"بہتر از صد ساله طاعت بے ریا" کا مطلب
ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ذرا اس کا مطلب بیان فرما دیں، اس کا مطلب کیا ہے:
صحبتِ نیکاں اگر یک ساعت است۔
بہتر از صد ساله زہد و طاعت است۔
(نیکوں کی صحبت اگر ایک ساعت کیلئے میسر ہو جائے تو سو سالہ زہد و طاعت سے (جو بغیر رہبرِ کامل کے ہو ) بہتر ہے)
فرمایا مجھ سے تو آپ ہی بہتر سمجھنے والے ہیں مگر میں جو سمجھا ہوں وہ یہ ہے کے کامل کی صحبت میں بعض اوقات کوئی گُر ہاتھ آ جاتا ہے یا کوئی حالت ایسی قلب میں پیدا ہو جاتی ہے جو ساری عمر کے لئے مفتاحِ سعادت بن جاتی ہے۔
یہ کلیہ نہیں بلکہ مہملہ ہے۔ ہر وقت یا ہر ساعت مراد نہیں ۔ بلکہ وہی وقت اور وہی ساعت مراد ہے جس میں ایسی حالت پیدا ہو جائے۔
عرض کیا تو کیا ہر صحبت اس وجہ مفید نہ ہو گی ؟
فرمایا کہ ہے تو یہی مگر کس کو علم ہے کہ وہ کون ساعت ہے جس میں یہ حالت میسر ہو گی ۔ ہر صحبت میں اس کا احتمال ہے اسلئے ہر صحبت کا اہتمام چاہئے ۔ اس سے ہر صحبت کا مفید اور نافع ہونا ظاہر ہے اور اس حالت کو صد سالہ طاعت کے قائم مقام بتلانے کو ایک مثال سے سمجھ لیجئے ۔ اگر کسی کے پاس سو گِنی ہوں تو بظاہر تو اس کے پاس امتعہ میں سے ایک چیز بھی نہیں مگر اگر ذرا تعمّق کی نظر سے دیکھا جائے تو ہر چیز اس کے قبضہ میں ہے اسی طرح اگر وہ کیفیت اس کے اندر پیدا ہو گئی تو بظاہر تو خاص طاعات میں سے کوئی بھی چیز اس کے پاس نہیں مگر حُکماً ہر چیز ہے۔ پس مراد اعمال پر قدرت ہونا ہے اس سے سب کام اس کے بن جائیں گے اور اصل چیز وہی کام ہیں جن کی یہ مفتاح صحبت میں نصیب ہو گئی، اگر وہ اعمال نہ کئے تو نِری مفتاح کس مصرف کی .
اسی لئے یہ کہتا ہوں کہ بدون اعمال نہ کچھ اعتبار ہے اقوال کا نہ احوال کا نہ کیفیات کا ۔ اس ہی لئے ان چیزوں میں سے کسی چیز میں بھی حظ نہ ہونا چاہئے اگر اعتبار کے قابل کوئی چیز ہے تو وہ اعمال ہیں اور اعمال بلا توفیق حق کے مشکل اور توفیق عادةً موقوف ہے صحبتِ کامل پر.
ملفوظات حکیم الامت رح: جلد 1، صفحہ 49