Search This Blog

Showing posts with label M Khursheeed Alam. Show all posts
Showing posts with label M Khursheeed Alam. Show all posts

دو افسوس ناک حادثے



بسم اللہ الرحمن الرحیم
دو افسوسناک حادثے اور سعودی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش

تحریر: خورشید عالم داؤد قاسمی


وہ مسلمان جو اللہ کے مہمان بن کر، حج کی نیت سے اس سال مکہ مکرمہ گئے تھے، ان میں سے کچھ لوگوں کو دو مختلف حادثے میں شہادت کی سعادت نصیب ہوئی۔ ایک مومن کے لیے شہادت کی موت سے بہتر کوئی موت نہیں ہوسکتی۔ صحابۂ کرام –رضی اللہ عنہم- تمنا کرتے تھے کہ وہ شہادت کی موت پاکر، اپنے رب کی نظر میں سرخرو ہوجائیں۔ شہادت کی موت ایسی موت ہے کہ اس کے لیے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تمنا کیا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں: (ترجمہ:) "اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! میں تمنا کرتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں لڑوں، پھر قتل کردیا جاؤں، پھر زندہ کردیا جاؤں (پھر لڑوں) پھر قتل کردیا جاؤں، پھر زندہ کردیا جاؤں (پھر لڑوں) پھر قتل کردیا جاؤں"۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 7227)

اس سال (1436 ھ=2015 ء) کے حج کے دوران، حجاج کرام کے ساتھ دو غمناک حادثے پیش آئے۔ پہلا حادثہ 11/ستمبر کو عصر و مغرب کے دوران، اس وقت پیش آیا، جب موسم نہایت ہی خراب تھا، آندھی طوفان بھی بہت زبردست طریقے آیا۔ اللہ تعالی کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ تعمیراتی کام کے لیے استعمال ہونے والی کرین پر بجلی گری، پھر وہ کرین "مطاف" کے ایریا میں چھت کو توڑتے پھوڑتے زمین پر آگرا۔ پھر منٹوں میں کئی درجن حجاج کرام شہید اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق، 107/افرادشہید اور 238/ لوگ زخمی ہوئے۔

دوسرا حادثہ 24/ستمبر کو "جمرات کی رمی" (کنکری مارنے کے عمل) کے دوران افرا تفری اور بھگدڑ مچنے کی وجہ سے، منی کی 204 نمبر شاہراہ پر پیش آیا۔ ان دنوں مکہ مکرمہ میں گرمی شدید ہے؛ لہذا حکومت نے پیشگی یہ اطلاع کردی تھی کہ حجاج کرام کنکری مارنے کا عمل عصر کے بعد کریں۔ اب جب حجاج کنکریاں مار رہے تھے، کچھ کنکریاں مارنے جارہے تھے اور کچھ کنکریاں مارکر واپس آرہے تھے کہ اچانک ایک گروپ نے موقع اور جگہ کے اعتبار سے کچھ عجیب و غریب ٹائپ کا نعرہ لگانا شروع کردیا۔ وہ گروپ صرف نعرہ بازی پر ہی اکتفا نہیں کیا؛ بل کہ یک طرفہ راستہ(One Way)  جس سے صرف جانے کی ہی اجازت تھی، اس یک طرفہ راستہ سے ہی مخالف سمت میں آنا شروع کردیا۔ پھر بھگدڑ اور افرا تفری  (Stampede)کی صورت پیدا ہوگئی۔ حجاج ہڑبڑا کر دوڑنے لگے۔ ہر  شخص اپنی جان کی حفاظت کے لیے بھاگنے لگا؛ چناں چہ اس حاثہ میں سعودی وزارت صحت کی رپورٹ کے مطابق اب تک 769 /حجاج کے شہید ہونے؛ جب کہ 934  سے زائد افراد کے  زخمی ہونے کی خبر ہے۔

ان دو حادثوں کے بعد، بہت سے لوگوں نے غم و اندوہ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے شہداء کے ورثاء کو تعزیت پیش کی اور سعودی حکومت کی حجاج کرام کے حوالے پیش کی جانے والی سہولیات و انتظامات کو سراہتے ہوئے ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی کی۔ مگر کچھ ناعاقبت اندیش اور عناد و تعصب کا عینک لگائے لوگ ان حادثے کو سعودی حکومت کے ساتھ اپنی دیرینہ دشمنی نبھانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اس حوالے سے ایرانی حکومت اور کچھ ایران نوازلوگ سر فہرست ہیں؛ تا آں کہ آج نیو یارک میں، ایرانی صدر حسن روحانی نے یہاں تک سوال کردیا کہ کیا سعودی حکومت پر حج کی ذمے داری نبھانے کے  سلسے میں اعتماد کیا جاسکتا ہے؟

جو لوگ سعودی حکومت کی اہلیت اور انتظام و انصرام کی صلاحیت پر انگلی اٹھارہے ہیں، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے کہ کسی کے گھر دس مہمان آئے ہوں اور ان کے لیے دس کرسیوں کا انتظام کرلیا اور ایک روم میں بیٹھا کر کھانا کھلا کر اور کبھی صرف پانی پر ہی اکتفا کرکے رخصت کردیا۔ حج کرنے والے مسلمانوں کی تعداد کم و بیش دو ملین (بیس لاکھ) ہوتی ہے، جہاں ہر ایک حج کرنے والا "ایک مخصوص عمل کےلیے، ایک محدود وقت میں، ایک مخصوص سمت میں ہی جاتے ہیں"؛ لہذا ایام حج میں حجاج کی آمد و رفت کو کسی دوسری تقریب اور دوسرے راستوں پر قیاس کرنا بالکل ہی غلط ہے۔ ایام حج میں حجاج کی خدمت اور ان کے رہنے سہنے اور ہر رکن  کی ادائیگی کےلیے آمد و رفت کا انتظام و انتصرام سنبھالنا کوئی معمولی بات نہیں۔ مگر جن کا منشا اور مقصد صرف سعودی حکومت کے ساتھ عناد و دشمنی ہو، تو ایسے لوگ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور اس طرح کے غمناک اور افسوسناک واقعہ کو بھی ایک قضیہ بناکر اپنا سر اونچا کرنے کی کوشش کریں گے۔

اس وقت بڑا افسوس ہوتا ہے، جب کچھ ایسے لوگ بھی کسی ایسے قضیہ میں اپنی گندی زبان کو لگام نہیں دے پاتے اور کھل کر تنقیص کرتے ہیں، جن کا اس قضیہ اور مسئلہ سے کچھ لینا دینا ہی نہیں۔ چناں چہ اس "رمی جمرات" والے حادثے کے بعد، کچھ دہریہ اور ملحد قسم کے لوگوں نے حج کی مشروعیت پر ہی سوال اٹھانا شروع کردیا۔ ان میں سرفہرست ہندوستان کی سرزمین پر جلا وطنی کی زندگی گزار رہی بد بخت بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین بھی ہے۔ اس ناپاک عورت نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے فریڈم آف اسپیچ کی آڑ میں، اسلام مخالف اپنی گندی زبان اور غیر سنجیدہ قلم کا خوب استعمال کیا۔ اس حادثہ کے فورا بعد، اس نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر کئی سارے ایسے ٹویٹس کی کہ مسلمانوں کے جذبات کو بھرکانے اور ان  کوورغلانے کے لیے کافی تھے اور کچھ عقل کے دشمن لوگ اس کی ہاں میں ہاں بھی ملاتے رہے۔ اس حادثہ کے بعد سے تسلیمہ نسرین نے مسلمانوں، حج اور اللہ تعالی کی پاک ذات کے حوالے جو کچھ ٹویٹ کیا ہے، اسے میں یہاں نقل کرنے سے قاصر ہوں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی اسے ہدایت دے!

وہ لوگ جو ہر موقع سے اپنی دشمنی اور عناد کی وجہ سے مخصوص ذہنیت کے ساتھ ہر مسئلہ پر رائے زنی کے عادی ہیں، انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ سعودی حکومت جس منظم و مرتب طریقے سے حج کا پروگرام انجام دیتی ہے، اسے خدائی مدد اور موجودہ حکومت کی حد درجہ دانائی ہی کہا جاسکتا ہے۔ جن کو اللہ تعالی نے حج کی سعادت سے سرفراز کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ الحمد للہ، سعودی حکومت کی طرف سے ارکان حج کی ادائیگی کے لیے جو سہولیات دی جاتیں ہیں اور انتظامات کیے جاتے ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔ حجاج کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت فضا میں ہیلی کاپٹرس گشت کرتے رہتے ہیں، ہر چند قدم پر رہنمائی کےلیے بڑی بڑی اسکرینیں اور بورڈس لگے ہوتے ہیں، ہر سمت میں جانے کے لیے درجن سے بھی زیادہ کشادے راستے کی تعمیر، پھر ہر طرف مدد کے لیے دفاتر کا قیام، ہر طرف موجود حفاظتی دستے ہوتے ہیں جو ضرورت کے وقت لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ حجاج کرام کی خدمت کے حوالے سےسعودی حکومت اتنا اچھا انتظام کرتی ہے کہ ان کی زبانیں حکام سعودیہ عربیہ کے لیے دعا کرتی رہتی ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر کچھ مخصوص ذہنیت کے لوگ سعودی حکومت کو اس حوالے سے طعن و تشنیع کرے؛ تو میرے خیال میں وہ شخص عقل و خرد سے خالی ہوگا۔

کرین حادثہ کے فورا بعد کچھ لوگوں نے عوامی رابطے کی سائٹس پر شہید ہونے والوں کے وارثین کو "معاوضہ" (Compensation) دینے کی بات کرنے لگے اور ان کا کہنا تھا کہ کئی گھنٹے گزر گئے ہیں، مگر اب تک سعودی حکومت نے معاوضہ کا اعلان نہیں کیا ہے؟! یعنی ان کی نظر میں یہ حجاج جن کا انتقال ہوا وہ گویا خادم حرمین شریفین ملک سلمان بن عبد العزیز (حفظہ اللہ)  کا کام کرنے گئے تھے؛ لہذا ان کی موت پر ان کے فیملی ممبرس کو معاوضہ دیا جائے۔ اس طرح کی موت میں معاوضہ کی بات کہاں سے آگئی؟! مگر اللہ تعالی نے ان لوگوں کی زبان ایسی بند کروائی کہ شاید اب اس طرح کے موقع سے ان کی زبان کھلے ہی نہیں۔ ہوا یہ کہ سعودیہ کے صالح اور متواضع حکمراں، خادم حرمین شریفین نے بطور معاوضہ اتنی بڑی رقم کا اعلان کیا کہ کبھی کسی نے سوچا بھی نہ ہو۔ ملک سلمان بن عبد العزیز نے ہر شہید ہونے والے کے کنبہ کو ایک ملین (دس لاکھ) سعودی ریال دینے کا اعلان کرنے کے ساتھ ان کی فیملی کے دو افراد کو شاہی مہمان کی حیثیت سے آئندہ سال حج کرانے کا بھی وعدہ کیا۔ یہ خادم حرمین شریفین کی ایسی فراخدلی اور سخاوت و فیاضی ہے کہ اس حوالے سے بہت ہی کم حکمراں  ان کے شریک و سہیم ہوں گے۔

اس طرح کے حادثات کو موضوع بناکر سعودی حکومت کے خلاف محاذ کھولنا کسی طرح بھی دانشمندی نہیں ہے۔ حج و عمرہ کے لیے جانے والے حجاج کے لیے "آل سعود  حکومت "نے شروع سے اب تک جو خدمات پیش کی ہیں، وہ آپ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ اس میں کسی طرح کی بے جا تعریف و توصیف نہیں ہے۔ خاص طور پر جب سے ملک سلمان بن عبد العزیز  (حفظہ اللہ) نے حکومت کا باگ و ڈور سنبھالا ہے، اس وقت سے تو بہت سے ایسے مثبت فیصلے لیے گئے ہیں، جن کے اچھے اثرات نظر آنے شروع ہوگئے ہیں۔ ابھی چند ہی دنوں پہلے کی بات ہے کہ اسرائیلی فوجیوں اور پولیس کے ہاتھوں مسجد اقصی اور فلسطینیوں پر ہوئے ظلم و جبر کے خلاف انھوں نے کھل کر اسرائیل کی مذمت کی اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اور سیکوریٹی کونسل کے ممبران کو فوری سخت اقدام اٹھانے کی اپیل کی ہے۔  اللہ تعالی ان کو ثابت قدم رکھے!

اس افسوسناک حادثہ کے حوالے سے حکومتی سطح پر تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ روزنامہ "الشرق الاوسط" نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ایرانی حج مشن کے ایک عہدیدار نے یہ اعتراف کیا ہے کہ "تقریبا تین سو ایرانی حجاج نے اسمبلی پوائنٹ سے متعلق ہدایات  (Instructions) پر عمل نہیں کیا، جس کی وجہ سے ان حاجیوں نے جمرات سے الٹے پاؤں واپسی کی کوشش کی، جو منی کی 204 نمبر شاہراہ میں حادثہ کا سبب بنی۔ اس حادثہ کے بعد کچھ ذی فہم لوگوں نے اس اندیشہ کا بھی اظہار کیا ہے کہ یہ حادثہ کسی سازش کا نتیجہ ہوسکتاہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ ماضی میں کچھ مخصوص ذہنیت کے لوگ، سعودی حکومت کو بدنام کرنے کی غرض سے ایسا کرچکے ہیں۔

            اب اگر اس طرح سے لوگ بدنظمی پیدا کریں؛ تو حکومت اور انتظام و انصرام سے اس کا کیا تعلق ہے! یہ تو لوگوں کی بے عقلی ہے کہ وہ ہدایات پر عمل نہیں کرتے جس کی وجہ سے سیکڑوں لوگوں کو پریشانی کا سامنا ہوتا ہے؛ اس لیے جن ممالک سے لوگ حج کے لیے جاتے ہیں، ان ممالک کی حج کمیٹیوں کو چاہیے کہ حج کا تجربہ رکھنے والے حجاج اور ماہر معلمین کی نگرانی میں خوب سے خوب تر حج کے لیے جانے والے لوگوں کی تربیت کی جائے اور ان کو اس بات کی بھی ٹریننگ دی جائے کہ اگر خدا نخواستہ کوئی افراتفری کی صورت ہو، یا کہیں سے بھگدڑ کی اطلاع آئے تو وہ کیا کریں، خود کو کیسے کنٹرول کریں اور دوسرے حجاج کی کس طرح مدد کریں۔

            خیر جو لوگ ان حادثات میں شہید ہوئے ہیں، ان کے لیے اس بڑی کوئی اورسعادت نہیں ہوسکتی کہ اللہ کے مہمان ہونے کی حالت میں، احرام پہنے ہوئے اپنے ربّ کے یہاں حاضر ہوئے ہیں۔ موت تو مومن کا تحفہ ہے۔ اللہ تعالی ان  شہداء کو جنت میں اعلی سے اعلی مقام عنایت فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے! جن لوگوں کا آئندہ حج کے لیے جانے کا ارادہ ہو، ان کو اس بات پر پوری توجہ دینی چاہیے کہ حکومت کی طرف سے وضع کردہ اصول کی خلاف ورزی ہرگز نہ کریں، نہیں تو ایک شخص کی بے اصولی درجنوں لوگوں کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔   ٭٭٭

(مضمون نگار  دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا کے استاذ ہیں۔ ان سے   qasmikhursheed@yahoo.co.in  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)

مسجد اقصی پر حالیہ اسرائیلی حملہ اور عالم اسلام



تحریر: خورشید عالم داؤد قاسمی


مسجد اقصی کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے؛ بل کہ یہ پورے عالم اسلام کا قضیۂ ہے۔ مسلمانان عالم شاید یہ بھول رہے ہیں کہ مسجد اقصی قبلہ اوّل ہے۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد، جس مسجد کا نمبر ہے وہ مسجد اقصی ہے۔ یہ وہی مسجد اقصی ہے، جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے رات میں لائے گئے تھے۔ اسی مسجد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء (علیہم السلام) کی امامت کی تھی۔ پھر یہیں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کا مبارک سفر شروع ہوا تھا۔ یہ وہی مسجد ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ،" کہ ایک شخص کی  مسجد اقصی کی ایک نماز (ثواب میں) پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ (ابن ماجہ، حدیث: 1413)
خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد، عالم عرب ٹکڑوں میں تقسم ہوگیا۔ پھر 14/مئی 1948 کا وہ بدترین دن بھی آیا، جس دن قلب عرب میں، فلسطین کی 55 فیصد اراضی پر زبردستی "اسرائیل" کے نام سے ایک آزاد، غاصب اور ناجائز صہیونیت زدہ یہودی ریاست کے قیام کا اعلان ہوا۔ پھر اسرائیل کی طرف سے بار بار تھوپی جانے والی جنگ و جدل کے نتیجے میں، آج فلسطین نام کی ریاست کے لیے دس فی صد زمین بھی باقی نہیں رہی؛ بل کہ فلسطین اپنے وجود کی جنگ لڑرہا ہے اور وہ "اقوام متحدہ"  جس کی "جنرل اسمبلی" نے 1947 میں زبردستی فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ کیا، آج خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ بہت احسان کیا تو ایک قرارداد منظور کروادیا جسے اسرائیل اپنے جوتوں کی نوک سے روند کر اپنی تخریبی کاروائی اور دہشت گردی میں منہمک رہتا ہے۔
اسرائیل کے قیام کے بعد سے آج تک کئی جنگیں ہوچکی ہیں۔ ان جنگوں میں لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی شہریوں کا قتل عام ہوا، ہزاروں شہروں  اور گاؤں کو تباہ و برباد کیا گیا ہے اور ہر جنگ میں فلسطینی اراضی پر اسرائیلیوں نے قبضہ کیا ہے۔ 1967 کی چھ روزہ عرب-اسرائیل جنگ کے میں، اسرائیل نے ناجائز طریقے سے عرب کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کرلیا، جس میں مشرقی یرشلم بھی شامل ہے، جہاں مسجد اقصی واقع ہے۔ اس وقت سے مسجد اقصی سے اسرائیل کی نظر ہٹی نہیں ہے۔ اقصی پلازا پر یہودیوں کےلیے عبادت کی اجازت نہیں تھی۔ اب شدت پسند صہیونیوں کا اسرائیلی حکام سے یہ مطالبہ ہے کہ ان کو اقصی کے باہر والے کمپاؤنڈ میں عبادت کی اجازت دی جائے۔ یہ ایسا مطالبہ ہے کہ یہ بیت المقدس کے مسلمانوں کو گراں گزرتا اور اس سے وہ مشتعل ہوتے ہیں اور یہ مشتعل ہونے کی بات بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ صہیونی شدت پسندوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکام کا بھی یہی ارادہ ہے کہ "مسجد اقصی" کو جلد از جلد اپنی نام نہاد عبادت گاہ کی میں تبدیل کردیں۔
یہودیوں کے نئے سال کی آمد کے موقع سے، 13/ستمبر 2015 کو فجر کے وقت، غاصب ریاست اسرائیل کی پولیس اور فوج نے مسجد اقصی کے احاطہ میں داخل ہوکر، آنسوں گیس اور دستی بم کی مدد سے یورش اور ہنگامہ شروع کردیا۔ پھر انھوں نے "مسجد اقصی" پر حملہ کرکے جانماز کو جلایا، توڑ پھوڑ کیا، عمارت کو نقصان پہنچایا اور درجنوں فلسطینیوں کو زخمی کیا۔ دو سیکوریٹی گارڈس کو گرفتار کیا؛ جب درجنوں نمازیوں کو قید کیا۔ 50/سال سے کم عمر کے ان نمازیوں کو جو "مسجد اقصی" میں نماز کےلیے جارہے تھے، ان کو جانے سے روک دیا۔ یہیں پر بس نہیں کیا؛ بل کہ اسرائیلی فوجیوں نے  مسجد کے اندرونی حصہ میں دھاوا بولتے ہوئے وہاں موجود درجنوں نمازیوں کو طاقت کے بل پر مسجد سے باہر نکال دیا۔ پھر اسرائیلی فوجیوں نے حملہ کے بعد، مسجد بند کردی اور نمازیوں و عبادت گزاروں کو احاطۂ مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ لوگ پتھراؤ اور سنگ باری کر رہے تھے، جس کے جواب میں یہ سب ہوا۔ اس حملے کے بعد، اسرائیلی فوجیوں نے اب تک تقریبا 47/فلسطینیوں کو حراست میں لے رکھا ہے جس میں کئی معصوم بچے بھی شامل ہیں۔
الجزیرہ کے نمائندہ اسکوٹ نے اس حالیہ حملے کے سلسلے میں کہا ہے کہ کچھ یہودی جماعتیں جن کو مسجد اقصی میں جانے اور عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے، وہ وہاں داخل ہوگئیں، جو اوّلا تصادم و ہنگامہ کا سبب بنی۔ پھر اسرائیلی پولیس اور فوجیوں نے حملہ شروع کردیا۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق شروع میں کچھ قدامت پرست نو آباد یہودیوں نے فلسطینی مسلمانوں کو اشتعال دلایا اور برانگیختہ کیا جب کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالی کی عبادت کے لیے مسجد جارہے تھے۔ پھر اسرائیلی پولیس اور فوج نے ان یہودیوں کی مدد کرتے ہوئے، حملہ شروع کردیا۔
وجہ جو بھی رہی ہو؛ لیکن پوری دنیا اس بات سے واقف ہے کہ اسرائیلی پولیس اور افواج ہمیشہ جارحانہ، ظالمانہ اور دہشت گردانہ کاروائی میں یقین رکھتی ہے، جیسے وہ ماضی میں ہزاروں فلسطینیوں کے قتل اور لاکھوں کے زخمی کرنے کی مجرم ہیں، اس بار بھی اس حملہ میں وہ ہمیشہ کی طرح مجرم ہیں۔ رہی بات قدامت پرست نو آباد یہودیوں کی؛ تو وہ اس سے بخوبی واقف ہیں کہ ان کو بے لگام ہوکر سب کچھ کرنے کی اجازت ہے؛ کیوں کہ اسرائیلی حکام ان کے خلاف کوئی اکشن نہیں لے سکتے؛ بل کہ یہ کہنا چاہیے کہ انھیں اسرائیل حکومت کا کھلا تعاون حاصل ہے۔
جہاں تک فلسطینیوں کی طرف سے پتھراؤ کی بات ہے؛  تو یہ دنیا کو بیوقوف بنانے کا انوکھا طریقہ ہے۔ وہ بندوق، پستول، مشین گن، ٹینک اور طرح طرح کے مہلک ہتھیاروں اور بموں سے حملہ کریں؛ تو دفاع اور اگر کوئی اپنی جان، اپنے گھر اور اپنی عبادت گاہ کی حفاظت کےلیے سنگ باری اور پتھراؤ کرے؛ تو ظالم اور دہشت گرد ٹھہرے! یہ کہاں کا انصاف ہے! ابھی کل کی بات ہے کہ غاصب اسرائیل کی حکومت نے پولیس اور دیگر سیکوریٹی اداروں کے اراکین کو پتھراؤ کرنے والے فلسطینیوں پر گولی چلانے کی عام اجازت دے دی ہے۔ اسرائیل کے اس اقدام کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے بین الاقوامی قوانین کی سخت خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ نیا قانون اسرائیلی سیکوریٹی اہل کاروں کو بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام کا نیا لائسنس دینے کے مترادف ہے۔ مگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو صبح و شام ٹھکرانے کے عادی لوگ، ان انسانی حقوق کی تنظیموں کے بیان پر کب توجہ دے سکتے ہیں؟!
اس حالیہ اسرائیلی حملے کے بعد جہاں ایک طرف کچھ انسانیت نواز لوگوں نے سڑکوں پر آکر اپنا احتجاج درج کرایا، وہیں دوسری طرف مسلم حکمرانوں نے بھی اس ظالمانہ تخریب کاری اور جارحیت و بربریت پر بر وقت اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیلی کاروائی کے بعد، اگر تمام مسلم ممالک کے حکمراں بر وقت اپنی زبان کھولنے کے عادی ہوجائیں؛ تو امید ہے کہ اس کا مثبت نتیجہ آئے گا اور اسرائیلی حکومت کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے بار بار اس کے ردّ عمل پر ضرور غور کرے گی۔
سعودیی عرب کے حکمراں، خادم حرمین شریفین ملک سلمان بن عبد العزیز (حفظہ اللہ) نے کھل کر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں اپنا احتجاج درج کرایا ہے۔ سعودی بادشاہ نے اس خطرناک اسرائیلی چڑھائی کی بھر پور مذمت کی۔ انھوں نے مسجد اقصی میں حملے کے بعد اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اور سیکوریٹی کونسل کے ممبران کو فوری سخت اقدام اٹھانے کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے اس معاملہ کے حل کے لیے بین الاقوامی لیڈران سے بر وقت سنجیدہ کوشش کرنے اپیل بھی کی اور سیکوریٹی کونسل سے درخواست کی کہ اس تصادم و شورش کو ختم کرنے کےلیے فوری مداخلت کرے۔ انھوں کے کہا کہ عبادت گزاروں پر حملہ کرنا احترام مذاہب کے خلاف ہے جو دنیا میں شدت پسندی کو بڑھاوا دیگا۔ خادم حرمین شریفین نے باضابطہ فون کرکے برطانوی وزیر اعظم کیمرون، روسی صدر پتن اور فرانس کے صدر ہولانڈ سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیلی حملے کے خلاف سنجیدہ کوشش کریں!
اسی طرح اردن کی حکومت نے بھی اسرائیلی فوجیوں کے اس حملے اور فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ کاروائیوں کی مذمت کی ہے۔ اردن کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ قبلہ اوّل کا دفاع امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ مسجد اقصی ماضی کی بنسبت اس وقت کہیں زیادہ خطرات سے دو چار ہے۔ اردن کی حکومت نے اس بات کو واضح طور پر کہا ہے کہ اب یہودی شرپسندوں کے ہاتھوں مسجد اقصی کی بے حرمتی اور اسرائیلی افواج کے ہاتھوں معصوم فلسطینیوں پر طاقت کے بے جا استعمال کے بعد خاموش رہنے کا کوئی جواز نہیں۔
عرب لیگ نے بھی بروقت قدم اٹھایا ہے جو قابل ستائش ہے۔ عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا اجلاس 27/ستمبر کو نیو یارک میں ہونا طے پایا ہے۔ عرب لیگ کے سکریٹری جنری: نبیل العربی نے کہا ہے کہ اس اجلاس میں فلسطنیوں پر اسرائیلی فوج کی ظالمانہ و دہشت گردانہ کاروائیوں، مسجد اقصی کے خلاف صہیونی سازشوں، اقصی کی مسلسل بے حرمتی کو روکنے پر غور و خوض کیا جائے گا۔
عرب لیگ کی طرح اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او، آئی، سی (Organization of Islamic Cooperation) کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بھی ہنگامی طور پر 30/ستمبر اور یکم اکتوبر کو طلب کیا گیا ہے۔ او، آئی، سی کے سکریٹری جنرل، جناب ایاد امین مدنی نے کہا ہے کہ اس اجلاس میں 57/مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ شرکت کریں گے اور تمام ممبران اسرائیلی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔
اللہ تعالی "عرب لیگ" اور "او، آئی، سی" کے ممبران کے دل میں کچھ ایسی باتیں ڈال دے کہ جس میں "قبلۂ اوّل" اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں خیر کا پیش خیمہ ہو۔ نہیں تو یہ فلسطینی اپنے ملک اور گھر میں رہ کر کب تک پناہ گزینوں اور قیدیوں کی سی زندگی گزاریں گے۔ آج کی تاریخ میں فلسطینیوں کی حیثیت پناہ گزینوں کی سی ہوگئی ہے؛ بل کہ کچھ اعتبار سے ان سے بھی بد تر ہے۔ ان کو کھانے کے لیے اناج کی سہولیت نہیں، پینے کے لیے صاف و شفاف پانی فراہم نہیں، مہینوں مہینوں تک بجلی کا انتظام نہیں، ان کے بچوں کےلیے کوئی عمدہ تعلیمی ادارہ نہیں۔ اگر بڑی محنت و مشقت اور قربانی کے بعد، کچھ کرتے بھی ہیں؛ تو ایک دن کی اسرائیلی دہشت گردانہ بمباری سے سب کچھ زمین بوس ہوجاتا ہے۔
ان مظلوم فلسطینیوں کو جس قوم کا سامنا ہے وہ نہایت ہی سرکش اور ضد و عناد سے بھری قوم ہے۔ اس قوم  کی سرشت  (Nature) میں یہ ہے ہی نہیں کہ وہ حق کو بخوشی قبول کریں؛ بل کہ ان کو اپنے مزعومہ "عظیم اسرائیل" کے خواب شرمندۂ تعمیر کرنے کی فکر ستاتی رہتی ہے۔ اللہ تعالی نے اس بے بہبود قوم کے ضد و عناد کے حوالے سے قرآن کریم میں فرمایا ہے: "وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ۔" (سورہ بقرہ، آیت: 120) ترجمہ: "اور ہرگز راضی نہ ہوں گے تجھ سے یہود اور نصاری، جب تک تم تابع نہ ہو ان کے دین کا۔"  یعنی  یہود و نصاری اتنے سرکش اور ضدی ہیں کہ ان کو امرحق سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ اپنی ضد پر اڑے رہیں گے اور کبھی بھی حق کی دعوت کو قبول نہیں کریں گے۔ ہاں، ایک صورت یہ ہے کہ آپ ان کے تابع ہوجائیں؛ تو ہی وہ آپ سے خوش ہوں گے؛ جب کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ ان کے تابع ہوجائیں؛ لہذا ان سے موافقت کی امید رکھنا بیکار کی بات ہے۔ جناب محمد رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم- کے زمانے میں جن یہودیوں کی یہ حالت ہو، آج ان کی اولاد سے کیا امید کی جاسکتی ہے کہ وہ حق کو قبول کرلیں گے اور ان کے ساتھ مذاکرات کیا جائے!

اس حقیقت کے باوجود کچھ ذوالوجہین قسم کے لوگ ہمیشہ ان صہیونیت زدہ یہودیوں سے مذاکرات کے میز پر بیٹھ کر قضیۂ فلسطین اور قضیۂ مسجد اقصی کا حل نکالنے کی تلقین کرتے نہیں تھکتے ہیں؛ جب کہ یہ ایسی قوم ہے جو مذاکرات کی زبان نہیں سمجھتی۔ یہ بزدل قوم کبھی بھی امن پروگرام کو منظور نہیں کریگی۔ پھر ان سے مذاکرات کس لیے؟ ابھی اسی حالیہ حملہ کا ایک شرمناک واقعہ پڑھیے! اس حملہ کے موقع سے ناپاک اسرائیلی وزیر زراعت ان درجنوں شدت پسند صہیونیوں کے ساتھ تھے، جو مسجد میں موجود نمازی، طلبہ اور معصوم بچوں کو بغیر کسی رحم و کرم کے زخمی کرکے مسجد سے باہر جانے پر مجبور کررہے تھے۔ جس ملک کا وزیر اور منسٹر عام شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے ساتھ ہوکر معصوموں پر ظلم و زیادتی کو روا رکھے، وہاں کی حکومت سے مذاکرات اور ڈائیلاگ چہ معنی دارد۔ قضیۂ فلسطین اور مسجد اقصی کا واحد حل یہ ہے کہ اہالیان فلسطین کو مکمل آزادی سے رہنے کی اجازت  دی جائے، فلسطین فلسطینیوں کے حوالے کیا جائے، اسے مکمل ریاست کا حق دیا جائے اور مسجد اقصی کو مسلمانوں کی عبادت گاہ سمجھ کر مسلمانوں کے حوالے کیا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے؛ تو دنیا کی کوئی طاقت قضیۂ فلسطین اور مسجد اقصی کا حل پیش نہیں کرسکتی۔  ٭٭٭

حج: ایک عاشقانہ سفر

بسم اللہ الرحمن الرحیم
بہ قلم: خورشید عالم داؤد قاسمی
حج کی فرضیت:
حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہےجن پر اسلام کی بنیاد ہے۔ حج کی فرضیت قرآن کریم، حدیث شریف اور اجماع امت سے ایسے ہی ثابت ہے جیسا کہ نماز، روزہ اور زکاۃ کی فرضیت ثابت ہے؛ اس لیے جو شخص حج کی فرضیت کا انکار کرے، وہ کافر ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ" (سورہ آل عمران، آیت: 97) ترجمہ : "اور اللہ کے واسطے لوگوں کے ذمہ اس مکان کا حج کرنا ہے، یعنی اس شخص کے جو کہ طاقت رکھے وہاں تک کی سبیل کی اور جو شخص منکر ہو؛ تو اللہ تعالی تمام جہاں والوں سے غنی ہیں۔" یہ  آیت کریمہ حج کی فرضیت کے حوالے سے  نصّ قطعی ہے۔
رسول اللہ-صلی اللہ علیہ وسلم- نے ان پانچوں ارکان کو ایک حدیث شریف میں بیان فرمایا ہے۔ "بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ." (بخاری شریف، حدیث نمبر: 8) ترجمہ: "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)  اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا ، زکاۃ دینا،  حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔"
ایک عاشقانہ سفر:
انسانی طبیعت یہ تقاضہ کرتی ہے کہ انسان اپنے وطن، اہل و عیال ، دوست و رشتہ داراور مال و دولت سے انسیت ومحبت رکھے اور ان کے قریب رہے۔ جب آدمی حج کے لیے جاتا ہے؛ تو اسے اپنے وطن اور بیوی و بچے  اور رشتے دار و اقارب کو چھوڑ کر اور مال و دولت خرچ کرکے جانا پڑتا ہے۔ یہ سب اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ حج کی ادائیگی شریعت کا حکم ہے۔  یہی وجہ ہے کہ شریعت نے حج کے حوالے سے بہت ہی رغبت دلائی ہے، انسان  کوکعبہ مشرفہ کے حج و زیارت پر ابھارا،  مہبط وحی و رسالت کی دیدار کا شوق بھی دلایا ہے اور  سب سے بڑھ کر شریعت نے حج کا اتنا  اجر و ثواب متعین فرمایا ہے کہ سفر حج ایک عاشقانہ سفر بن جاتا ہے۔ ذیل کے سطور میں، حج کےاجر و ثواب احادیث شریفہ کی روشنی میں، ملاحظہ فرمائے!
حج  انتہائی نیک عمل ہے:
حضرت ابو ہریرہ -رضی اللہ تعالی عنہ- بیان کرتے ہیں: سُئِلَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: "إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ" قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: "جِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ" قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: "حَجٌّ مَبْرُورٌ." (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1519) ترجمہ : (ایک بار)نبی کریم –صلی اللہ علیہ وسلم– سے دریافت کیا گیا کہ کون سے اعمال اچھے ہیں؟ آپ  –صلی اللہ علیہ وسلم– نے ارشاد فرمایا : "اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ۔" پوچھا گيا پھر کون؟  فرمایا : "اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔" پوچھا گیاپھر کون ؟  ارشاد فرمایا: " حج مبرور۔"
حج مبرور  کیا ہے؟
·       وہ حج  جس کے دوران کوئی گناہ کا ارتکاب نہیں ہوا ہو۔
·       وہ حج جو اللہ کے یہاں مقبول ہو۔
·       وہ حج جس میں کوئی ریا اور شہرت مقصود نہ ہو اور جس میں کوئی فسق و فجور نہ ہو۔
·       وہ حج جس سے لوٹنے کے بعدگناہ کی تکرار نہ ہو اور نیکی کا رجحان  بڑھ جائے ۔
·       وہ حج جس کے بعد آدمی  دنیا سے بے رغبت ہوجائے اور آخرت کے سلسلہ میں دل چسپی دکھا ئے ۔
حج مبرور کی فضیلت:
ابو ہریرہ -رضی اللہ عنہ -  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا : "العُمْرَةُ إِلَى العُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا، وَالحَجُّ المَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الجَنَّةُ." [بخاری شریف، حدیث: 1773، مسلم شریف، حدیث: 437 - (1349)] ترجمہ: "ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان( گناہوں)کا کفارہ  ہے،جو ان دونوں کے درمیان ہوئے ہوں، اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔"
حج پچھلے سارے گناہوں کو مٹادیتا ہے:
ابن شِماسہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمرو بن عاص –رضی اللہ عنہ- کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب کہ وہ قریب المرگ تھے۔ وہ کافی دیر تک  روئے، پھر انھوں نے اپنا چہرہ دیوار کی طرف کرلیا۔ اس پر ان کے صاحبزادے نے چند سوالات کیے۔ پھر انھوں نے (اپنے اسلام قبول کرنے کی کہانی سناتے ہوئے) فرمایا: جب اللہ نے میرے قلب کو نور ایمان سے منور کرنا چاہا؛  تو میں رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم- کی خدمت میں حاضرہوا اورعرض کیا: آپ –صلی اللہ علیہ وسلم-اپنا داہنا  دست (مبارک )پھیلائے، تاکہ میں بیعت کروں ۔  آپ –صلی اللہ علیہ وسلم-نے پھیلایا۔ پھر میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔ آپ –صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا : اے عمرو! تجھے کیا ہوا؟  میں نے کہا: میری ایک شرط ہے۔ آپ –صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا: تمہاری کیا شرط ہے؟  میں نے کہا:  میری مغفرت کردی جائے۔ آپ–صلی اللہ علیہ وسلم-  نے فرمایا : "أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا؟ وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟" [مسلم شریف، حدیث: 192 - (121)] ترجمہ: "کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اسلام (قبول کرنا)  پہلے (کے تمام گناہوں) کو مٹا دیتا ہے؟  ہجرت گزشتہ گناہوں کو مٹادیتی ہے اور حج پہلے(کے کیے ہوئے گناہوں) کو مٹا دیتا ہے ۔"
ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ -رضی اللہ عنہ - نے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  –صلی اللہ علیہ وسلم-نے ارشاد فرمایا: "مَنْ حَجَّ لِلَّهِ فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ." (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1521) ترجمہ: "جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اور اس نے (اس دوران) فحش کلامی یا جماع اور گناہ نہیں کیا ؛ تو وہ (حج کے بعد گناہوں سے پاک ہوکر اپنے گھراس طرح) لوٹا، جیسا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو۔"
"رفَث" کا معنی جماع، ہم بستری اور جو کچھ بھی شوہر و بیوی کے درمیان حالت جماع میں ہوتا ہے، جیسے بوس و  کنار وغیرہ کے ہیں۔ ابو عبیدہ نے فرمایا: "رفَث" کا مطلب "فحش کلامی" ہے۔ پھر کنایۃ جماع اور متعلقات جماع کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ (الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ 22/275)
مسئلہ: حالت احرام میں جماع کرنا فقہاء کرام کے نزدیک اتفاقی طور پر حرام ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَال فِي الْحَجِّ۔" (سورہ بقرہ، آیت: 197) ترجمہ: " سو جو شخص ان میں حج مقرر کرے، تو پھر نہ کوئی فحش بات ہے اور نہ کوئی بے حکمی ہے اور نہ  کسی قسم کا نزاع زیبا ہے۔"
مسئلہ: اگر کسی نے حالت احرام میں عمدا (جان بوجھ کر) جماع کیا ہو؛ تو اس کا حج فاسد ہوجائے گا اور قضاء و کفارہ لازم ہوگا۔ اگر کسی نے حالت نسیان(بھول )  میں جماع کیا ہو؛ تو حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک اس صورت میں بھی حج فاسد ہوجائے گا اور قضاء و کفارہ لازم ہوگا؛ لیکن شافعیہ کے نزدیک حج فاسد نہیں ہوگا؛ بل کہ صرف کفارہ لازم ہوگا۔ (الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ 22/276-277)
            " فِسْق" سے مراد معاصی و گناہ ہے۔ "كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ"  کی شرح کرتے ہوئے علامہ ابن حجرعسقلانی –رحمہ اللہ- فرماتے ہیں : "کسی گناہ کے بغیر، اس کا ظاہری مطلب صغائر و کبائر (چھوٹے اور بڑے): سارے  گناہوں کا معاف کیا جانا ہے۔" (فتح الباری 3/382-383)
بوڑھے، کمزور اور عورت کا جہاد:
حضرت ابوہریرۃ  -رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے  نبی کریم –صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا: "جِهَادُ الْكَبِيرِ وَالضَّعِيفِ وَالْمَرْأَةِ الْحَجُّ وَالْعُمْرَةُ " (السنن الکبری للنسائی، حدیث: 3592، مسند احمد، حدیث: 9459، السنن الکبری للبیھقی، حدیث: 8759) ترجمہ : "بڑی عمر والے،  کمزور شخص اور عورت کا جہاد : حج اور عمرہ ہے ۔"
ام المومنین عائشہ -رضی اللہ عنہا- فرماتی ہیں: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَلاَ نَغْزُو وَنُجَاهِدُ مَعَكُمْ؟ فَقَالَ: "لَكِنَّ أَحْسَنَ الجِهَادِ وَأَجْمَلَهُ الحَجُّ، حَجٌّ مَبْرُورٌ." فَقَالَتْ عَائِشَةُ "فَلاَ أَدَعُ الحَجَّ بَعْدَ إِذْ سَمِعْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ." (بخاری شریف، حدیث: 1861) ترجمہ : میں نے کہا: اے اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ وسلم-! کیا ہم آپ -صلی اللہ علیہ وسلم-کے ساتھ جہاد اور غزوہ میں شریک نہ ہوں؟  تو آپ-صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا : "لیکن سب سے بہتر اور اچھا جہاد حج : حج مبرور ہے۔" حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ" جب سے میں نے  رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- سے یہ سنا ہے؛ تو اس کے بعد سے میں حج نہیں چھوڑتی ہوں ۔"
حج افضل جہاد ہے:
ام المومنین عائشہ -رضی اللہ عنہا-نقل کرتی ہیں  کہ انھوں نے کہا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! نَرَى الجِهَادَ أَفْضَلَ العَمَلِ، أَفَلاَ نُجَاهِدُ؟ قَالَ: "لاَ، لَكِنَّ أَفْضَلَ الجِهَادِ حَجٌّ مَبْرُورٌ." (بخاری شریف، حدیث: 1520، السنن الکبری للبیہقی، حدیث: 17805) ترجمہ : اے اللہ کے رسول! ہم جہاد کو افضل العمل سمجھتے ہیں ، تو کیا ہم جہاد نہ کریں؟  آپ  -صلی اللہ علیہ وسلم -نے فرمایا : "نہیں، لیکن بہترین جہاد حج مبرور ہے۔"
فقرا ور گناہ کو مٹانے والے اعمال:
حضرت ابن عباس –رضی اللہ عنہما- سے روایت ہے کہ نبی کریم –صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا : "أَدِيمُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذَّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ." (المعجم الاوسط، حدیث: 3814) ترجمہ : "حج اور عمرہ پر دوام برتو؛  کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو ختم کرتے ہیں ، جیسا کہ دھونکنی لوہا سے زنگ کو دور کردیتی ہے۔"
ایک دوسری حدیث ہے جس میں رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم-نے ارشاد فرمایا: "تَابِعُوا بَيْنَ الحَجِّ وَالعُمْرَةِ، فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الكِيرُ خَبَثَ الحَدِيدِ، وَالذَّهَبِ، وَالفِضَّةِ، وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ المَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الجَنَّةُ." (ترمذی شریف، حدیث نمبر: 810) ترجمہ: "حج اور عمرہ ایک ساتھ کیا کرو؛ کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو مٹاتے ہیں جیسا کہ بھٹی لوہا ، سونا اور چاندی سے زنگ ختم کردیتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔"
برائے حج خرچ کرنے کی فضیلت:
ابو زہیر –رضی اللہ عنہ– نبی کریم –صلی اللہ علیہ وسلم– سے روایت کرتے ہیں آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– نے ارشاد فرمایا : "النَّفَقَةُ فِي الْحَجِّ كَالنَّفَقَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِسَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ." (مسند احمد، حدیث: 23000، شعب الایمان، حدیث: 3829) ترجمہ : "حج میں خرچ کرنا اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی طرح، (جس کا ثواب) سات سو گنا تک ہے "۔
حاجیوں کی دعائیں:
ابن عمرـ رضی اللہ عنہماـ فرماتے ہیں: "الْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللهِ تَعَالَى يُعْطِيهِمْ مَسْأَلَتَهُمْ، وَيَسْتَجِيبُ دُعَاءَهُمْ، وَيَقْبَلُ شَفَاعَتَهُمْ، وَيُضَاعِفُ لَهُمْ أَلْفَ أَلْفَ ضِعْفٍ." (اخبار مکۃ للفاکہی، حدیث: 902) ترجمہ : "حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالی کےمہمان  ہیں، اللہ تعالی ان کی مانگ ان کو عطا فرماتے ہیں، ان کی دعاؤں کو قبول کرتے ہیں، ان کی شفارش قبول کرتے ہیں اور ان کے لیے ہزار ہزار گنا تک ثواب بڑھایا جاتا ہے"۔
حضرت ابن عمرـ رضی اللہ عنہماـ نبی کریم  -صلی اللہ علیہ وسلم -  سے روایت کرتے ہیں کہ "الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللَّهِ، دَعَاهُمْ، فَأَجَابُوهُ، وَسَأَلُوهُ، فَأَعْطَاهُمْ." (ابن ماجہ، حدیث: 2893) ترجمہ : اللہ کے راستے کا مجاہد اور  حج و عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں۔  اللہ نے انھیں بلایا؛ لہذا  انھوں نے اس پر لبیک کہا اور انھوں نے اللہ تعالی سے مانگا ہے؛  تو اللہ  نے ان کو نوازا ہے۔"
حج کرنے میں جلدی کیجیے:
ابن عباس –رضی اللہ عنہما- روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا: "تَعَجَّلُوا إِلَى الْحَجِّ - يَعْنِي: الْفَرِيضَةَ - فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي مَا يَعْرِضُ لَهُ." (مسند احمد، حدیث: 2867) ترجمہ : "حج –یعنی فرض حج–  میں جلدی کرو ؛ کیوں کہ تم میں کوئی یہ نہیں جانتا کہ اسے کیا عذر پیش آنے والاہے۔"
حج نہ کرنے پر وعید:
حضرت علی -رضی اللہ عنہ -  نے کہا کہ اللہ کے رسول –صلی اللہ علیہ وسلم–نے ارشاد فرمایا: "مَنْ مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلَا عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا، وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ يَقُولُ فِي كِتَابِهِ: "وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ البَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا". [آل عمران: 97] (ترمذی شریف، حدیث نمبر: 812) ترجمہ:  "جو شخص اتنے توشہ اور سواری کا مالک ہو جائے،  جو اسے بیت اللہ تک پہنچادے، اس کے باوجود وہ حج نہ کرے ؛ تو اس کے لیے کوئی ذمے داری نہیں ہے کہ وہ یہودی ہونے کی حالت میں مرے یا نصرانی ، اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالی اپنی کتاب میں فرماتا ہے: "اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا، اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی۔"
حضرت عمر بن خطاب -رضی اللہ عنہ- نے فرمایا: "لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَبْعَثَ رَجُلًا إِلَى هَذِهِ الْأَمْصَارِ، فَلْيَنْظُرُوا إِلَى كُلِّ رَجُلٍ ذِي جَدَةٍ لَمْ يَحُجَّ، فَيَضْرِبُوا عَلَيْهِمُ الْجِزْيَةَ، مَا هُمْ مُسْلِمِينَ، مَا هُمْ مُسْلِمِينَ." (السنۃ لابی بکر بن الخلال 5/44) ترجمہ: "میں نے ارادہ کیا  کہ کچھ لوگوں کوان شہروں میں بھیجوں، پھر وہ  ان لوگوں کی تحقیق کریں کہ   جنھوں نے استطاعت کے باوجود  حج نہیں کیا، پھر وہ ان لوگوں پر ٹیکس  لاگو کریں؛ (کیوں کہ) وہ مسلمان نہیں ہیں،  وہ مسلمان نہیں ہیں۔"
حرف آخر:
حج کے اجر و ثواب جو احادیث مبارکہ کی روشنی میں لکھے گئے ہیں، وہ کسی بھی مسلمان کو حج و عمرہ کا شوق دلانے کے لیے کافی ہیں۔ جن مسلمانوں کو اللہ تعالی نے مال و دولت سے نوازا ہے، ان کو چاہیے کہ خود کو حج و عمرہ کے عظیم ثواب سے محروم نہ  کریں؛ کیوں کہ ہم ہمہ دم نیکیوں کے حصول اور گناہوں و  سیئات سے مغفرت کے سخت محتاج ہیں ۔ یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ ہماری زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ یہ کاغذ کی ایک ناؤ ہے، جہاں تک پہنچ جائے یہ ایک غنیمت ہے۔ آپ کی یہ ڈھیڑ دن کی زندگی چلی گئی؛ تو پھر کبھی واپس نہیں آئے گی۔ پھر حج  کرنے میں کیوں تاخیر!

(مضمون نگار  دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا کے استاذ ہیں۔ ان سے   qasmikhursheed@yahoo.co.in  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)

AlHudaClasses

Daily English Phrase

keep the ball rolling کام کو جاری رکھنا We realised we would need outside funding to keep the ball rolling. ہم نے محسوس کیا کہ کام کو جاری ر...