Search This Blog

Showing posts with label Urdu Articles. Show all posts
Showing posts with label Urdu Articles. Show all posts

شہریت ترمیمی بل ایک سازش؟

کیب CAB اور این آر سی اپنے ہی وطن میں ہندوستانیوں کو بے گھر کرنے کی سازش ہے؟

حضرت مولانا محمد ابو طالب رحمانی صاحب رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

مرکزی حکومت وقت کی ضرورت کو سمجھ کر چیلنجس قبول کرنے اور اس کا مقابلہ کرکے اس کا حل تلاشنے کے بجائے بیکار کی چیزوں میں وقت اور مال ضائع کر رہی ہے اور ایک جمہوری ملک میں کھلے عام تعصب پسندی کی آگ بھڑ کا رہی ہے.

ملک کی معیشت جس بری طرح سے متاثر ہوئی ہے اس سے قبل کبھی نہیں ہوئی جی ڈی پی گر کر %4.5 ہو گئی ہے، بے روزگاری عام ہوگئی ہے، مہنگائی آسمان چھو رہی ہے، ریپ کے دن بدن بڑھتے واردات ملک کی شبیہ پوری دنیا میں خراب کر رہا ہے لیکن مرکزی حکومت اور ان کے وزراء کو یہ سب نہیں دکھ رہا ہے انہیں تو بس دفع 370، رام مندر، کیب CAB اور این آر سی دکھ رہا ہے انہیں مسلم دشمنی اور تعصب زدہ سیاست ہی کرنی ہے جس میں اقلیتوں کو اس کے گھر سے بے گھر کرنے میں سب سے زیادہ دلچسپی ہے حبکہ حقیقت یہ ہے کہ کیب CAB اور NRC سے سب سے زیادہ نقصان ملک کا ہوگا، ہمارا ملک اس وقت جس معاشی بحران سے گذر رہا ہے، اور NRC پر مجوزہ بجٹ تقریبا 17؍ کھرب روپیے کا ہے، ایسی حالت میں اگر این آر سی لاگو ہوتا ہے تو ملکی معیشت کا دیوالہ نکلنے میں کوئی شبہ ہی نہیں ، بُھک مَری کا زبردست خطرہ ہے اور بھک مری کے نتیجہ میں لوٹ کھسوٹ اور کرائم کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔

     آسام میں جو NRC کے نام پر کارروائی ہوئی اس میں سات سال کا وقت لگا اور 16؍سو کروڑ روپیےخرچ اور لاکھوں افراد بےگھرہوئے،سیکڑوں جانیں گئیں، اور نتیجہ یہ نکلا کہ جب اس پوری کارروائی کی آخری رپورٹ آئی تو بھاجپا اور اس کی حکومت نے اس رپورٹ کو ماننے سے انکار کردیا؛ کیوں کہ اس کا مقصد این آر سی نہیں؛ بلکہ فساد پھیلانا اور ہندوستانیوں کو اپنے ہی وطن میں بےگھر کرنا تھا۔

حکومت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلمان ہندوستان میں صدیوں سے آباد ہیں لیکن اس کے باوجود اب CAB اور این آر سی جیسے لغویات کا سہارا لیکر ان مسلمانوں کو گھس پیٹھیا اور دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی پوری تیاری ہے *ہم مسلمانان ہند حکومت پر واضح کردینا چاہتے ہیں ان مسائل کو چھیڑ کر آپ ملک کا مال اور وقت ضائع نہ کریں ہندوستانی عوام کو گمراہ کرکے آپ اپنی ناکامی چھپا نہیں سکتے یہ ملک کل بھی ہمارا تھا آج بھی ہمارا ہے اور ہمیشہ ہمارا رہے گا ان شاء ﷲ*.

*این آر سی میں حکومت وقت بالکل ناکام ہوئی ہے کروڑوں روپئے ڈوب چکے ہیں لمبی مدت ضائع ہوئی ہے بہت سی جانیں چلی گئی اور ہندوستان کا ایک بڑا طبقہ بشمول ہندو بھائیوں کے ڈر اور خوف میں زندگی بسر کر رہا ہے آسام اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے مزید اس طرح کی حرکتوں سے بین الاقوامی اسٹیج پر ہندوستان کی کیا شبیہ ابھر کر آئے گی اس کا بھی اندازہ حکومت کو نہیں ہے*.

میں ملک کے  ہر فرد سے ہندو سے مسلمانوں سے یہ درخواست کرتا ہوں اس کیب CAB کے خلاف اور این آر سی کے خلاف اپنا سخت احتجاج درج کروائیں اور اپوزیشن کی تمام پارٹیوں اور لیڈروں کو واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ انتخابات کے وقت آپ کو مسلمانوں کی بڑی یاد آتی ہے مسلمانوں کے مسیحائی کرنے کا دم بھرتے ہیں اگر آپ نے اس وقت اس بل کی مخالفت کھلے عام نہ کی یا سیاست دکھاتے ہوئے کیب CAB کے خلاف ووٹنگ کے وقت غیر حاضر رہے یا واک آوٹ کیا تو ہم سمجھیں گے کہ آپ میں اور بی جے پی میں  کوئی فرق نہیں ہے پھر ہم بھی آپ کو انتخاب کے وقت یکطرفہ نکار دیں گے ہماری کمیونیٹی کے ایک فرد کا ووٹ آپ حاصل کرنے کو ترس جائیں گے۔
خیال رہے اس بل اور این آر سی کی مخالفت صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ بہت سی ریاستوں میں کھلے عام دیگر کاسٹ کے لوگ بھی کر رہے ہیں یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں اگر میڈیا اسے ہندو بنام مسلم بناتی ہے تو ان کو میزورم  اور دیگر  شمال مشرقی ریاستوں، اضلاع اور شہروں میں ہونے والے ہمارے غیر مسلم بھائیوں کا احتجاج ضرور یاد دلانا چاہئے۔

اعتکاف کی فضیلت

باسمہ تعالی

اعتکاف: یہی وہ در ہے جہاں آبرو نہیں جاتی

بہ قلم: خورشید عالم داؤد قاسمی

Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in

تمہید:

اللہ سبحانہ وتعالی اپنے بندوں کو رمضان المبارک کے بابرکت مہینے سے نواز کر، موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ عبادت  کے ذریعے اپنے رب کامطیع وفرمانبردار بن جائے، اپنے رب سے وابستہ  ہوجائے، اپنے رب سے مغفرت کی درخواست کرے اور خود کو جہنم کی آگ سے آزاد کرالے؛ چناں چہ رمضان کے مہینے کا ہر لمحہ مسلمانوں کے لیے مبارک اور قیمتی وقت ہے۔ ماہ رمضان میں ایک سنت کا ثواب، غیر رمضان کےایک فرض کے برابر ہے؛ جب کہ ایک فرض کا ثواب، رمضان کے علاوہ کے 70/فرضوں کے برابر ہے۔ رمضان ہی کی مبارک راتوں میں، تراویح جیسی عبادت کا سنہرا موقع ملتا ہے۔اللہ تعالی نےاپنے بندوں کے لیےرمضان کے پہلے دس دنوں کو رحمت کا عشرہ بنایا ہے، دوسرے دس دنوں کو مغفرت کا عشرہ اور تیسرے  دس دنوں کو جہنم کی آگ سے چھٹکارے کا عشرہ بنایا ہے۔ اسی اخیر عشرہ میں، ہزار مہینوں سے بہتر رات"لیلۃ القدر" ہوتی ہے۔ اسی آخری کے دس دنوں میں اعتکاف جیسی اہم عبادت بھی ہے، جس کے مقاصدمیں یہ ہے کہ مسلمان اعتکاف کرکے "لیلۃ القدر" کی فضیلت کو حاصل کرنےکی حتی المقدور کوشش کرے، فرشتہ جیسی معصوم مخلوق کے مشابہ بنانے کی کوشش کرے اور اللہ کی قربت حاصل کرے۔ اس مختصرمضمون میں اعتکاف کی تعریف، احکام، فضائل ومسائل وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اعتکاف کی تعریف:

"اعتکاف" عربی زبان کا ایک لفظ ہےجس کے معنی ٹھہرنے اور اپنے آپ کو روک لینے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں، مسجد کے اندر ( اعتکاف کی) نیت کے ساتھ، اپنے آپ کو مخصوص چیزوں سے روک رکھنے کا نام ہے۔ (قاموس الفقہ 2/170)

اعتکاف کی قسمیں:

اعتکاف کی تین قسمیں ہیں: (1) واجب، (2) سنت مؤکدہ علی الکفایہ اور (3) مستحب۔

واجب: واجب اعتکاف کی دوقسمیں ہیں: (1) کوئی شخص کسی شرط کے ساتھ منت مانے کہ اگر اس کا فلاں کام ہوجائے؛ تو وہ اس کا کی تکمیل پر اعتکاف کرے گا؛ تو اب اس کام کی تکمیل پر، اس کے لیے اعتکاف کرنا واجب ہوگا۔ اس منت کو فقہ کی اصطلاح میں "نذر معیّن" کہتے ہیں۔ (2) کوئی شخص مطلقا یعنی بغیر کسی شرط کے اعتکاف کرنے کی منت مانے، مثلا یوں کہےکہ وہ فلاں دن کا اعتکاف اپنے اوپر لازم کرتا ہے، یا فلاں دن اعتکاف کرنے کی منت مانتا ہے؛ تو اس صورت میں بھی اس پر اعتکاف واجب ہوجائے گا۔ اس طرح کی منت کو فقہ کی اصطلاح میں "نذر مطلق" کہتے ہیں۔ واجب اعتکاف کم از کم ایک دن اور ایک رات کا ہوگا، اس کے لیے روزہ رکھنا بھی شرط ہے۔ بغیر روزہ کے واجب اعتکاف ادا نہیں ہوگا۔

سنت مؤکدہ علی الکفایہ: رمضان کے آخری عشرہ کے اعتکاف کو فقہاء احناف "سنت مؤکدہ علی الکفایہ" کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر  کسی محلہ یا گاؤں کی مسجد میں، رمضان کے آخری عشرہ کا ایک شخص بھی اعتکاف کرلے؛ تو  سنت ادا ہوجائے گی اور اس محلہ یا گاؤں کا کوئی بھی شخص گنہگار نہیں ہوگا اور اگر ایک شخص نے بھی اعتکاف نہیں کیا؛ تو پورے محلہ اورگاؤں کے لوگ اس سنت کے چھوڑنے کی وجہ سے گنہگار ہوں گے۔

سنت مؤکدہ علی الکفایہ اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں کیا جاتا ہے۔ جو شخص اس اعتکاف کو کرنا چاہتا ہے، وہ بیسویں رمضان کو غروب آفتاب سے پہلے، اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہوجائے اور عید (شوال) کا چاند نکلنے تک مسجد میں معتکف رہے۔    اب چاہے عید کا چاند انتیس کا ہو یا تیس کا، اعتکاف مکمل ہوگیا۔

مستحب یا نفل: مستحب یا نفل اعتکاف یہ ہے کہ اس کی نیت کرکے، آدمی چاہے تو ایک ہی منٹ کے لیے مسجد میں چلا جائے، مستحب اعتکاف ہوجائے گا۔ مستحب اعتکاف کےلیے روزے اور وقت وغیرہ کی شرط نہیں ہے۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ جب بھی مسجدمیں داخل ہو؛ تو داخل ہوتے وقت، اعتکاف کی نیت کرلے اور جب تک مسجد میں رہے،لغوباتوں  سے پرہیز کرے اور تلاوت، اذکار یا پھر نفل نماز وغیرہ میں مشغول رہے؛یہ نفل اعتکاف شمار ہوگا۔

اعتکاف کی حکمت:

شریعت میں جس عبادت کے بھی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یا پھر جس عبادت کے کرنے پر حوصلہ افزائی کی گئی ہے؛ اس میں حکیم وخبیر پروردگار نےبڑی حکمت ودانائی بھی رکھی ہے۔اعتکاف بھی ایک قسم کی عبادت ہے۔ اعتکاف کی حکمت یہ ہے کہ معتكِف (اعتکاف کرنے والا) نماز باجماعت کا انتظار کرے، خود کو فرشتوں کے مشابہ بنانے کی کوشش کرے اور اللہ تعالی کا قرب حاصل کرے۔

"اعتکاف میں معتكِف اللہ کے تقرب کی طلب میں، اپنے آپ کو بالکلیہ اللہ تعالی کی عبادت کے سپرد کردیتا ہےاور نفس کو اس دنیا کے مشاغل سے دور رکھتا ہے، جو اللہ کے اس تقرب سے مانع ہےجسے بندہ طلب کرتا ہے،اور اس میں معتكِف اپنے پورے اوقات میں حقیقتا یا حکما نماز میں مصروف رہتا ہے؛ اس لیے کہ اعتکاف کی مشروعیت کا اصل مقصدنماز باجماعت کا انتظار کرنا ہےاور معتكِف اپنے آپ کوان فرشتوں کے مشابہ بناتا ہے،جو اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے، انھیں جو حکم ہوتا ہے وہی کرتے ہیں اور رات ودن تسبیح پڑھتے ہیں، کوتاہی نہیں کرتے۔" (موسوعہ فقہیہ 5/310)

اعتکاف کرنے کی جگہ:

مردوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسجد میں اعتکاف کرے۔ مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہوں پر مردوں کا اعتکاف درست نہیں ہوگا۔ معتكِف کے لیےمساجد میں افضل مسجد: مسجد حرام، پھر مسجد نبوی، پھر مسجد اقصی (فلسطین)، پھر ان کے شہر کی جامع مسجد،پھر محلہ کی مسجد جہاں پنج وقتہ جماعت کا انتظام ہو یعنی وہ مسجد جس میں امام اور موذن ہو۔ خاتون اگر شادی شدہ ہو؛ تو اپنے شوہر کی اجازت کے بعد، اپنے گھر میں جس جگہ روزانہ نماز پڑھتی ہے، اسی جگہ پر اعتکاف کرے۔ اگر روزانہ ایک معین جگہ پر نماز ادا نہ کرتی ہو؛ تو وہ عارضی طور پر،ایک جگہ متعین کرلے اور اسی جگہ پر اعتکاف،نماز، تلاوت اور تسبیح واذکار کرے۔

اعتکاف کی بھی قضا ہے:

اگر کوئی شخص واجب اعتکاف میں تھا اور اعتکاف کسی وجہ سےٹوٹ گیا؛ تو اسے اس اعتکاف کی قضا کرنا ضروری ہے۔ قضا میں از سر نو ان تمام ایام کی قضا کرنی ہوگی، جتنے دنوں کی منت اس شخص نے مان رکھی تھی؛ کیوں کہ اس میں تسلسل ضروری ہے۔اگر کوئی  شخص رمضان کے آخری عشرہ میں، سنت اعتکاف میں تھا اور اعتکاف کسی وجہ سے ٹوٹ گیا؛ توصرف اس ایک دن کی قضا کرے، جس دن اعتکاف ٹوٹا ہے۔ مگر احتیاط اس میں ہے کہ مکمل دس دن کی قضا کرلے۔ سنت اعتکاف ٹوٹ جانے کے بعد، باقی دنوں کا اعتکاف نفل شمار ہوگا۔ واضح رہے کہ نفل اعتکاف مسجد سے نکلتے ہی ختم ہوجاتا ہے، وہ ٹوٹتا نہیں؛ اس لیے اس کی قضاوغیرہ کا کوئی مسئلہ نہیں۔

اعتکاف کے فضائل:

  اعتکاف کے فضائل اور اجر وثواب بہت ہی زیادہ ہیں۔ رمضان کے آخری عشرہ میں سنت اعتکاف ہوتا ہے۔ آخری عشرہ میں اعتکاف کے فضائل وبرکات اس سے سمجھے جاسکتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ آمد کے بعد، ایک سال کے علاوہ، ہر سال بڑی پابندی سے رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: "كَانَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ العَشْرَ الأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ". (صحیح بخاری، حدیث: 2025) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مَنِ اعْتَكَفَ عَشْرًا فِي رَمَضَانَ كَانَ كَحَجَّتَيْنِ وَعُمْرَتَيْنِ". (شعب الایمان 5/436، حدیث: 3680) ترجمہ: جو شخص رمضان کے دس دنوں کا اعتکاف کرتا ہے، تو (اس کا یہ عمل) دو حج اور دو عمرے کی طرح ہے (یعنی اسے دو حج اور دو عمرے کا ثواب ملے گا)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مَن اعْتكَفَ إِيمَانًا واحْتسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقدمَ مِن ذَنبِه". (فیض القدیر 6/74) ترجمہ: جو شخص ایمان کی حالت میں، ثواب کی امید کرتے ہوئے اعتکاف کرتا ہے، اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔

ایک حدیث میں ہے کہ معتكِف جب تک اعتکاف میں رہتا ہے، مسجد میں ہونے کی وجہ سے بہت سے گناہوں سے بچا رہتا، جن کو وہ باہر رہ کر، کرسکتا تھا اور وہ اعمال جسے وہ مسجد سے باہر رہ کر کرتا تھا، جیسے: مریض کی عیادت اور جنازہ کی نماز میں شرکت، مگر اب اعتکاف کی وجہ سے نہیں کرسکتا؛ تو اس کے نہ کرنے پر بھی معتکف کو اس کا پورا ثواب ملےگا۔ حدیث ملاحظہ فرمائے:

رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الْمُعْتَكِفِ: "هُوَ يَعْكِفُ الذُّنُوبَ، وَيُجْرَى لَهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ كَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ كُلِّهَا". (ابن ماجہ، حدیث: 1781) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معتكِف کے سلسلے میں فرمایا: "وہ گناہوں سے رکا رہتا ہے اور ان کی تمام نیکیاں ایسے ہی جاری رہتی ہیں، جیسے وہ ان ساری نیکیوں کو کررہا ہے"۔

اعتکاف سے متعلق چند ضروری مسائل:

(1) اعتکاف کرنے والا طبعی اور شرعی ضروریات کے بغیر، ایک لمحہ کے لیے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ جائے؛ کیوں کہ اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ (2) معتكِف کے لیے مسجد میں کھانا پینا اور سونا جائز ہے۔ (3)   اگر معتكِف نے جان کر کچھ کھا پی لیا؛ تو اس کا روزہ کے ساتھ اعتکاف بھی ٹوٹ جائے اور  اعتکاف کی قضا ضروری ہوگی۔ (4) اگر شوہر نے بیوی کو اعتکاف کی اجازت دیدی ہے؛ تو جب تک بیوی اعتکاف میں ہے،خاوند اس کے ساتھ جماع نہیں کرسکتا ہے۔ (5) معتكِف کا طبعی ضرورت  ـــــ جیسے: پیشاب، پاخانہ، غسلِ جنابت، اگر کوئی کھانا لانے والا نہ ہو تو کھانے لانے ـــــ کے لیے مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے۔ مگر ضرورت سے زیادہ وقت مسجد سے باہر نہ ٹھہرے اور جاتے اور آتے وقت راستہ میں ٹھہر کر کسی سے بات چیت بھی نہ کرے۔ (6) معتكِف ایسی مسجد میں اعتکاف کررہا ہے، جس میں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی؛ تو جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے لیے جانے کی اجازت ہے۔ مگر اس جامع مسجد میں "تحیۃ المسجد، جمعہ سے پہلے کی سنت نماز، خطبہ، نمازِجمعہ اور بعد کی سنت نماز" کے بقدر ہی ٹھہرنا جائز ہے۔ اس  سے زیادہ وقت ٹھہرنا درست نہیں۔ اگر معتكِف اذان پکارنے کے لیے مسجد سے باہر نکلتا ہے؛ تو یہ بھی درست ہے۔ یہ سب "شرعی ضروریات" میں شمار ہوں گے۔ (7) طبعی اور شرعی ضروریات کےلیے اگر معتكِف مسجد سےباہر نکلے اور راستے پر  کوئی بیمار مل جائے، تو چلتے ہوئے بیمار پرسی کرسکتا ہے۔ اسی طرح راستے پر چلتے ہوئے،کسی سے علیک سلیک اورحال دریافت کرنا چاہے؛ توکرسکتا ہے۔ (8) اعتکاف کے لیے خاتون کاحیض یا نفاس سے پاک ہونا ضروری ہے، حیض یا نفاس کی حالت میں اعتکاف درست نہیں ہوگا۔ اگر اعتکاف کی حالت میں حیض آگیا؛ تو اعتکاف ٹوٹ کیا۔ حیض کے ختم ہونے کے بعد، ایک دن کے اعتکاف کی قضا کرلے۔

خاتمہ:

جو شخص اعتکاف کی نیت سے خانۂ خدا میں ہےمقیم ہے، اسے چاہیے کہ اپنے قیمتی اوقات کو ضائع نہ کرے۔ معتكِف کو چاہیے کہ تلاوتِ قرآن کریم، نفل نمازوں، تسبیح وتہلیل، استغفار اور کتب دینیہ کے مطالعہ میں مشغول رہے۔ معتكِف کثرت سے درود شریف پڑھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو درود وسلام کا تحفہ بھیجتا رہے۔ اگر مسجد میں تعلیم وتعلم یا پھر وعظ ونصیحت یا درس وتدریس  کی مجلس لگی ہواور اس میں بھی شرکت کرنا چاہتا ہے؛ تو کرسکتا ہے۔ معتكِف رات میں عبادت میں مشغول رہ کر"لیلۃ القدر" کی فضیلت  حاصل کرنے کو جد وجہد کرے۔مختصر یہ کہ جب تک معتكِف مسجد میں ہے، ہر طرح سے خود کو اللہ تعالی کی ذات سے، وابستہ کرنے کی سعی بلیغ کرے اور جو کچھ بھی مانگنا ہو، اس پاک ذات کے سامنے اپنے ہاتھ پھیلا کر مانگ لے اوراپنے ضروریات کی تکمیل کی درخواست پیش کرے۔ اللہ تعالی تعالی کےسامنے ہاتھ پھیلانے والا کبھی رسوا نہیں ہوتا اور پھیلنے والا ہاتھ بھی  کبھی ناکام ونامراد نہیں لوٹتا؛ بل کہ  اللہ تعالی ہاتھ پھیلانے والے کو سرخرو رکھتا ہے، اس کی دعاؤں کو قبول فرماکر، اس کی  ضروریات کو غیب سے پوری فرماتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی کو شرم آتی ہے کہ ان کا بندہ ان کے سامنے اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر، خیر کا سوال کرے، پھر اللہ تعالی ان ہاتھوں کو ناکام اور خالی لوٹا دیں۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: "إِنَّ اللَّهَ يَسْتَحْيِي أَنْ يَبْسُطَ إِلَيْهِ عَبْدُهُ يَدَيْهِ يَسْأَلُهُ بِهِمَا خَيْرًا فَيَرُدَّهُمَا خَائِبَتَيْنِ". (مصنف ابن أبی شیبہ، حدیث: 29555) اکبر الہ آبادی رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا:

خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہے اے اکبر  ــــــــــ    یہی وہ در ہے جہاں آبرو نہیں

مسلمانوں کے فکری امتحان کا وقت

مسلمانوں کے فکری امتحان کا وقت

امن دشمن لوگ

شیخ عبد الحق صاحب اعظمی رح

موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
محدّث جلیل حضرت الاستاذ شیخ عبد الحق صاحب اعظمی –نور اللہ مرقدہ– (1928-2016)

از: خورشید عالم داؤد قاسمی٭

30/دسمبر کو جہاں سن 2016 اپنا آخری سانس لے رہا تھا اور وہ صرف ایک دن کا مہمان تھا کہ مغرب وعشاء کے درمیان، محمد رسول اللہ- صلی اللہ علیہ وسلم- کی احادیث شریفہ کا عظیم خادم، علوم نبویّہ کا حقیقی وارث اور ایشیاء کی ممتاز دینی درس گاہ، امّ المدارس: دارالعلوم، دیوبند کا محدّث جلیل، حضرت الاستاذ شیخ عبد الحق صاحب اعظمی –نور اللہ مرقدہ–  ایک تھکے ماندے مسافر کی طرح خاموشی سے دائمی نیند سو گئے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون۔ موت ایک ایسی حقیقت جسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں؛ لہذا سب لوگوں کی طرح بندہ نے بھی حضرت الاستاذ کی موت کو"مرضی مولی از ہمہ اولی" کہتے ہوئے قبول کیا۔ یہ خبر منٹوں میں،دنیا کے گوشے گوشے میں، جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہر شخص نے بڑے افسوس کے ساتھ اس خبر کو پڑھا اور سنا اور بھاری دل کے ساتھ دوسروں کے ساتھ شیئر کیا۔

موت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ موت ایک ایسی حقیقت ہےکہ جس سے کسی کو بھی مفر نہیں۔ جب پیارے نبی محمد- صلی اللہ علیہ وسلم- کو موت آکر رہی؛ تو پھر دوسرے کی کیا بات! موت تو پاک پوتر مالک کے دیدار کا ایک ذریعہ ہے؛ اگر آدمی کا انتقال نہ ہو؛ تو اپنے رحیم وکریم رب کا دیدار کیسے کرے گا! یہی تو وجہ تھی کہ نبی اکرم -صلی اللہ علیہ وسلم- نے اپنے لیے موت کو پسند فرماکر، اپنے منبر سے اپنی موت کا یوں اشارہ دیا: "إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ، وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ". فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ: فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا. (بخاری شریف، حدیث: 3904) ترجمہ: اللہ تعالی نے ایک بندے  کو اس کے درمیان اختیار دیا ہے کہ اللہ تعالی ان کو دنیا کی رونق دیں، جتنی وہ چاہے اوران (نعمتوں )کے درمیان جو اللہ تعالی کے پاس ہے؛ لہذا اس بندے نے ان (نعمتوں) کو اختیار کیا جو اللہ تعالی کے پاس۔ ابوبکر -رضی اللہ عنہ – (سمجھ گئے کہ نبی -صلی اللہ علیہ وسلم -نے اپنے لیے موت کو پسند کیا؛ لہذا ) رونے لگے اور فرمایا: آپ پر ہم اپنے ماں باپ قربان کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو ایمان کی حالت میں اس دنیا سے اٹھائے! آمین!

موت نے کسی کو نہیں چھوڑا۔ چاہے انسان ہویا حیوان یا پھر چرند وپرند ہو، سب جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ یہ نظام اس سنسار کے پیدا کرنے والے کا ہی بنایا ہوا ہے۔ سچے مالک نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: "كُلّ نَفْس ذَائِقَة الْمَوْت" (سورہ آل عمران، آیت: 185) ترجمہ: (تم میں) ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ چناں چہ سب کے سب انبیاء ورسل، صحابہ وتابعن اوراولیاء وصلحا کو اس جہان سے کوچ کرنا پڑا۔ ہم سب کو بھی ایک دن جانا ہوگا۔ حضرت شیخ صاحب –نور اللہ مرقدہ – بھی اپنے مقررہ وقت پر، پاک پروردگار کے حکم کا اتباع کرتے ہوئے اس جہاں سے کوچ کرگئے۔ اللہ تعالی حضرت الاستاذ کو جنّت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے! آمین!
آئے عشّاق، گئے وعدہء فردا لے کر ٭ اب انھیں ڈھونڈ چراغ ِرخِ زیبا لے کر

حضرت شیخ صاحب –نور اللہ مرقدہ– کی ولادت بہ روز: پیر، 6/رجب المرجب، سن 1345 ھ (سن 1928ء) کو ،اترپردیش کے معروف ضلع: "اعظم گڑھ" کے ایک گاؤں: "جگدیش پور" میں ہوئی۔ آپ چھ سال کے تھے کہ آپ کے والدماجدجناب عمر صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ آپ کی کفالت وتربیت مشہور عالم دین، شیخ محمد مسلم صاحب جونپوری –قدس سرہ– نے کی۔ پھر ایک گاؤں میں پرورش پانے والے یتیم کو، اللہ تعالی نےایک نیّر تاباں بنایا۔ پھر آپ سے کیا ایشیا، کیا افریقہ، کیا یورپ اور کیا امریکہ، ہر جگہ کے لوگوں نے کسب فیض ۔ اللہ تعالی آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور اس کا اپنے شایان شان بدلہ عطا فرمائے! آمین!

حضرت شیخ صاحب –قدس سرہ– نے ابتدائی تعلیم، حضرت مولانا عبد الغنی صاحب پھولپوری (1876-1963) –رحمہ اللہ–، خلیفہ حضرت تھانوی (1863-1943) کے قائم کردہ ادارہ: "مدرسہ بیت العلوم"، سرائے میر، اعظم گڑھ میں حاصل کی۔ بیت العلوم میں آپ نے صرف ونحو، عربی اور فقہہ اسلامی کی کچھ کتابیں پڑھی۔ بیت العلوم میں آپ نے درس نظامی کی مشہور کتاب: "شرح وقایہ" تک کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے  بعد، آپ نےدارالعلوم، مئو ناتھ بھنجن میں داخلہ لیا اور "مشکاۃ المصابیح" تک کی تعلیم مکمل کی۔ پھر آپ نے دارالعلوم ،دیوبند کا رخ، جس کے جوار میں، آپ کی آخری آرام گاہ منجاب اللہ مقدر تھی۔

شیخ نے ایشیاء کی عظیم دینی واسلامی یونیورسیٹی دارالعلوم، دیوبندمیں تکمیل فضیلت کے لیے داخلہ لیا۔ آپ نے دارالعلوم میں شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی (1879-1957)، علامہ محمد ابراہیم بلیاوی (متوفی: 1967)، شیخ الادب شیخ محمد اعزاز علی امروہوی (1300-1373ھ)، شیخ فخرالحسن مرادآبادی اور مولانا ظہور احمد دیوبندی –نور اللہ مراقدہم– وغیرہم سے اکتساب فیض کیا۔ حضرت شیخ ثانی صاحب نے بخاری شریف مکمل اور ترمذی ،جلد: اوّل، شیخ الاسلام حضرت مدنی -قدس سرہ - سے پڑھی۔ آپ نے 1368ھ/1949ء میں رسمی تعلیم سے فراغت حاصل کی۔ حضرت شیخ ثانی کو اجازت حدیث، ان کے مذکورہ بالاشیوخ عظام کے ساتھ ساتھ، حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی (1897-1983)، سابق رئیس: دارالعلوم، دیوبند، محدث کبیرحضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی(1900-1992)، حضرت مولانا عبد الغنی پھولپوری (1876-1963) اور برکت العصر حضرت شیخ الحدیث محمد زکریا صاحب (1898-1982) –رحمہم اللہ– سے بھی حاصل  تھی۔ آپ حضرت شیخ الحدیث کی مبارک سند سے احادیث مسلسلہ کی اجازت دیتے تھے۔ الحمد للہ، آپ نے ان عظیم المرتبت اساتذہ وشیوخ سے قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کی، جن میں سےہر ایک آفتاب وماہتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
نہ تخت وتاج میں نے لشکر وسپاہ میں ہے ٭  جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے

حضرت الاستاذ نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز "مدرسہ مطلع العلوم"، بنارس، یوپی سے کیا۔ اس ادارہ میں آپ نے تقریبا 16/سال تک تدریسی خدمات انجام دی۔ پھر "مدرسہ حسینیہ"، کولڈیہا،گریڈیہہ، جھارکھنڈ (بہار) میں تقریبا 9/مہینے تدریسی خدمات انجام دی۔  حضرت اس مدرسہ کا ذکر کرتے ہوئے کبھی کبھی فرماتے تھے کہ بقدر مدت حمل بہار میں رہ چکا ہوں۔ بہار کے لوگ بہت ہی ادب واحترام سے پیش آتے تھے۔ اس کے بعد، "دارالعلوم"، مئوناتھ بھنجن میں بھی حدیث کی کتابیں آپ کے زیر درس رہی۔ جہاں بھی آپ نے تدریسی خدمات انجام دی، عام طور پر حدیث کی کتابیں آپ سےمتعلق رہیں۔

سن 1982عیسوی میں،  آپ کو امّ المدارس دارالعلوم، دیوبند میں علیاء کے استاذ کی حیثیت سے منتخب کیا گيا ۔ آپ نے اس وقت سے اپنی زندگی کے اخیر لمحہ تک اس عظیم ادارے میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ صحیح بخاری، جلد: ثانی اور مشکاۃ شریف کے اسباق آپ سے متعلق تھے۔ آپ بخاری جلد ثانی پڑھانے کی ہی وجہ سے، طلبہ واساتذہ دارالعلوم، دیوبند کے درمیان "شیخ ثانی" سے معروف تھے۔ آپ نے تقریبا34 سال تک دارالعلوم میں، بخاری جیسی حدیث کی عظیم کتاب کا درس دیا۔ اس طرح کل ملا کر ، آپ تقریبا 60/سالوں تک قرآن وحدیث کی خدمت میں مصروف رہے۔  اس دوران ہزاروں طلبہ نے آپ سے پڑھا اور استفادہ کیا۔ آپ کے شاگردوں میں ہزاروں علماء اور فقہاء ومحدثین شامل ہیں؛ جن کو بجا طور پر آپ کا شاگرد ہونے پر فخر ہے۔

آپ کا بخاری شریف کا درس بعد نمازِعشاء  ہوتا تھا۔ ترجمان کے ساتھ کچھ طلبہ آپ کو "مسجد چھتہ" سے لانے جاتے تھے۔  چھتہ مسجدکی ہی چھت پر بنے گھر میں، آپ رہتے تھے۔ طلبہ آپ کے اردگرد ہوتے اور آپ ایک ہاتھ میں عصا لیے،دارالحدیث تک بڑے ہی سکون واطمینان سے آتے۔  جو طلبہ آپ کے آتے وقت، آپ کے پیچھےچلتے تھے، ان کو کبھی کبھی منع کرتے کہ آپ میرے پیچھے اس طرح نہ چلیں، یہ سنت نبوی کے خلاف ہے۔ سنا ہے کہ ان دنوں، کمزوری اور ضعف کے سبب حضرت وِیل چیر (Wheelchair)  سے اسباق پڑھانے آتے تھے۔ آپ اسباق کے بڑے پابند تھے۔ دیوبند کا موسم سرما ہویا موسم گرما، آپ کو درس گاہ آنا تھا اور سبق پڑھانا تھا۔ یہ ناممکن تھا کہ آپ دیوبند میں ہوں اور سبق نہ پڑھائیں۔ آپ کا بخاری شریف کا سبق عام طور پر تقریبا دو ڈھائی گھنٹے کا ہوتا تھا۔ مگر تعب وتھکان کا احساس تک نہ ہونے دیتے۔
ہاں دکھا دے، اے تصوّر! پھر وہ صبحُ وشام تو ٭ دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تو

بندہ راقم الحروف کو شیخ ثانی صاحب کی سب سے پہلی زیارت سن 1997 یا 1998 میں اس وقت ہوئی، جب نیپال کی مرکزی درس گاہ:فیض الاسلام، پَرسا،  نیپال کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے تشریف لے جارہے تھے اور راستہ  سے گزرتے ہوئے، آپ نے مدرسہ اشرف العلوم، کنہواں، سیتامڑھی کے سابق ناظم: قاری محمد طیّب صاحب –رحمہ اللہ– کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے تشریف لے گئے۔ اس وقت  راقم الحروف اشرف العلوم میں عربی دوم یا عربی سوم کا طالب علم تھا۔ "پرسا" نیپال میں واقع ہے اور کنہواں ہندوستان میں واقع ہے۔ مگر ان دونوں جگہوں کے درمیان صرف چند کلو میٹرس کا ہی فاصلہ ہے؛ لہذا حضرت شیخ صاحب کی زیارت اور ان کی تقریر سننے کے لیے اشرف العلوم  کے طلبہ "پرسا"جارہے تھے؛ چناں چہ میں بھی سب کے ساتھ گیا اور شیخ صاحب کی تقریر سے پہلے، ہم سب نے جاکر حضرت سے سلام ومصافحہ کیا۔

جب سن 2000عیسوی میں دارالعلوم، دیوبند میں داخلہ لیا؛ تو پھر اس کے بعد تو حضرت کی زیارت ہوتی ہی رہتی تھی۔ جب بندہ ششم سےترقی کرکے عربی ہفتم میں قدم رکھا؛ تو حضرت سے مشکاۃ شریف پڑھنے کا موقع نصیب ہوا۔ پھر"دورہ حدیث شریف" کے سال، سن 2003 میں،  بخاری شریف ، جلد: ثانی، حضرت شیخ صاحب –قدس سرہ–  سے  پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل ٭ نسیمِ صبح تیری مہربانی

حضرت شیخ تک رسائی حاصل کرنے اور آپ سے ملنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی۔ کوئی بھی شخص کبھی بھی جاکر مل سکتا تھا اور اپنی بات پیش کرسکتا تھا۔ آپ کسی بھی آنے والے کو مایوس نہیں کرتے تھے۔ جب بھی کوئی شخص آپ کے پاس دعوتی واصلاحی پرگرام میں شرکت  کی دعوت لے کر آتا، چاہے وہ پروگرام دیہات میں ہورہا ہو یا شہرمیں،  اندرون ملک کا پروگرام ہویا بیرون ملک کا،  آپ اس کی دعوت قبول کرتے۔ اسی طرح اگر کسی دینی ادارے میں کوئی تقریب ہو، اجلاس ہو، آپ کو دعوت ملتی؛ تو اسے قبول فرماتے اور اپنی شرکت سے نوازتے۔  عام طور پر دوسرے مدارس وجامعات کے ذمے داران حضرات آپ کو افتتاح بخاری شریف اور ختم بخاری شریف کے لیے مدعو کرتے تھے۔ اس طرح آپ نے ہندوستان کے سیکڑوں شہروں اور دیہاتوں اور کئی بیرونی ممالک کا اصلاحی ودعوتی دورہ کیا۔ اللہ تعالی نے آپ کی زبان میں بڑا اثردے رکھا تھا۔ آپ نہایت ہی متواضع ومنکسرالمزاج تھے۔  آپ مستجاب الدعوات تھے۔ اللہ تعالی اس امت کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے! آمین!
وہ فاقہ مست ہوں جس راہ سے گزرتا ہوں  ٭  سلام کرتا ہے آشوب  روزگار  مجھے

حضرت شیخ صاحب نے یکے بعد دیگرے تین نکاح کیا۔ پہلی اہلیہ سے ایک لڑکا، جناب عبد الحکیم صاحب اور دو لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ پہلی اہلیہ کی وفات کے بعد،آپ نےدوسری شادی کی۔ دوسری بیوی سےایک بیٹا، جو بچپن میں ہی انتقال کرگیا اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ دوسری بیوی کی وفات کے بعد، تیسرا نکاح کیا۔ تیسری زوجہ سے پانچ لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی جو سب کے سب حیات سے ہیں۔ اللہ تعالی ان سب کو خوش وخرم رکھے اور ان کو حضرت شیخ صاحب  -قدس سرہ- کے لیے صدقہ جاریہ بنائے! آمین!

حضرت شیخ صاحب –نور اللہ مرقدہ– عمرکی 88 بہاریں دیکھ چکے تھے۔ آپ پیرانہ سالی کی وجہ سےکمزور ہوگئے تھے۔ بہ روز: جمعہ 30/دسمبر 2016 کو شام میں،  آپ کو متلی آئی پھر ناسازی طبیعت کے شکایت کی۔ آپ کو دیوبند کے ہی ایک ہسپتال  میں لے جایا گيا۔ ڈاکٹر نے جانچا اور ایکسرا وغیرہ کے بعد، اطمینان کا اظہار کیا۔ مگر جن کا وقت مقررہ آچکا ہو، اس کو طبیب وحکیم کیا کرسکتا ہے۔ آپ ہسپتال میں ہی مغرب وعشاء کے درمیان آخری سانس لی اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے ٭ خواب کے پردے میں بیداری کا ایک پیغام ہے

حضرت شیخ کی نماز جنازہ،31/دسمبر 2016 کو، شام ساڑھے تین بجے دارالعلوم کے احاطہ  دارِجدیدمیں، استاذ محترم حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب –دامت برکاتہم–  استاذ حدیث وسابق ناظم تعلیمات دارالعلوم، دیوبند کی امامت میں ادا کی گئی۔ عوام وخواص کی ایک بڑی تعدادنے آپ کے جنازہ میں شرکت کی۔ پھر ہزاروں طلبہ اور علماءنے اپنے کندھوں پر اٹھا کر ، "قبرستان قاسمی" میں ، اللہ تعالی کی امانت، اللہ کے سپرد کردی۔اللہ تعالی آپ کی قبر کو نور سے بھردے! آمین!
آسماں تیری لحد پرشبنم افشانی کرے ٭ سبزہء نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

٭ ہیڈ: اسلامک اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

AlHudaClasses

Daily English Phrase

keep the ball rolling کام کو جاری رکھنا We realised we would need outside funding to keep the ball rolling. ہم نے محسوس کیا کہ کام کو جاری ر...