Search This Blog

Showing posts with label مضامین. Show all posts
Showing posts with label مضامین. Show all posts

فکر وعمل کا توازن: شروع اور پختگی

فکر و عمل کا توازن: شعور اور پختگی

شمس الہدیٰ قاسمی

انسانی زندگی محض سانس لینے اور روز و شب گزارنے کا نام نہیں، بلکہ یہ مسلسل سیکھنے اور ارتقاء کا عمل ہے۔ اس ارتقائی سفر میں دو اوصاف ایسے ہیں جو ایک عام انسان کو "شخصیت" کے درجے پر فائز کرتے ہیں: شعور اور پختگی۔ شعور اگر انسان کو حقیقت کا ادراک عطا کرتا ہے، تو پختگی اس ادراک کو عمل کے سانچے میں ڈھال کر وقار بخشتی ہے۔ یہ دونوں اوصاف لازم و ملزوم ہیں؛ شعور کے بغیر انسان بصیرت سے محروم رہتا ہے اور پختگی کے بغیر اس کا علم بے سمت رہتا ہے۔

شعور محض معلومات کے ذخیرے یا ڈگریوں کے انبار کا نام نہیں ہے۔ یہ وہ داخلی روشنی ہے جو انسان کو حالات، الفاظ اور نتائج کی گہرائی سمجھنے کے قابل بناتی ہے۔ ایک باشعور فرد صرف وہ نہیں دیکھتا جو دکھایا جا رہا ہے، بلکہ وہ لفظوں کے پیچھے چھپے معنی اور عمل کے دور رس اثرات کو بھی بھانپ لیتا ہے۔

ایک عام آدمی کسی حادثے پر صرف افسوس کرتا ہے یا مجمع کا حصہ بن جاتا ہے، لیکن ایک باشعور فرد فوری طور پر امدادی کارروائی کی ضرورت کو سمجھتا ہے اور ہجوم کی نفسیات سے بچ کر عملی حل تلاش کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا ایک غلط قدم یا غلط افواہ صورت حال کو مزید بگاڑ سکتی ہے۔

پختگی دراصل شعور کی عملی آزمائش کا نام ہے۔ ایک پختہ انسان جانتا ہے کہ ہر سچ ہر مقام پر کہہ دینا دانائی نہیں، اور ہر خاموشی بزدلی نہیں ہوتی۔ پختگی انسان کو انا کے خول سے نکال کر مقصدیت کی بلندی پر لے جاتی ہے۔

تاریخِ اسلام میں صلحِ حدیبیہ پختگی اور شعور کی بہترین مثال ہے۔ بظاہر دب کر کیے جانے والے معاہدے کو صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد نے اپنی جذباتی وابستگی کی بنا پر گراں محسوس کیا، لیکن اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے وسیع شعور اور سیاسی پختگی سے اس کے مستقبل کے اثرات کو دیکھا۔ وقت نے ثابت کیا کہ وہ بظاہر "دب کر" کیا گیا معاہدہ دراصل "فتحِ مبین" کی بنیاد تھا۔ یہ پختگی ہی تھی جس نے فوری ردِعمل کے بجائے دور رس نتائج کو ترجیح دی۔

پختہ انسان اپنی ذات پر قابو پانا سیکھ لیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ غصہ یا اشتعال شعور کو مفلوج کر دیتا ہے۔
کسی دانا کا قول ہے:
 "اعلیٰ ذہن نظریات پر بحث کرتے ہیں، اوسط ذہن واقعات پر، جبکہ چھوٹے ذہن لوگوں پر بحث کرتے ہیں۔"

یہ قول شعور اور پختگی کے فرق کو واضح کرتا ہے۔ پختہ انسان شخصیات کو نشانہ بنانے کے بجائے نظریاتی اختلاف کو تہذیب کے دائرے میں رہ کر پیش کرتا ہے۔

آج کے دور میں سوشل میڈیا نے شعور اور پختگی کی اہمیت کو دوچند کر دیا ہے۔ معلومات کی فراوانی نے ہمیں "باخبر" تو کر دیا ہے لیکن "باشعور" نہیں۔ آج ایک کلک پر کسی کی پگڑی اچھالنا یا کسی کی نیت پر شک کرنا آسان ہو گیا ہے۔

 شعور کا تقاضا ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو آگے پھیلانے سے پہلے اس کی تصدیق کرنا۔
 پختگی کا تقاضا ہے کہ کسی کی تنقید پر آپے سے باہر ہونے کے بجائے اپنی خامیاں تلاش کرنا اور وقار کے ساتھ جواب دینا۔

درحقیقت، شعور سیکھنے اور مشاہدے سے حاصل ہوتا ہے جبکہ پختگی برداشت اور تجربے کی بھٹی میں تپ کر آتی ہے۔ جو انسان دوسروں کو سننا اور سمجھنا سیکھ لیتا ہے، وہ دانائی کی پہلی سیڑھی چڑھ جاتا ہے، اور جو ناموافق حالات کو برداشت کرنا سیکھ لیتا ہے، وہ پختگی کی معراج پا لیتا ہے۔
فرد ہو یا معاشرہ، ترقی کا راستہ انہی دو اوصاف سے ہو کر گزرتا ہے۔ شعور کے بغیر علم اندھا ہے جو صرف غرور پیدا کرتا ہے، اور پختگی کے بغیر عمل خطرناک ہے جو معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔

Al-Huda Classes

فکر وعمل کا توازن: شروع اور پختگی

فکر و عمل کا توازن: شعور اور پختگی شمس الہدیٰ قاسمی انسانی زندگی محض سانس لینے اور روز و شب گزارنے کا نام نہیں، بلکہ یہ مسلسل سیکھنے اور ارت...