اللہ کے عذاب سے بچو!
از:
مولانا سر شمس الہدی قاسمی
چیف
ایڈیٹر: "دی لائٹ" میگزن
وہیڈ انگلش ڈپارٹمنٹ، جامعہ اکل
کوا، مہاراشٹرا
Email: hudaqasmi@gmail.com
میں اپنی اس تحریر کا آغاز حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی اُس کہانی سے کرنے جارہا ہوں، جسے باری تعالی نے
قرآن حکیم میں تسجیل کرکے ہمیشہ کے لیے ثبت کردیا ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام اللہ تعالی کے پیارے نبی اور بندے تھے، جن کو
اللہ تعالی نے باشندگانِ "سدوم"
کو راہ راست دکھانے اور ان کی اصلاح کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔ "سدوم"
فلسطین کا ایک شہر تھا، جو "بیت المقدس" اور "اردن" کے
درمیان، "بحر میّت" (Dead Sea) کے جنوب میں واقع تھا۔ حضرت لوط علیہ السلام اپنی زندگی کے اکثر شب وروز "اہالیانِ سدوم" کو احد وصمد اللہ کی عبادت
وبندگی، اچھے اعمال پر عمل پیرا ہونے اور ایک پاکیزہ زندگی گزارنے کی پوری جدّ
وجہد کے ساتھ دعوت دیتے رہے۔ آپ علیہ
السلام "اہالیانِ سدوم" کو وعظ ونصیحت کرتے رہے کہ وہ اللہ تعالی کے
احکام اور اوامر ونواہی کو چیلنج نہ کريں اور پاک پروردگار کے بیان کردہ حدود سے تجاوز نہ
کریں۔ آپ علیہ السلام نے "باشندگانِ سدوم" کو یہ بھی نصیحت فرمائی کہ
اپنی جنسی تسکین کےلیے عورتوں سے شادی
کریں اور ان کو شریک حیات بناکر ایک صاف ستھری زندگی گزاریں۔
بہر حال، "سدوم" کے بدنصیب اور
ناپاک باشندوں نے ان کی ایک نہ مانی، انھوں نے تعلیمات ربّانی کو رد کردیا اور غیر فطری طریقے سے جنسی تسکین میں اس
طرح ملوّث ہوئے کہ اپنے شہر میں تشریف لانے والے مرد مہمانوں کو بھی اپنی جنسی
تسکین کے لیے بے عزت کرنے کے پیچھے پڑگئے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے اُن
کو ہم جنس پرستی سے روکنے کی بڑی کوشش کی، مگر اُس قوم نے آپ علیہ السلام کی کوششوں کو بار آور نہ ہونے دیا؛ بل کہ وہ قوم آپ علیہ
السلام کو چیلنج کرنے لگی اور اس حد تک پہنچ گئی
کہ وہ کہنے لگی کہ اگر آپ (علیہ السلام) اللہ کے سچے نبی ہیں، تو اللہ تعالی ہم پر عذاب بھیجیں گے۔
آپ
علیہ السلام اُس قوم
سے اِس طرح حیران وپریشان ہوئے کہ آخر کار بارگاہِ خداوندی میں دستِ دعا دراز کرکے، اپنے پیارے اللہ سے اُس قوم پر عذاب کے
بھیجنے کی درخواست کردی۔ پھر وہی ہوا، جو ہونا تھا۔ آپ –علیہ السلام– کی دعا قبول
ہوگئی۔ اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو
حکم دیا کہ رات میں کسی وقت اُس شہر (سدوم) کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ جب
اللہ تعالی کا عذاب آیا؛ تو اِس طرح آیا کہ پورا شہر الٹ دیا گیا۔ اُن پر پتھروں کی بارش ہونے لگی۔ پورا شہر
تباہ وبرباد ہوگیا اور صفحۂ ہستی سے
مٹادیا گیا۔ یہ سب اُن ناپاک اہالیانِ سدوم کے بدترین اور قبیح فعل کی وجہ سے ہوا۔
اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے!
"ہم جنس پرستی" کے حوالے سے دنیا کے متعدد ممالک
کی موجودہ صورت، اہالیانِ سدوم سے کچھ مختلف معلوم نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن
حکیم کی یہ کہانی ہم جیسے بہت سے افراد کے ذہن ودماغ میں گردش کر رہی ہے کہ کہیں
کسی وقت اللہ کا عذاب نہ آجائے۔ یہ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارا پیارا وطن: ہندوستان
ہم جنس پرستی کے حوالے سے صاف ستھری امیج رکھتا تھا؛ کیوں کہ ہم جنس پرستی
ہندوستان میں ایک جرم (Crime) گردانا جاتا تھا؛ مگر چند لوگوں کی
درخواست کو پیش نظر رکھ کر، ملک کی عدالت عالیہ نے بہ روز جمعرات، 6/ستمبر 2018 کو
یہ فیصلہ سنایا کہ برضا ورغبت اگر دو بالغ افراد ہم جنس پرستی کرتے ہیں؛ تو یہ
کوئی جرم نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس جرم عظیم کو سرے سے جرم کی ہی فہرست سے نکال
دیا؛ جب کہ برطانوی دور سے ہندوستان کےقوانین کی دفعہ 377 کے تحت ہم جنس پرستی ایک جرم تھا، جس کی سزا عمر قید، یا پھر
دس سال تک قید اور جرمانہ کی بھی ادائیگی تھی۔ ذیل میں منسوخ دفعہ 377 ملاحظہ فرمائے:
377. Unnatural offences: Whoever voluntarily has
carnal intercourse against the order of nature with any man, woman or animal
shall be punished with imprisonment for life, or with imprisonment of either
description for term which may extend to ten years, and shall also be liable to
fine.
اس
دفعہ کو ناقص قرار دینے کا مطلب یہ ہوا کہ اب ہندوستان میں رضامندانہ طور "ہم
جنس پرستی" کو قانونی جواز فراہم ہوگیا؛ چناں چہ اب یہ کوئی قابل تعزیر جرم
نہ رہا جیسا کہ ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ عدالت عالیہ نے سیکڑوں سال پرانے قانون کو ناقص قرار دینے کا
فیصلہ، قومی وبین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے دباؤ میں صادر کیا ہے یا ان کی نظر میں
سچ مچ یہ شخصی آزادی کے زمرے آتا ہے؟
ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہندوستان کی دھرتی
کو مختلف مذاہب وادیان اور ان کے پیروکاروں کی جائے پیدائش ہونے کا شرف حاصل ہے،
جیسے ہندوازم، بدھ ازم۔ یہ ہندوستانی دھرتی
مختلف مذاہب وادیان اور تہذیب وثقافت کا ملک ہے جس کے شہریوں کی اکثریت کسی نہ کسی
مذہب میں یقین رکھتی اور اس پر عمل پیرا ہوکر، اپنے بزرگ وبرتر خدا کو خوش کرتی
ہے۔ ہندوستانی تہذیب کا مذاہب وادیان سے بہت پرانا رشتہ ہے جو ہندوستانی معاشرہ
میں اندر تک سرایت کیے ہوا ہے۔ عزب مآب ججوں نے اس بات کو قابل اعتنا نہیں سمجھا
کہ "ہم جنس پرستی" نہ صرف ہمارے مذاہب وادیان؛ بل کہ فطرت کے بھی خلاف
ہے اور فطرت سے بغاوت کے مترادف ہے۔ "ہم جنس پرستی" کو غیر قانونی اور جرم ثابت کرنے والے قانون کو ختم کرنا اور
مرد کا مرد سے اور عورت کا عورت سے خواہشات نفسانی کی تکمیل کرنا یا پھر مرد کا
مرد سے اور عورت کا عورت سے آپس میں شادی کرنے کا جواز فراہم کرنا بدیہی طور پر
ہمارے ازدواجی اور معاشرتی نظام کو تباہ وبرباد کردے گا اور ساتھ ہی ساتھ اس قانون
کی تنسیخ فطری ارتقا اور نسل انسانی کی افزائش کے لیے مانع ثابت ہوگا۔ یہ بات بھی
قابل ذکر ہے کہ اس طرح کی انارکی اور بے راہ روی کے معصوم بچوں پر منفی اثرات مرتب
ہوں گے اور یہ اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دے گا۔ اگر طبّی اعتبار سے بھی دیکھا
جائے؛ تو ہم جنس پرستی معاشرہ میں ایڈس اور باد فرنگ جیسی شدید مہلک بیماریوں کا
باعث ہے۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے؛ بل کہ آج کے دور میں، اسے طبّی علوم نے
ثابت بھی کردیا ہے۔
"ہم
جنس پرستی" جیسے عمل کو قانونی پناہ مل جانے سے معاشرے میں جہاں یقینی طور پر
شادی بیاہ کا تناسب گھٹے گا، وہیں دوسری طرف ریپ اور زنا کا وغیرہ تناسب بڑھے گا۔ صرف
چند ذہنی طور پر بیمار لوگوں کی ذاتی آزادی کے نام پر، عوام کو اس بات کی اجازت
نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ معاشرے کی شکل وصورت اور صدیوں پرانی عمدہ تہذیب وثقافت
کے ساتھ کھلواڑ کریں اور پورے ملک میں کھلے عام انارکی پھیلائیں۔ ہمیں ان ممالک سے
سبق حاصل کرنا چاہیے جہاں ہم جنس پرستی کو قانونی جواز ملنے کی وجہ سے خواتین
زیادہ متاثر ہوئیں ہیں اور خاندانی نظام پورے طور پر منتشر ہوچکا ہے۔
خیر
جہاں سے ہم نے اپنی اس تحریر کا آغاز کیا تھا اور ذکر کیا تھا کہ "اہالیانِ سدوم" نے اس قبیح فعل کا ارتکاب کیا۔
اب اس کے بعد، اس قوم کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کا بھی ذکر اوپر آیا کہ ان پر کی بستی
پلٹ دی گئی اور ان پر پتھر کی بارش ہوئی۔ اللہ تعال نے اس فعل کا ارتکاب کرنے والوں کو
سخت نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے: ﴿وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ﴾۔
(سورہ ہود، آیت: 83) ترجمہ: "اور وہ (مقام) ان
ظالموں سے کچھ دور بھی نہیں ہے۔" وہ لوگ جو قانونی جواز کی آڑ میں ہم جنس
پرستی جیسے قبیح اور ناپاک فعل کے ارتکاب پر مصر ہیں، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ
وہ دنیوی عدالت میں خود کو سزا سے بچالیں گے؛ کیوں کہ یہ فعل اب کوئی جرم نہیں
رہا، مگر عظیم طاقت وقدرت والے اللہ کی سخت پکڑ سے ان کا بچ نکلنا محال اور ناممکن
ہے۔ جناب
نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– کا ارشاد ہے کہ ہماری امّت کے کچھ افراد اس گناہ کا
ارتکاب کریں گے جس گناہ کا ارتکاب "اہالیانِ
سدوم" نے کیا تھا۔ جب اس گناہ کا ارتکاب ہونے لگے؛ تو تم اسی سخت عذاب کا
انتظار کرو۔ مطلب یہ ہے جو عذاب "اہالیانِ سدوم" پر آیا، وہی عذاب اس
گناہ کے مرتکبین پر آئے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دفعہ 377 کی
منسوخیت بہت سے مذاہب وادیان کے عائلی قوانین پر بری طرح سے اثر انداز ہوگا۔ اللہ
تعالی اس طرح کے جنسی خواہشات کی انارکی میں ملوث ہونے ہم سب کی حفاظت فرمائے!
اللہ تعالی ہم سب کی، ہماری بہنوں، بچیوں اور بچوں کی اس قبیح فعل سے حفاظت
فرمائے! اللہ تعالی شہریوں کے بنیادی حقوق کو سمنجھنے اور اس کی حفاظت کی توفیق
دے! ٭٭٭
No comments:
Post a Comment