Search This Blog

مصر کی جمہوریت پر ڈاکہ زنی


مصر کی جمہوریت پر ڈاکہ زنی اور پر امن مظاہرین پر فائرنگ
بہ قلم : خورشید عالم داؤد قاسمی
مصر افریقی بر اعظم کا ایک عظیم ملک ہے، جو اپنی پرانی روایات اور ‘‘جامعہ ازہر’’ کی وجہ سے پوری دینا میں مشہور ہے۔ یہ ملک عام طور پر عرب کا قلب کہا جاتا ہے اور اس میں کسی طرح کا کوئی مبالغہ نہیں ہے؛ بل کہ یہ ایک حقیقت ہے۔ مصر میں ایک لمبی مدت تک شاہی حکومت رہی۔۲۶ جولائی ۱۹۵۲ کو‘‘آر، سی ، سی’’(Revolution Command Council)  کے قائد،کمانڈر اِن چیف محمد نجیب یوسف نے شاہ فاروق سے مطالبہ کیا کہ وہ شاہزادہ احمد فواد (ایک شیرخوار بچہ) کو بادشاہت سونپ دیں اور وہ خود جلاوطن ہوجائیں؛ چناں چہ ایسا ہی ہوا کہ شاہ فاروق نے شاہزادہ  احمد فواد کو بادشاہ نامزد کرکے، اپنی زندگی کے بقیہ ایام اٹلی میں جلاوطنی میں گزار دیا۔  پھر ایک سال بھی مکمل نہ ہونے پایا تھا کہ ۱۸ جون ۱۹۵۳ کومحمد نجیب نے،شاہ احمد فواد کو معزول کرکے‘‘ ریپبلک آف مصر’’ کا اعلان کردیا اور محمد نجیب بحیثیت صدر اور وزیرِ اعظم مصر کا مالک بن گیا۔ یہاں سے  فوجی ڈکٹیٹروں کا دورشروع ہوا  اور ۱۱فروری،  ۲۰۱۱ تک فوجیوں کی ڈکٹیٹرشپ میں عوام پستے رہے۔ ۲۰۱۱ کے شروع میں عرب ممالک میں جو  انقلاب آیا،اس  کی آندھی میں،۳۰ سال تک ظالمانہ اور جابرانہ طور پرمصر کے سیاہ و سفید کا مالک رہنے والا ڈکٹیٹر ‘‘حسنی مبارک ’’نے، حکومت کی باگ ڈور فوجی جنرل:محمد حسین طنطاوی کے حوالے کرکے اپنے استعفی کا اعلان کروا دیا اور خود حکومت سے الگ تھلگ ہوگیا؛ کیوں کہ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔
انقلاب کے بعد ،  تقریبا ڈیڑھ سال تک جنرل محمد حسین طنطاوی ملک کے قائد کی حیثیت سے رہے، پھر انتخاب کا وقت آیا اور انتخاب میں  ‘‘الاخوان المسلمون’’ کی سیاسی وِنگ: ‘‘پارٹی آف فریڈم اینڈ جسٹس’’کے امیدوار، ڈاکٹر محمد مرسی نے ، حسنی مبارک کے زیر اقتدار رہے وزیرِاعظم، احمدمحمد شفیق کو شکشت دے کر جیت حاصل کی۔  پھرڈاکٹر  مرسی ۳۰ جون، ۲۰۱۲ کو حلف برداری کی بعد ، مصر کے پہلے جمہوری صدر بن گئے۔ ڈاکٹر محمد مرسی نے صدر منتخب ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد فوجی جنرل محمد حسین طنطاوی کو ان کے عہدے سے برخواست کردیا اور اس کی جگہ عبدالفتاح السیسی کو فوج کا جنرل اور وزیر دفاع بنا یا۔ عوامی ریفرنڈم کے ذریعہ، عوام کی خواہش کے مطابق، عوام  کو پہلا جمہوری دستور دیا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا۔ توانائی، زراعت اور صنعت کو ترقی دینے کے لیے منصوبے تیار کیے۔ مصر کی طرف سے غزہ (فلسطین )کی ناکہ بندی ختم کروائی اور غزہ کے مسلمانوں کو سکون کی سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔  ڈاکٹر مرسی کی کوشش اور خواہش  یہ تھی کہ مصر ایک خود کفیل ملک بن جائے اور دوسرے ممالک کا  محتاج بن کر نہ رہے۔
لیکن ڈاکٹر مرسی یہ کی کوشش ، کچھ مفاد پرست لوگوں کو نہیں بھائی اوروہ  دشمنوں کا آلئہ کار بن کر ، ڈاکٹر مرسی کے خلاف، ایک نام نہاد ‘‘تمرد ’’(Rebel) نامی تنظیم کے بینر تلے،  میدان میں آگئے اورعلم بغاوت بلند کردیا ۔ میدان میں آنے والوں میں اکثر یہودی، عیسائی اور ملحد قسم کے لوگ تھے؛ لیکن کچھ مسلمانوں نے اپنے فروعی اختلاف کی بنیاد پر، ڈاکٹرمحمد  مرسی کے خلاف میدان میں ان لوگوں کا ساتھ دینے کے لیے صف بستہ کھڑے ہو گئے اور ان کے استعفی کا مطالبہ شروع کردیا۔ مرسی مخالف یہ مظاہرہ، محمد البرادعی کی نگرانی میں ، چند دنوں تک   چلتا رہا۔ وزیرِ دفاع اور فوجی جنرل عبد الفتاح السیسی کو اچھا موقع ہاتھ لگا اور اس نے ایک جمہوری طور پر  منتخب صدر کو  ۴۸ گھنٹے میں ان  مظاہرین سے صلح صفائی کرنے کا حکم جاری کیا اور نہ کرنے کی صورت میں معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی دھمکی دیدی۔ پھر ۴۸ گھنٹے بعد فوجی جنرل نے ،۳ جولائی ، ۲۰۱۳ کو ڈاکٹر محمد مرسی کو گرفتار کرکے کسی نا معلوم جگہ پر قید کردیا اور سابق دستور کی منسوخی کے ساتھ ساتھ ایک کٹھ پتلی ،عبوری حکومت کا اعلان کردیا۔
اس عبوری حکومت کا صدر مصر کے چیف جسٹس عدلی منصور کو بناگیاہے، جس کے بارے اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وہ یہودی ہے؛ جب کہ نائب صدر محمد البرادعی کو بنا گیا ہے ، جو ایک لبرل خیال مسلمان اور مرسی مخالف مظاہرہ کی قیادت کر رہا تھا۔ اسی طرح ۱۶ جولائی کو وزیرِ اعظم  کا عہدہ حازم الببلاوی کودیا گیا ہے ؛ جب کہ نائب وزیرِ اعظم کے منصب پر عبدا لفتاح السیسی خود ہے۔ فوجی جنرل  نے اس طرح سے ایک جمہوری طور پر  منتخب حکومت کو ہتھیار کے بل پر ہٹا کر، ایک غیر قانونی، غیر جمہوری اورخائن حکومت تشکیل دیدی۔
اس غیر جمہوری حکومت کے وجود میں آتے ہی،اس کے نائب صدر محمد البرادعی نے اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا۔ پورے مصری عوام تجسس میں پڑے ہوئے ہیں کہ آخر اتنی جلدی یہ دورہ کیوں؟ اس کا کیا راز ہے؟ الاخوان المسلمون کے اراکین کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سے مصر کی طرف سے غزہ( فلسطین) کی ناکہ بندی جس طرح حسنی مبارک کے دور میں تھی، اسی طرح پھر سے ناکہ بندی کردی گئی ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ غزہ میں رہ رہے مسلمان، پھر مصائب و آلام میں گھر گئے ہیں۔ مسجد میں نماز ادا کررہے لوگوں  پر پولیس فائرنگ کررہی ہے۔ مسجدوں میں نماز سے روکا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر مرسی کو پھنسانے کے لیے بیجا مقدمات بنائے جارہے ہیں اور ان کو ریمانڈ پر لیا  جارہا ہے۔ وزیرِ داخلہ نے یہ اعلان کیاہے کہ حسنی مبارک کے دور میں جو پولیس افسران تھے اور ان کو انقلاب کے بعد معزول کردیا گیا تھا، ان کو پھر سے بحال کیا جائے گا۔ مصر تو مصر، دوسرے ممالک کے انصاف پسند لوگ بھی اس غیر جمہوری حکومت کے ان اقدامات سے خوش نہیں ہیں۔
اس حکومت کی تشکیل کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پڑوسی ممالک اور عالم عرب سراپا احتجاج بن جاتا اور اس حکومت کو  منظور نہیں کرتا؛ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ؛ بل کہ اس کے برخلاف، سعودیہ عربیہ اور خلیجی ممالک نے نئی حکومت کو مبارکبادی کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر مالی تعاون بھی کیا۔سیدھے سادھے عام مسلمان، ان عرب ممالک کے حکمرانوں کی چال کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ آخر اِن حکمرانوں کا منشاء کیا ہے؟ وہ ایک اسلام پسند حکمراں کے خلاف کیوں کھڑے ہو رہے ہیں؟  وہ اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے کیا کررہے ہیں؟ 
 ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت کے سقوط کے بعد  سے پورا مصر سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ قاہرہ ، اسکندریہ اور دوسرے بڑے شہروں کی شاہراہیں اور میدان  کو ‘‘الاخوان المسلمون’’ کے ممبران اور دوسرے عوام نے پر امن مظاہرین کی شکل میں بھر دیا ہے اور اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے نعرہ بازی شروع کردی ہے۔  ان مظاہرین کا سب سے بڑا مجمع قاہرہ کے ‘‘رابعۃ العدویۃ’’ میں ہے۔ سب کے سب عبد الفتاح السیسی کے خلاف نعرہ لگار رہے ہیں اور السیسی کو غدار اور خائن سے تعبیر کر رہے ہیں ۔ ان پر امن مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ملک میں فوج کے زیر اثر بنائی گئی غیر دستوری حکومت کو فورا ختم کرکے، ڈاکٹر محمد مرسی کو ان کے عہدے پر واپس لاجائے؛ کیوں کہ وہ عوام کے منتخب صدر ہیں اور عوام نے ان کو ایک معینہ مدت تک کے لیے ملک  پر حکومت کرنے کو مینڈیٹ(Mandate)  دیا ہے۔ فوج کے ذریعے اس حکومت میں کسی طرح کی مداخلت  خیانت اور غداری کے مترادف ہے۔
فوجی جنرل نے جب یہ دیکھا  کہ تقریبا پورےعوام سراپا احتاج  بنے ہوئے ہیں اور سب کے سب ڈاکٹر مرسی کی موافقت میں ملک کے طول و عرض  میں میدانوں کو بھرے جارہے ہیں اور گھر واپس جانے کا نام نہیں لیتے؛ تو اس نے عوام سے اپیل کی کہ ۲۶ جولائی کو ہمارے حق میں مصر کے میدانوں کو بھر کر ہمیں آپ مینڈیٹ دیں۔ شوسل میڈیاکی رپورٹ کے مطابق عبدالفتاح کو مینڈیٹ دینے کےلیے بہت ہی کم لوگ سڑکوں پر آئے ۔ہاں!  اتنا ضرور ہوا کہ سارے فوجی سول ڈریس میں ملبوس ہوکر سڑکوں کو بھرکر اس کو مینڈیٹ دے دیا۔ لیکن کوئی بھی سیاسی بصیرت رکھنے والا شخص اس کو قبول نہیں کرسکتا؛ کیوں کہ اس جمہوری دور میں عوام کو سڑکوں پر اتاڑ کر مینڈیٹ نہیں لیا جاتا ہے؛ بل کہ یہ انتخاب کے ذریعے ہوتا ہے۔
اب وہ پر امن مظاہرین جو ملک کے طول و عرض میں ڈاکٹر مرسی کی موافقت اور فوجی جنرل کی مخالفت میں نعرے لگا رہے ہیں، ان کو دہشت گرد اور ملک مخالف عناصر سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ ان مظاہرین پر پولیس اور فورس سے بے تحاشہ فائرنگ کروائی جار رہی ہے۔ الاخوان المسلمون کے ترجمان کے مطابق اب تک تقریبا ۲۰۰ مظاہرین پولیس کی فائرنگ سے شہید ہو چکے ہیں؛ جب کہ تقریبا پانچ ہزار زخمی ہیں۔ ان شہیدوںمیں بچے، عورت اور مرد سب شامل ہیں ۔ جب مظاہرہ شروع ہوا تھا اس موقع سے ایک ہی دن ۴ جوان لڑکیاں پولیس کی فائرنگ سے شہید ہوئی تھیں۔ اب ان پر امن مظاہرین کو زبردستی ان کے گھر بھیجنے کی شازش کی جا رہی ہے۔ انہیں ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔ جن لوگوں نے  ڈاکٹر محمد مرسی کو اقتدار سے بے دخل کیا یا کروایا ہے، کیا وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ مرسی کے عہدِ اقتدار میں بھی کسی مظاہرہ کرنے والے پر فائرنگ کی گئی ہے؟ مگر اب تک کوئی انسانی حقوق کی تنظیم یا پھرقصر ابیض(White House)  اور  اقوام متحدہ کی کرسیوں  پر آرام فرما آقاؤں کی آنکھیں نہیں کھلیں ہیں۔
مان لیا جائے کہ اگر یہی صورتِ حال ڈاکٹر مرسی کے دور اقتدار میں ہوتی، تو بھی حقوقِ انسانی کا راگ الاپنے والی مقامی اور عالمی تنظیمیں، قصر ابیض میں بیٹھاسب سے طاقتور انسان اور اقوام متحدہ کی بلند و بالا اور  پر شکوہ عمارت میں بیٹھے پوری دنیا کے نگران ِاعلی خاموش تماشائی بنے رہتے؟ ایسا ہرگز نہیں ہوتا ہے؛ بل کہ اس صورت میں وہ  ہدایات (Instructions)  جاری کرتےاور  اس پر عمل نہیں ہوتا ، تو وارننگ(Warning)  دیتے۔ اگر وارننگ سے چشم پوشی کی جاتی تو ناٹو (NATO)  پہلوان کو بھیجا جاتا، جیسا کہ دانشوروں نے اس کا مشاہدہ  ‘‘لیبیا’’ میں اور دوسری کئی جگہوں پر کیا ہے۔  لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ عالمی آقا ایسا کیوں کرتے ہیں؟ جواب صاف ہے کہ ان کو ‘‘اسلام’’ یا پھر ‘‘اسلام پسند’’ شخص نہیں چاہیے۔ ان کو  ایسا شخص چاہیے جو نام کا تو مسلمان ہو؛ لیکن در حقیقت ان کے مفادات کا ضامن اور کفیل ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ عالمِ عرب کا قلب کہا جانے والا مصر ایک بار پھر فوجیوں کے قبضے میں ہے۔ اب یہ فوجی جیسے چاہے اس کا استحصال کرے، کم سے کم کچھ دنوں کے لیے تو ان کو کوئی روکنے والا نہیں۔ مگر عبد الفتاح کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اخوان کے ممبران اب پہلے جیسی حالت میں نہیں ہیں؛ بل کہ ان کی سیاسی سمجھ اور  پوزیشن پہلے کے مقابلے میں بہت اچھی ہے۔ اب اخوانیوں نے اچھی طرح سے پہچان لیا ہے کہ ان کے دوست کون ہیں اور دشمن کون ہیں۔  لہذا جب تک مصر میں ‘‘جمہوریت ’’واپس نہیں آجاتی ہےاور اخوانیوں  کے مطالبات پورے نہیں ہوں تےہیں،  اس وقت تک وہ فوجی جنرل کو چین کی نیند نہیں سونے دیں گے۔
(مضمون نگار ،مولانا خورشید عالم داؤد قاسمی، دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا، افریقہ  کے استاذ ہیں۔ ان سے   qasmikhursheed@yahoo.co.in  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)

No comments:

Post a Comment

Al-Huda Classes

Motivational Quotes

Some Motivational Quotes: 1. "Believe you can, and you’re halfway there." یقین رکھو کہ تم کر سکتے ہو، اور تم آدھے راستے پر پہنچ جا...