Al-Huda Classes YouTube Link
Labels
- Article (1)
- Daily English Phrases (2)
- English Expressions (1)
- English Phrases (1)
- General Articles (28)
- Learning English Expressions (2)
- Let's Learn English (71)
- M Khursheeed Alam (24)
- Malfoozat Hakimul-Ummah (English) (5)
- Malfoozat Hakimul-Ummah (Urdu) (5)
- Obituary (6)
- Photos (4)
- Poetry (3)
- Press Release (3)
- Shamsul Huda Qasmi (33)
- Urdu Articles (28)
- YouTube (66)
- آؤ انگلش سیکھیں (71)
- मलफ़ूज़ात हकीमुल उम्मत (हिन्दी) (5)
Search This Blog
Characteristics of Good Students
اچھے استاذ کی خصوصیات
زوالِ تدريس
بسم اللّه الرحمن الرحيم
شیخ الاسلام مفتی اعظم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا ارطغرل فلم کے بارے میں امت مسلمہ کو درد بھرا اصولی دعوت وپیغام
شیخ الاسلام مفتی اعظم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا ارطغرل فلم کے بارے میں امت مسلمہ کو درد بھرا اصولی دعوت و پیغام
ارطغرل اور تصویر ویڈیو وغیرہ کو دین کے لیے استعمال کرنے والوں کے لیے حضرت کا درد بھرا مضمون۔ پینتیس چالیس سال قبل بھی کچھ دین کے نام پر فلمیں وغیرہ بنائی گئی تھیں اور ان کی افادیت کا پرچار کیا گیا تھا جیسا کہ آج کیا جارہا ہے جس کا رد حضرت کے فصیح و بلیغ قلم سے ملاحظہ فرمائیں
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہم لکھتے ہیں
دار العلوم دیوبند کی تاریخِ تاسیس اور مسلمانوں کے لئے ہجری اور عیسوی کیلنڈروں کا استعمال: ایک تبصرہ
دار العلوم دیوبند کی تاریخِ تاسیس اور مسلمانوں کے لئے ہجری اور عیسوی کیلنڈروں کا استعمال: ایک تبصرہ
حضرت مولانا کے مضمون میں کچھ شدت داخل ہوگئی ہے. میرے خیال میں ہجری کیلنڈر اور عیسوی/انگریزی کیلنڈر دونوں ہمارے لئے موجودہ زمانے میں مفید ہیں.
ہجری کیلنڈر کا نام اور اس کا شمار تو ہجرتِ رسول علیہ الصلوۃ والسلام سے ہوتا ہے مگر اس کی ابتدا حضرت عمر رضی اللہ کے زمانہِ خلافت سے ہوئی ہے. حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہجری کیلنڈر کا وجود نہیں تھا بلکہ آپ کی وفات کے بعد خلافتِ صدیقی میں بھی. اِس طرح اسلام کے ابتدائی تقریباً 30 سال ہجری کیلنڈر سے خالی رہے مگر ہجری تقویم کے مشمولات یعنی بارہ قمری مہینے وہی باقی رہے جو اسلام سے پہلے سے چلے آرہے تھے اور اسلام نے اس کو باقی رکھا. اسے کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ قمری مہینوں کی بنیاد رویتِ ہلال پر ہوتی ہے جس میں دن کبھی 29 اور کبھی 30 ہوتے ہیں.
اب ملک کے عرفِ عام میں تاریخ اور سال کا اطلاق چونکہ عیسوی/انگریزی کیلنڈر کی تاریخ اور سال پر ہوتا ہے اور اسلام میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے لہذا انگریزی کیلنڈر کو برتنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے بلکہ اگر کسی معاملے، لین دین، معاہدے وغیرہ میں ہجری کیلنڈر وتاریخ کی صراحت نہ کی گئی ہو تو وہاں عرف کا لحاظ کرتے ہوئے شرعاً انگریزی کیلنڈر کا ہی اعتبار ہوگا.
اسی طرح چونکہ دار العلوم دیوبند ہندوستان میں واقع ہے جہاں کے عرفِ عام میں کیلنڈر اور سالوں کو شمار کرنا عیسوی کیلنڈر کے مطابق ہوتا ہے لہذا کسی کا یہ کہنا کہ دار العلوم کی تاسیس 1866 میں ہوئی اور اس کے قیام پر 154 سال ہوگئے غلط نہیں ہوگا، مطابقِ واقعہ ہوگا. اس پر اعتراض کرنا نامناسب اور یہ کہنا کہ انگریزی تاریخ اور سن کے لحاظ سے حساب لگانے کی صورت میں ہم دار العلوم کی تاریخ میں سے پانچ سال کم یا ضائع کررہے ہیں حیران کن ہے. عیسوی کیلنڈر سے ہٹ کر اگر ہجری کے مطابق کسی کو کچھ کہنا ہوگا تو ہجری کی صراحت اور قید بڑھانی ہوگی کیونکہ اسے بڑھائے بغیر اس عرف کے خلاف ہوگا جس کو شریعت نے تسلیم کیا ہے.
لہٰذا اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ دار العلوم کی تاسیس 1866 میں ہوئی اور 2020 میں اس کے قیام پر 154 سال مکمل ہوگئے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا، قابلِ اصلاح نہیں ہوگا بلکہ یہی اصل ہوگا اور ہجری سن اورسال کو بتانے کی صورت میں ہجری سن وتاریخ کی صراحت ضروری ہوگی.
خلاصہ یہ کہ ہجری اور عیسوی دونوں کیلنڈر درست ہیں، دونوں ہمارے لئے مفید ہیں. (عیسوی کیلنڈر کی افادیت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ اس کی شروعاتی تاریخ اور ابتداء کیسی رہی.) اور دونوں کیلنڈروں کے مطابق دار العلوم کی تاسیس کی بات کہی جاسکتی ہے، البتہ ہجری کہنے کی صورت میں ہجری کی صراحت ضروری ہوگی.
محمد عبید اللہ قاسمی، دہلی
مسجدوں میں نماز پڑھنے والے وہ پانچ افراد کون ہوں گے؟
مسجدوں میں نماز پڑھنے والے وہ پانچ افراد کون ہوں گے ـ
ــــــــــــــــــــــ
از ـ محمود احمد خاں دریابادی
خبریں گرم ہیں کہ ۸ جون بروز پیر سے مسجدوں سمیت تمام عبادت گاہیں کھولی جارہی ہیں ـ اس سلسلے میں پہلی وضاحت تو یہ کرنی ہے کہ ممبئی اور مہاراشٹر میں ۸ جون سے کوئی عبادت گاہ نہیں کھل رہی ہے ـ حکومت مہاراشٹر کی جانب سے ۳۱ مئی کو جو ہدایات جاری ہوئی تھیں اُس میں صاف لکھا ہوا ہے کہ ساری عبادت گاہیں تا اطلاع ثانی بدستور بند رہیں گی ـ آج ممبئی پولیس کی اشپیشل برانچ کے ایڈیشنل کمشنر مسٹر کولے نے بھی اپنے پیغام میں یہ یاد دہانی کرائی ہے ـ
دوسری ضروری بات یہ ہے کہ جن ریاستوں میں عبادت گاہیں پیر سے کھل جائیں گی وہاں بھی لوگوں کو عبادت گاہوں میں داخلے کی محدود اجازت ہوگی ـ یوپی کے وزیر اعلی کا ایک بیان بھی نظر سے گزرا ہے کہ عبادت گاہوں میں بیک وقت صرف پانچ افراد کے داخلے کی اجازت ہوگی ـ
ذرا سوچئے مسجد میں صرف پانچ آدمی نماز پڑھیں گے تو وہ پانچ کون ہوں گے، اُن کے انتخاب کا طریقہ کیا ہوگا، کچھ دبنگ افراد ہر جگہ ہوتے ہیں وہ ہر نماز میں زبردستی گھسنا چاہیں گے اس طرح ہر نماز میں مستقل جھگڑے کی شکل بنے گی، جمعہ کی نماز میں کیا ہوگا؟ .........کیا حکومت یہ چاہتی ہے کہ مسلمان آپس میں ہی لڑ مریں اور پولیس کو دونوں طرف سے کمائی کا موقع ملتا رہے ؟
اس لئے عبادت گاہوں کے کھلنے کے اِس اعلان سے ہم مسلمانوں کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں، الحمدللہ ہماری مسجدیں آباد ہیں، مسجد کا عملہ مساجد میں باجماعت نمازیں ادا کررہا ہے، تراویح، جمعہ اور عید کے موقع پر مسجدوں میں یہی صورت حال رہی ہے ـ یہاں یہ واضح کردینا بھی ضروری ہے کہ ہر مسجد میں امام، موذن اور دیگر خدام کے ساتھ تقریبا چار پانچ افراد تو پہلے ہی نمازیں ادا کررہے ہیں،........... ابھی تک حکومت کی طرف سے ایسی کوئی وضاحت بھی نہیں آئی ہے کہ جن پانچ افراد کو نماز کی اجازت دی جائیگی اُن میں مسجد کا عملے کا شمار ہوگا یا نہیں ـ
اس لئے ہماری رائے یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ہر محلے میں آپسی جھگڑا پیدا کرنے کے بجائے بہتر ہوگا کہ ابھی مسجدیں پوری طرح نہ کھولی جائیں، حسب سابق اذان ہوتی رہے اور مسجد کا عملہ نماز باجماعت ادا کرتا رہے، اس دوران ملت کے ذمہ داران حکومت کے رابطے میں رہیں، مساجد اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں نیز مسلمانوں اور دوسروں کے طریقہ عبادت کے درمیان فرق کو واضح کریں .........ساتھ ہی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھ کر مسجدوں میں حاضری کے لئے مزید افراد کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کریں ـ
اللہ کے عذاب سے بچو!
نصوح ایک عورت نما آدمی
حضرت مفتی سعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ
مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری نور اللہ مرقدہ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کا سحر آفریں خطاب
ہمارے اور آپ کے آقا ،تاج دار مدینہ،سرکار دو عالم،محبوب رب العالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے؛"بعثت معلما"کہ مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے،آپ کے ختم الرسل،خاتم الانبیاء اور اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ہونے کے ساتھ جو سب سے بڑی خوبی اور امتیازی شان آپ میں پائی جاتی تھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کے لئے معلم اور مثالی استاذ ہونا تھا۔یہ امتیازی صفت اور خصوصی شان آپ کے بعض امتی کو بھی عطا کی گئی ۔چنانچہ حضرت الاستاذ حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند نور اللہ مرقدہ و برد مضجعہ(1940....2020)
بھی ان خاصان خاص بندوں میں سے تھے جو واقعۃ ایک محبوب اور مثالی استاذ تھے۔
دارالعلوم کے تمام طلبہ کے دلوں میں ان کے تئیں قدرومنزلت،حب و اکرام کا جو جذبہ ہم نے دیکھا وہ کہیں اور نظر نہیں آیا، یہ سنہ1992ء کی بات ہے جب میں دیوبند میں دورہ حدیث میں زیر تعلیم تھا نظام تدریس اپنی پوری جلوہ سامانیوں کے ساتھ رواں دواں تھا کہ ہمارے ملک کی فضا کچھ سیاستدانوں کے سیاسی داؤ پیچ اور خود کو نفع اور دوسروں کو ضرر پہونچانے کے لیے نفرت کے زہر سے مسموم بنائی جانے لگی اور اس نفرت کا اثر نفرت کے پجاریوں کے درمیان پروان چڑھتے چڑھتے نوبت اس حد تک جا پہونچی کہ6دسمبرسنہ1992 ہندوستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن بن گیا جس دن مسلمانوں کی تاریخی عبادتگاہ بابری مسجد کو مسمار کردیا گیا
یہ حادثہ کیا رونما ہوا اور یہ خبر کیا کانوں سے ٹکرائی کہ ہر طرف بے چینی و اضطراب کا عالم بپا ہوگیا،جگہ جگہ ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے ۔دیوبند بھی ایک حساس علاقہ ہے مزید برآں دارالعلوم جیسا عظیم ادارہ موجود ہے جہاں بیشتر جواں سال ہزاروں غیور طلبہ زیر تعلیم رہتے ہیں وہ بھی فطرۃ اس واقعہ سے کافی متاثر ہوئے وہ غیرت دینی اور حمیت اسلامی کے جذبہ سے سرشار ہو کر مختلف گیٹ سے حکومت اور اس شرمناک حرکت کے خلاف احتجاجاً باہر نکل گئے۔ان احتجاج کرنے والوں پر اس وقت کسی فساد ی نے گولی چلا دی جس سے ہمارا ایک ساتھی شہید ہوگیا،ہم نے اس کی قسمت کو سلام کیا اور اس کے نصیب پر عش عش،کیوں کہ ہم سب بھی اسی جذبہ سے سرشار اور اسی جوش سے لبریز تھے۔
طلبہ اس خوش نصیب شہید کی نماز جنازہ پڑھنے کے لئے جوق در جوق احاطہ مولسری میں اکٹھا ہونے لگے تاکہ اس بابرکت جنازہ میں شریک ہوکر اپنے لئے سامان مغفرت کا انتظام کرسکیں پھر چند ذمہ دار حضرات جنازہ کو لے کر قبرستان قاسمی چلے گئے اور اب تمام گیٹ بند کئے جاچکے تھے۔طلبہ گیٹ کی طرف بھاگے جارہے تھے سبھی بڑے بڑے اساتذہ کرام انھیں منتشر کررہے تھے،انھیں سمجھا رہے تھےاور ہر نامعقول ضرر رساں اقدام سے باز رکھنے اور رہنے کی کوشش کررہے تھے مگر یہ ہجوم بے قابو تھا۔
دارالعلوم کے درودیوار تکبیر کے فلک شگاف نعروں سے گونج رہا تھا ہر ایک جذبہ ایمانی اور جوش جانفشانی سے لبریز تھا اور اسے عین وقت کا تقاضا سمجھ رہا تھا؛ یہی وجہ تھی کہ وہ اساتذہ کے منع کرنے کے باوجود باز نہیں آرہا تھا جب کہ وہ انہیں اساتذہ کے ایک حکم بلکہ ایک اشارہ کے سامنے اپنی پلکیں بچھانے کو اپنی سعادت سمجھتا تھا اسی افراتفری اور اضطرابی کیفیت میں اعلان ہوتا ہے کہ سبھی طلبہ عزیز سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ دارالحدیث میں جمع ہو جائیں،مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری خطاب فرئیں گے۔
اس پیغام کو سننے کے بعد سبھی طلبہ نے دارالحدیث کا رخ کیا خیال یہ تھا کہ آج مفتی صاحب ہمارے دلوں میں جہاد کی روح پھونکیں گے اور بذات خود ہمارے اس قافلہ کی قیادت کریں گے اور ہمارا یہ لشکر ،اسلام کے اس مایہ ناز سپوت کی سپہ سالاری میں باطل کی صفوں میں شگاف اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دےگا۔
مفتی صاحب نے آیت جہاد "ان اللہ اشتری من الخ"کی تلاوت فرمائی،تو ہمارے خیال کو مزید تقویت حاصل ہوئی۔مگر جب مفتی صاحب نے اس کی تشریح و تفسیر فرمائی؛تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور دل و دماغ کے دریچے وا ہوگئے کہ جہاد کا اصل طریقہ،روح اور مقصد کیاہے؟مفتی صاحب نے فرمایا کہ دیکھو بچو! آیت میں ارشاد باری ہے
' یقاتلون فی سبیل اللہ فیقتلون ویقتلون"یعنی ایمان والے لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں پھر وہ قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں
آیت میں اس بات کی طرف صاف اشارہ ہے کہ باطل سے مقابلہ میں جب زور آزمائی ہو تو ہماری تیاری اتنی ہونی چاہیۓ کہ ہم انہیں پہلے پچھاڑ سکیں اب اپنی حالت پر خود غور کرلو۔اس لئے احتجاج میں دارالعلوم سے باہر نکلنا اور کوئی حرکت انجام دینا خودکشی کے مترادف ہوگا۔
یہ تو مفتی صاحب کی بات کا خلاصہ تھا جسے انھوں نے ایک خاص انداز اور مسحور کن پیرائے میں بیان فرمایا جو طلبہ کے اس بپھرے ہجوم پر ایسا اثر انداز ہوا جس نے سینکڑوں طلبہ کی جان بچائی اور اہل خانہ کو اپنے لاڈلوں کی محرومی سے بھی محفوظ رکھا۔
وہ جذبہ جو درحقیقت جنون تھااور وہ خیال جو در اصل ناپختگی کا اثر تھا ایک کہنہ مشق حکیم کی بر وقت تشخیص اور دوا سے فی الفور کافور ہو گیا۔طلبہ نے ہوش کے ناخن لئے،سنجیدگی کا دامن تھاما،اور ایک ناقابل تلافی نقصان سے خود کو اور دارالعلوم کو بچالیا۔
حضرت الاستاذ حضرت مفتی صاحب کی زندگی کا ایک دوسرا پہلو جو میرے لئے بہت نمایاں تھا وہ آپ کا سلام میں پہل سے متعلق ہے ،مجھے کسی نے بتایا کہ مفتی صاحب سلام میں بہت سبقت کرتے ہیں یہاں تک کہ ہم کوشش کے باوجود سلام کی ابتدا نہیں کرپاتے،یہ بات مجھے بہت عجیب وغریب معلوم ہوئی اور بے حد اچنبھا بھی ہوا کیوں کہ میں اسے طالب علم(ناقل) کی کوتاہی سمجھ رہا تھا کہ یہ خود سلام میں تاخیر کرتا ہوگا تا آنکہ استاذ محترم خود تعلیما سلام کردیتے ہوں گے لہٰذا راقم الحروف نے خود تجربہ کی ٹھانی،تو بات بالکل سچ ثابت ہوئی میں نے کئی بار معراج گیٹ سے گزرتے ہوئے مفتی صاحب سے سلام کرنے میں سبقت کی کوشش کی مگریہ سعادت کبھی مجھے حاصل نہیں ہوئی کیوں کہ میں رفیق تھا اور وہ سعید تھے اسم با مسمی تھے۔
بہرحال مفتی صاحب کے حیات کے یہ چند گوشے تھے جسے آپ حضرات کے ساتھ شیئر کررہاہوں یوں تو آپ کی حیات کا ایک ایک لمحہ قابل رشک اور نمونہ اسلاف ہے،جن کا احاطہ آپ کی سوانح حیات میں قلم بند ہوکر منظر عام پر آئے گا اور انشاء اللہ باصرہ نواز ہوگا۔
رفیق احمد اعظمی قاسمی
قاضی پورہ گھوسی مئو
Al-Huda Classes
Motivational Quotes
Some Motivational Quotes: 1. "Believe you can, and you’re halfway there." یقین رکھو کہ تم کر سکتے ہو، اور تم آدھے راستے پر پہنچ جا...