شیخ الاسلام مفتی اعظم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا ارطغرل فلم کے بارے میں امت مسلمہ کو درد بھرا اصولی دعوت و پیغام
ارطغرل اور تصویر ویڈیو وغیرہ کو دین کے لیے استعمال کرنے والوں کے لیے حضرت کا درد بھرا مضمون۔ پینتیس چالیس سال قبل بھی کچھ دین کے نام پر فلمیں وغیرہ بنائی گئی تھیں اور ان کی افادیت کا پرچار کیا گیا تھا جیسا کہ آج کیا جارہا ہے جس کا رد حضرت کے فصیح و بلیغ قلم سے ملاحظہ فرمائیں
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہم لکھتے ہیں
اس فلم کے بارے میں ایک اور پروپیگنڈہ بڑے شدومد سے یہ کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ میں بڑی مدد ملی ہے۔ اور ہزاروں غیر مسلم اسے دیکھ کر مسلمان ہوگئے ہیں۔ اول تو یہ بات بھی پہلی بات کی طرح بے بنیاد پروپیگنڈا ہے۔ ایک معمولی سمجھ کے انسان کے لیے بھی یہ باور کرنا مشکل ہے کہ ایسی فلم کو دیکھ کر ہزاروں انسان اسلام میں داخل ہوگئے ہوں۔ لیکن اگر بالفرض یہ تماشا دیکھ کر کچھ لوگوں کے دل واقعی اسلام کی طرف مائل ہوتے ہیں تو آخر یہ کیوں فرض کر لیا گیا کہ اسلام کی تبلیغ اور لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے ہر طریقہ استعمال کرنا جائز ہے خواہ وہ اسلامی اصولوں کے کتنا خلاف ہو اگر”تبلیغِ اسلام“ کی خاطر اس دلیل کو قبول کر لیا جائے تو کل کو یہی دلیل بنفسِ نفیس سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ دکھانے کے لیے بھی پیش کی جاسکتی ہے۔
”تبلیغِ اسلام“ کا اتنا”درد“ رکھنے والے ان حضرات کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام نے اپنی تبلیغ کے لیے بھی کچھ خاص اصول مقرر فرمائے ہیں، جو تبلیغ ان اصولوں کو توڑ کر کی جائے وہ اسلام کے ساتھ دوستی نہیں، دشمنی ہے۔ یہ کوئی عیسائیت یا کمیونزم نہیں ہے جو اپنے نظریات کے پرچار کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقِ کار کو رواں رکھتا ہو، جسے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے اپنے اکابر کی حرمت کا بھی پاس نہ ہو اور جو دنیا میں محض ہم نواؤں کی تعداد بڑھانے کے لیے اپنی عورتوں کی عصمت بھی داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہو۔
سوال یہ ہے کہ اگر کسی زمانے یا کسی خطے کے لوگ موسیقی کے ذریعے اسلام کی طرف مائل ہو سکتے ہیں تو کیا”تبلیغِ اسلام“ کی خاطر طبلے سارنگی پر قرآن سنانے کی اجازت دے دی جائے گی؟ اگر کسی علاقے کے لوگوں کا سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ دیکھ کر مسلمان ہونا ممکن ہو تو کیا مسلمان (معاذاللہ) آپ ا کی فرضی تصویر شائع کرنے کو تیار ہو جائیں گے؟ اگر مسلم عورتوں کے رقص و سرود سے متاثر ہو کر کچھ لوگ مسلمان ہونے پر آمادہ ہوں تو کیا ان کے پاس”تبلیغِ اسلام“ کے لیے رقاصاؤں کے طائفے بھیجے جائیں گے؟
یہ آخر کیا طرزِ فکر ہے کہ دنیا میں جس جس برائی کا چلن عام ہو جاتا ہے اسے نہ صرف جائز اور حلال کرتے جاؤ بلکہ اسلام کی تبلیغ و ترقی کے لیے اس کے استعمال کو بھی ناگزیر قرار دو، آنحضرت ا کی جس سیرتِ طیبہ کو فلما کر اسے تبلیغِ اسلام کا نام دیا جارہا ہے اس سیرتِ طیبہ کا سبق تو یہ ہے کہ حق کی تبلیغ و اشاعت صرف حق طریقوں سے ہی کی جاسکتی ہے۔ اگر حق کی تبلیغ کے لیے اس میں کسی باطل کی آمیزش اسلام کو گوارا ہوتی تو عہدِ رسالت کے مسلمانوں کو وہ اذیتیں برداشت نہ کرنی پڑتیں جن کے واقعات پر اس فلم کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ عہدِ رسالت کے مسلمانوں کو سب سے بڑی تربیت تو یہ دی گئی تھی کہ وہ اپنے آپ کو زمانے کے ہر غلط بہاؤ کے آگے سپر ڈالنے کے بجائے زندگی کی آخری سانس تک اس سے لڑنے اور اسے صحیح سمت کی طرف موڑنے کی جدوجہد کریں اور اس راہ میں جو مشکلات پیش آئیں انھیں خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرنے کی عادت ڈالیں۔ اگر یہ بزرگ ایسا نہ کرتے اور زمانے کی ہر پھیلی ہوئی برائی کے آگے ہتھیار ڈالتے جاتے تو آج دین کی کوئی قدر بھی اپنے اصلی شکل میں محفوظ نہ رہ سکتی۔
(مضمون: عہد رسالت کی فلم بندی، کتاب: اصلاحِ معاشرہ ۲۳۱،۳۳۱)
No comments:
Post a Comment