مسجدوں میں نماز پڑھنے والے وہ پانچ افراد کون ہوں گے ـ
ــــــــــــــــــــــ
از ـ محمود احمد خاں دریابادی
خبریں گرم ہیں کہ ۸ جون بروز پیر سے مسجدوں سمیت تمام عبادت گاہیں کھولی جارہی ہیں ـ اس سلسلے میں پہلی وضاحت تو یہ کرنی ہے کہ ممبئی اور مہاراشٹر میں ۸ جون سے کوئی عبادت گاہ نہیں کھل رہی ہے ـ حکومت مہاراشٹر کی جانب سے ۳۱ مئی کو جو ہدایات جاری ہوئی تھیں اُس میں صاف لکھا ہوا ہے کہ ساری عبادت گاہیں تا اطلاع ثانی بدستور بند رہیں گی ـ آج ممبئی پولیس کی اشپیشل برانچ کے ایڈیشنل کمشنر مسٹر کولے نے بھی اپنے پیغام میں یہ یاد دہانی کرائی ہے ـ
دوسری ضروری بات یہ ہے کہ جن ریاستوں میں عبادت گاہیں پیر سے کھل جائیں گی وہاں بھی لوگوں کو عبادت گاہوں میں داخلے کی محدود اجازت ہوگی ـ یوپی کے وزیر اعلی کا ایک بیان بھی نظر سے گزرا ہے کہ عبادت گاہوں میں بیک وقت صرف پانچ افراد کے داخلے کی اجازت ہوگی ـ
ذرا سوچئے مسجد میں صرف پانچ آدمی نماز پڑھیں گے تو وہ پانچ کون ہوں گے، اُن کے انتخاب کا طریقہ کیا ہوگا، کچھ دبنگ افراد ہر جگہ ہوتے ہیں وہ ہر نماز میں زبردستی گھسنا چاہیں گے اس طرح ہر نماز میں مستقل جھگڑے کی شکل بنے گی، جمعہ کی نماز میں کیا ہوگا؟ .........کیا حکومت یہ چاہتی ہے کہ مسلمان آپس میں ہی لڑ مریں اور پولیس کو دونوں طرف سے کمائی کا موقع ملتا رہے ؟
اس لئے عبادت گاہوں کے کھلنے کے اِس اعلان سے ہم مسلمانوں کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں، الحمدللہ ہماری مسجدیں آباد ہیں، مسجد کا عملہ مساجد میں باجماعت نمازیں ادا کررہا ہے، تراویح، جمعہ اور عید کے موقع پر مسجدوں میں یہی صورت حال رہی ہے ـ یہاں یہ واضح کردینا بھی ضروری ہے کہ ہر مسجد میں امام، موذن اور دیگر خدام کے ساتھ تقریبا چار پانچ افراد تو پہلے ہی نمازیں ادا کررہے ہیں،........... ابھی تک حکومت کی طرف سے ایسی کوئی وضاحت بھی نہیں آئی ہے کہ جن پانچ افراد کو نماز کی اجازت دی جائیگی اُن میں مسجد کا عملے کا شمار ہوگا یا نہیں ـ
اس لئے ہماری رائے یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ہر محلے میں آپسی جھگڑا پیدا کرنے کے بجائے بہتر ہوگا کہ ابھی مسجدیں پوری طرح نہ کھولی جائیں، حسب سابق اذان ہوتی رہے اور مسجد کا عملہ نماز باجماعت ادا کرتا رہے، اس دوران ملت کے ذمہ داران حکومت کے رابطے میں رہیں، مساجد اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں نیز مسلمانوں اور دوسروں کے طریقہ عبادت کے درمیان فرق کو واضح کریں .........ساتھ ہی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھ کر مسجدوں میں حاضری کے لئے مزید افراد کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کریں ـ
No comments:
Post a Comment