دریچے وا ہوگئے کہ جہاد کا اصل طریقہ،روح اور مقصد کیاہے؟مفتی صاحب نے فرمایا کہ دیکھو بچو!  آیت میں ارشاد باری ہے
' یقاتلون فی سبیل اللہ فیقتلون ویقتلون"یعنی ایمان والے لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں پھر وہ قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں
آیت میں اس بات کی طرف صاف اشارہ ہے کہ باطل سے مقابلہ میں جب زور آزمائی ہو تو ہماری تیاری اتنی ہونی چاہیۓ کہ ہم انہیں پہلے پچھاڑ سکیں اب اپنی حالت پر خود غور کرلو۔اس لئے احتجاج میں دارالعلوم سے باہر نکلنا اور کوئی حرکت انجام دینا خودکشی کے مترادف ہوگا۔
یہ تو مفتی صاحب کی بات کا خلاصہ تھا جسے انھوں نے ایک خاص انداز اور مسحور کن پیرائے میں بیان فرمایا جو طلبہ کے اس بپھرے ہجوم پر ایسا اثر انداز ہوا جس نے سینکڑوں طلبہ کی جان بچائی اور اہل خانہ کو اپنے لاڈلوں کی محرومی سے بھی محفوظ رکھا۔
وہ جذبہ جو درحقیقت جنون تھااور وہ خیال جو در اصل ناپختگی کا اثر تھا ایک کہنہ مشق حکیم کی بر وقت  تشخیص اور دوا سے فی الفور کافور ہو گیا۔طلبہ نے ہوش کے ناخن لئے،سنجیدگی  کا دامن تھاما،اور ایک ناقابل تلافی نقصان سے خود کو اور دارالعلوم کو بچالیا۔
حضرت الاستاذ حضرت مفتی صاحب کی زندگی کا ایک دوسرا پہلو جو میرے لئے بہت نمایاں تھا وہ آپ کا سلام میں پہل سے متعلق ہے ،مجھے کسی نے بتایا کہ مفتی صاحب سلام میں بہت سبقت کرتے ہیں یہاں تک کہ ہم کوشش کے باوجود  سلام کی ابتدا نہیں کرپاتے،یہ بات مجھے بہت عجیب وغریب معلوم ہوئی اور بے حد اچنبھا بھی ہوا کیوں کہ میں اسے طالب علم(ناقل) کی کوتاہی سمجھ رہا تھا کہ یہ خود سلام میں تاخیر کرتا ہوگا تا آنکہ استاذ محترم خود تعلیما سلام کردیتے ہوں گے لہٰذا راقم الحروف نے خود تجربہ کی ٹھانی،تو بات بالکل سچ ثابت ہوئی میں نے کئی بار معراج گیٹ سے گزرتے ہوئے مفتی صاحب سے سلام کرنے میں سبقت کی کوشش کی مگریہ سعادت کبھی مجھے حاصل نہیں ہوئی کیوں کہ میں رفیق تھا اور وہ سعید تھے اسم با مسمی تھے۔
بہرحال مفتی صاحب کے حیات کے یہ چند گوشے تھے جسے آپ حضرات کے ساتھ شیئر  کررہاہوں یوں تو آپ کی حیات کا ایک ایک لمحہ قابل رشک اور نمونہ اسلاف ہے،جن کا احاطہ آپ کی سوانح حیات میں قلم بند ہوکر منظر عام پر آئے گا اور انشاء اللہ باصرہ نواز ہوگا۔

رفیق احمد اعظمی قاسمی
قاضی پورہ گھوسی مئو

قندیل: ادبیات نظم

وہ پھینکیں گے

فیض سے معذرت کے ساتھ!!

مَیَنک

وہ پھینکیں گے

لازم ہے کہ وہ تو پھینکیں گے

اچھے دن جن کا وعدہ تھا

جو ہر پوسٹر پر لکھا تھا

وہ پھینکیں گے

جب ظلم و ستم کے کوہ گراں

جنتا کے سر پڑ جائیں گے

ہم محکو موں کے پاؤں تلے

دھرتی پل پل کھسکے گی

اور ان کے بھاشن میں جھوٹوں کی

پھر پائل کھن کھن کھنکے گی

وہ پھینکیں گے

جب اکانومی کی لاش گرا

اس پر وہ جشن منائیں گے

جب تعلیم اور روٹی غائب کر

سی اے اے وہ کروا ئیں گے

روزگار گھٹا ئے جائیں گے

اور قیمتیں اچھالی جائیں گی

وہ پھینکیں گے

بس نام رہے گا جنتا کا

جو بھوکی بھی ہے گھائل بھی

اور بھکت کریں گے رقص یہاں

ہر جھوٹ کے ہیں جو قائل بھی

اٹھے گا تب ہر حق کا نعرہ

جو اپنا اس کا سب کا ہو

اور ساتھ اٹھیں گے سارے سر

جنتا کا جو وہ رب کا ہو

ہم لاٹھی گو لی کھائیں گے

لیکن کاغذ نہیں دکھائیں گے

ہم دیکھیں گے

وہ پھینکیں گے

لازم ہے کہ وہ تو پھینکیں کے

ہم دیکھیں گے

ہندی سے ترجمہ: محمدامانت اللہ

مسلم قوم کو ایک سبق

اس موقع پر ایک بات عرض کروں وہ یہ کہ ۹ /نومبر کو بابری مسجد پر فیصلہ آنے کے بعد میڈیا والوں نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے سوال کیا کہ کیا آپ اب بنارس کی گیان واپی اور متھرا کی شاہی مسجد کے خلاف تحریک چلائیں گے، تو بھاگوت نے اس وقت بہت شاندار جواب دیا جس سے نہ صرف آر ایس ایس کی پالیسی کا پتہ چلتا ہے بل کہ اس کی کامیابی کا راز بھی عیاں ہوجاتا ہے، موہن بھاگوت نے کہا کہ "ہم تحریکیں نہیں چلاتے بل کہ افراد پیدا کرتے ہیں"
اس جواب نے یقینا ہم جیسے لوگوں کو ایک بڑا سبق دے دیا اور راہ بھی دکھلا دی، ہمیں بھی ضرورت ہے کہ ہم اپنی تنظیموں اور اداروں کو اسی نقطۂ نظر سے دیکھیں اور انھیں ہر طرح کے شرور و فتن سے محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں
اداروں سے افراد تیار ہوں جو ضرورت کے مطابق الگ الگ تنظیموں کو جنم دیں اور میدان میں تحریکیں چلائیں،  ہر مسئلے میں ہم اپنی سر پرست تنظیموں کی طرف پر امید نگاہوں سے نہ دیکھیں، ہاں ان کی رہنمائی اور مشورہ ضرور طلب کرتے رہیں، ایسی صورت میں کاموں کی تقسیم بھی ہوجائے گی اور ہماری تنظیمیں اور ادارے بھی ہر طرح کی بری نگاہوں سے محفوظ رہیں گے اور افراد سازی کا کام جاری رکھیں گے،  لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نظریاتی اعتبار سے اپنے سرپرست اداروں اور تنظیموں کے ساتھ جڑ کر تمام ملی، سماجی و سیاسی امور انجام دیں، اسی میں قوم کی بھلائی اور کامیابی ہے

AlHudaClasses

Daily English Phrase

keep the ball rolling کام کو جاری رکھنا We realised we would need outside funding to keep the ball rolling. ہم نے محسوس کیا کہ کام کو جاری ر...