Search This Blog

دار العلوم دیوبند کی تاریخِ تاسیس اور مسلمانوں کے لئے ہجری اور عیسوی کیلنڈروں کا استعمال: ایک تبصرہ

دار العلوم دیوبند کی تاریخِ تاسیس اور مسلمانوں کے لئے ہجری اور عیسوی کیلنڈروں کا استعمال: ایک تبصرہ

حضرت مولانا کے مضمون میں کچھ شدت داخل ہوگئی ہے. میرے خیال میں ہجری کیلنڈر اور عیسوی/انگریزی کیلنڈر دونوں ہمارے لئے موجودہ زمانے میں مفید ہیں.

ہجری کیلنڈر کا نام اور اس کا شمار تو ہجرتِ رسول علیہ الصلوۃ والسلام سے ہوتا ہے مگر اس کی ابتدا حضرت عمر رضی اللہ کے زمانہِ خلافت سے ہوئی ہے. حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہجری کیلنڈر کا وجود نہیں تھا بلکہ آپ کی وفات کے بعد خلافتِ صدیقی میں بھی. اِس طرح اسلام کے ابتدائی تقریباً 30 سال ہجری کیلنڈر سے خالی رہے مگر ہجری تقویم کے مشمولات یعنی بارہ قمری مہینے وہی باقی رہے جو اسلام سے پہلے سے چلے آرہے تھے اور اسلام نے اس کو باقی رکھا. اسے کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ قمری مہینوں کی بنیاد رویتِ ہلال پر ہوتی ہے جس میں دن کبھی 29 اور کبھی 30 ہوتے ہیں.

ہجری کیلنڈر کی شروعات سے پہلے سالوں کی تعداد بغیر ہجری لفظ کے محض اعداد سے شمار ہوتی تھی اور جب یہ بتانا ہوتا تھا کہ فلاں شخص کب پیدا ہوا یا کب وفات ہوئی وغیرہ تو اس سال کے کسی اہم واقعے کا ذکر کردیا جاتا تھا یا اتنے سال پیچھے کا عدد بتادیا جاتا تھا مثلاً دو سال پہلے، دس سال پہلے. سال اور مہینوں کا جو نظام پہلے سے چلا آرہا ہے تھا اسلام نے اس کو باقی رکھا اور  اپنی عبادات و شرعی امور میں جن میں تاریخوں یا سالوں کے حساب لگانے کی بات تھی، اسی کو بنیاد بنایا. بلوغت اور نصوص میں مذکور مہینوں وغیرہ میں اعتبار اسی بارہ قمری مہینوں والے سال کا ہے. پھر حضرت عمر نے سہولت اور اسلام کے اظہارِ شان کی خاطر بارہ قمری مہینوں والے سال کے نظام کو "ہجری" کیلنڈر کا نام دے دیا. ہجری کیلنڈر میں مہینے وہی رہے جو پہلے سے چلے آرہے تھے یعنی قمری مہینے. اب حضرت عمر کے ذریعے موسوم ہجری کیلنڈر مسلمانوں میں رائج ہوگیا اور الحمد للہ اب بھی رائج ہے. چونکہ قمری مہینوں اور تاریخوں کے مطابق ہی اسلام کی متعدد عبادات وغیرہ ادا کی جاتی ہیں لہٰذا ان مہینوں اور تاریخوں کا علم ضروری ہے بلکہ فرضِ کفایہ ہے کیونکہ مقدمۃ الواجب واجب مگر ہجری کیلنڈر کا علم یعنی یہ کہ اس کی شروعات کب ہوئی اور اس وقت سے اب تک کتنے سال ہوگئے اس کا علم ضروری نہیں ہے، کیونکہ اسلام کے کسی حکم کا مدار اس پر نہیں ہے، البتہ بہتر ضرور ہے. اس طرح قمری نظامِ تاریخ کی حفاظت مسلمانوں پر ضروری ہے. ہم اپنے معاشرے میں اس نظام کو جو حضرت عمر کے زمانے سے ہجری سے موسوم ہے اگر رواج دیں تو یہ بہتر اور افضل ہے.
مگر ہجری کیلنڈر کا نظام اگر محفوظ ہے اور تاریخ بگڑنے کا دور دور تک کوئی خطرہ نہیں ہے تو عیسوی/انگریزی کیلنڈر سے مسلمانوں کو اجتناب کرنے کی تلقین کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے اور بالخصوص ایسے زمانے میں جب پوری دنیا سمٹ کر ایک آنگن کی شکل اختیار کرچکی ہے اور پوری دنیا کا کاروبار، لین دین اور دیگر بین الاقوامی معاملات عیسوی کیلنڈر کے مطابق انجام پارہے ہیں. ہندوستان میں مسلمانی حکومت میں ہجری کیلنڈر استعمال ہوتا تھا. پھر جب انگریز ملک پر قابض ہوئے تو وہ عیسوی کیلنڈر ساتھ لائے اور ملک میں آہستہ آہستہ عیسوی کیلنڈر عموماً رائج ہوگیا. ہمارے اولین اکابرِ دیوبند افضل پر عمل کرنے کے عادی تھے نیز ان کے زمانوں میں عیسوی کیلنڈر ہمارے زمانے کے مقابلے میں نسبۃً کم رائج تھا لہٰذا وہ اپنی تحریروں میں عموماً ہجری تاریخیں لکھتے تھے. البتہ بعد کے بہتیرے اکابر اہم وثائق اور تحریرات میں انگریزی تاریخیں بھی ساتھ ساتھ لکھتے تھے، اور مولانا موصوف نے بھی اپنی تحریر کے اختتام پر ہجری کے ساتھ عیسوی تاریخ لکھنے کا اہتمام فرمایا ہے.

اب ملک کے عرفِ عام میں تاریخ اور سال کا اطلاق چونکہ عیسوی/انگریزی کیلنڈر کی تاریخ اور سال پر ہوتا ہے اور اسلام میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے لہذا انگریزی کیلنڈر کو برتنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے بلکہ اگر کسی معاملے، لین دین، معاہدے وغیرہ میں ہجری کیلنڈر وتاریخ کی صراحت نہ کی گئی ہو تو وہاں عرف کا لحاظ کرتے ہوئے شرعاً انگریزی کیلنڈر کا ہی اعتبار ہوگا.

اسی طرح چونکہ دار العلوم دیوبند ہندوستان میں واقع ہے جہاں کے عرفِ عام میں کیلنڈر اور سالوں کو شمار کرنا عیسوی کیلنڈر کے مطابق ہوتا ہے لہذا کسی کا یہ کہنا کہ دار العلوم کی تاسیس 1866 میں ہوئی اور اس کے قیام پر 154 سال ہوگئے غلط نہیں ہوگا، مطابقِ واقعہ ہوگا. اس پر اعتراض کرنا نامناسب اور یہ کہنا کہ انگریزی تاریخ اور سن کے لحاظ سے حساب لگانے کی صورت میں ہم دار العلوم کی تاریخ میں سے پانچ سال کم یا ضائع کررہے ہیں حیران کن ہے.  عیسوی کیلنڈر سے ہٹ کر اگر ہجری کے مطابق کسی کو کچھ کہنا ہوگا تو ہجری کی صراحت اور قید بڑھانی ہوگی کیونکہ اسے بڑھائے بغیر اس عرف کے خلاف ہوگا جس کو شریعت نے تسلیم کیا ہے.

لہٰذا اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ دار العلوم کی تاسیس 1866 میں ہوئی اور 2020 میں اس کے قیام پر 154 سال مکمل ہوگئے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا، قابلِ اصلاح نہیں ہوگا بلکہ یہی اصل ہوگا اور ہجری سن اورسال کو بتانے کی صورت میں ہجری سن وتاریخ کی صراحت ضروری ہوگی.

خلاصہ یہ کہ ہجری اور عیسوی دونوں کیلنڈر درست ہیں، دونوں ہمارے لئے مفید ہیں. (عیسوی کیلنڈر کی افادیت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا  کہ اس کی شروعاتی تاریخ اور ابتداء کیسی رہی.) اور دونوں کیلنڈروں کے مطابق دار العلوم کی تاسیس کی بات کہی جاسکتی ہے، البتہ ہجری کہنے کی صورت میں ہجری کی صراحت ضروری ہوگی.

محمد عبید اللہ قاسمی، دہلی

No comments:

Post a Comment

Al-Huda Classes

Motivational Quotes

Some Motivational Quotes: 1. "Believe you can, and you’re halfway there." یقین رکھو کہ تم کر سکتے ہو، اور تم آدھے راستے پر پہنچ جا...